سی این جی اور عید

کہتے ہیں چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔میں بھی عید الاضحی کے مقدس اور خوشیوں بھرے موقع پہ آپ کی خدمت میں عید مبارک کہہ کے اپنی اس قربانی کے جانور کی تلاش میں نکلنا چاہتا تھا جو ابھی صرف میرے ذہن میں ہے۔قربانی کا کوئی جانور بھاتا ہی نہیں۔ہمارے جانور بھی ہماری طرح مسلے اور کچلے ہوئے جانور ہیں۔منہ بسورے ہوئے ، خفا اور ناراض ناراض سے۔ جس پہ جا کے نظر ٹکتی ہے ۔جس کا پیٹ بھرا ہوا نظر آتا ہے۔جس کی کھال چمک رہی ہوتی ہے اور جس کے گلے میں گھنگھرو اور پاﺅں میں پائل بج رہی ہوتی ہے وہ اشرافیہ کا نمائندہ نکل آتا ہے۔وہ غریب کے ہاتھوں بھلا کیوں قربان ہونا چاہے گا؟ اس کی قیمت سن کے خود اس پہ قربان ہونے کو دل کرتا ہے۔اس کے نخرے اور نازو انداز دیکھ کے دل چاہتا ہے کہ اس کو رکھ لیا جائے اور اس کے بدلے اپنی گردن قصائی کی چھری کے نیچے دے دی جائے۔

اسی طرح کے ایک مہنگائی سے ستائے میاں نے بیوی کے اس سوال پہ کہ اس بار قربانی کا کیا سوچا ہے؟ جواب دیا کہ بیگم مہنگائی اتنی ہے کہ جانور خریدنے کا سوچ کے ہول اٹھتے ہیں۔بیگم نے کہا کہ بچے ضد کر رہے ہیں کہ وہ بھی قربانی کے جانور کو سجا سنوار کے گلی میں پھرائیں گے ۔میاں اداسی سے بولا۔بچوں سے کہو میرے گلے میں رسی ڈالیں اور مجھے ہی گلی میں گھما کے شوق پورا کر لیں۔بیگم کہ ستم ظریف تھی ،ترنت بولی کہ میاں ! گدھے کی صرف کمائی حلال ہوتی ہے اس کی قربانی جائز نہیں۔اس لئے اس طرح کے فضول خیالات کو دل سے نکالو اور سیدھے طریقے سے قربانی کے جانور کا انتظام کرو ۔بچوں کا شوق بھی آخر کوئی چیز ہوتا ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ میرے بچے اب بڑے ہو گئے ہیں اور انہیں قربانی کے جانور کو گلی میں گھمانے کا شوق نہیں رہا۔

خیر ہمیں بھی استحصال زدہ پسا مسلا کچلا ہوا کوئی جانور مہیا ہو ہی جائے گاجو قصائی کی چھری تلے آکے ہمیں عزیز و اقارب اور پڑوسیوں کی نظر میں سر خرو کر دے گا کہ اللہ کو تو قربانی کے گوشت اور خون سے غرض نہیں اسے تو انسان کی نیت اور تقویٰ درکار ہے۔پاکستان میں اور نیت اور تقویٰ یہ تو اب پرانے زمانے کی باتیں ہو گئی ہیں۔غربت بہت ظالم چیز ہے یہ آپ کو سب کچھ بھلا دیتی ہے۔پیٹ کی آگ میں جلتا شخص اپنے آپ کو بھول جاتا ہے، رب کو کیا یاد رکھے گا۔اچھی خبر یہ ہے کہ اللہ کریم کو شاید اس ملک کے حرماں نصیب لوگوں پہ رحم آگیا ہے۔پاکستان غیر محسوس طریقے سے بدل رہا ہے۔چوروں کے پول کھلنے لگے ہیں۔ان کے چہرے پہچانے جا رہے ہیں۔ان کے چہروں پہ خفت اور پشیمانی تو نہیں لیکن مستقبل کے خوف کی ہلکی ہلکی پرچھائیاں دیکھ کے میرا دل تو باغ باغ ہے۔اس ملک میں اب کوئی غریب کی بات بھی کرنے لگا ہے۔کسی کو غریب کا خیال بھی آیا ہے۔چیف جسٹس اور ان کی ٹیم کو اللہ عمر ِ خضر دے۔انہوں نے بسوں کے مالکان اور کار سواروں کوسی این جی سستی کر کے عید کا تحفہ دے دیا ہے ۔مجھے امید نہیں کہ یہ کرم بس کی چھت پہ سوار اس غریب تک بھی پہنچے گا جو عید پہ اپنی ماں بہن اور بیوی بچوں سے ملنے ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتا ہے اور اس سے تین گنا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔کاش اسی فیصلے میں وہ روڈ ٹرانسپورٹ کے کھڑ پینچوں کو بھی اس بات کا پابند بنا دیتے کہ اس کمی کا فائدہ ہر حال میں بس رکشہ اور ٹیکسی پہ سواری کرنے والوں تک بھی پہنچے۔میں نے یہ درخواست اس لئے کی ہے کہ یہاں تو جب بھی سپریم کورٹ کوئی غریب نواز فیصلہ کرتی ہے ۔لٹیروں کی صفوں میں صفِ ماتم بچھ جاتی ہے اور وہ اس فیصلے کو تبدیل کرنے اور اس کے فائدے کو عوام تک پہنچنے سے روکنے کے لئے سر د ھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔

میرا نالہ و فریاد بھی کبھی ختم نہ ہو گا کہ آپ کی بے حسی جو کبھی ختم نہیں ہوتی لیکن عید پہ اس واویلے کو یہیں پہ روک کے میں آپ کو آپ کے بچوں کو آپ کے اہل و عیال کو آپ کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو آپ کے پڑوسیوں اور چاہنے والوں کو ملک اور ملک سے باہر مقیم پاکستانیوں سب کو اپنی اور اپنے ادارے کی طرف سے خوشیوں بھری عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ آپ کی یہ عید اتنی پر مسرت اور سکون بخش ہو کہ آپ کو ساری زندگی یاد رہے۔آپ کے صحن میں بچوں کے قہقہے گونجیں اور بچوں کی کلکاریاں۔ عید کے اس پر مسرت موقع پہ اپنے ان بھائیوں کو قطعاََ فراموش نہ کریں جو کسی بھی وجہ سے عید کی خوشیوں سے محروم ہیں۔ان کا ساتھ دیجیئے ان کے بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھئیے۔انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دیجئیے بھلے وہ ایک چاہت بھری مسکراہٹ ہی کیوں نہ ہو۔

ہاں! مسلمان اپنی خوشی میں کبھی بھی اپنے ساتھ رہنے والوں کو نہیں بھولتا۔اسلام شا نتی کا مذہب ہے۔امن و آشتی کی تعلیم دیتا ہے۔دشمن سے بھی حسن سلوک کا درس دیتا ہے۔آئیے اپنے دشمنوں کے لئے بھی آج ہدایت کی دعا کریں ۔ان دشمنوں کے لئے بھی جو ہماری جانوں کے در پے ہیں اور ان کے لئے بھی جو ہمارے پیارے وطن کے در پے ہیں۔اپنی خوشیوں میں اپنے ساتھ رہنے والے غیر مسلم پاکستانیوں کو بھی شامل کیجئیے کہ یہ بھی مسلم معاشرے کا حسن ہیں اور ان کے بغیر اور ان کی خوشیوں کے بغیر پاکستان کا یہ کثیر قومی معاشرہ کبھی مکمل خوشی نہیں پا سکتا۔میری دعا ہے کہ اللہ ہمارے ملک کو اس میں رہنے والے لوگوں کو اس کے چپے چپے اور ذرے ذرے کو اپنی بے پایاں اور بیکراں نعمتوں سے بھر دے۔آپ سب کو ایک بار پھر قربانی کی اس عید کہ بہت بہت مبارکباد۔اللہ آپ کی قربانی قبول کرے آمین-
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 292140 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More