پختون چرس پیتا ہے نسوار کھاتا
ہے اور چھوٹی بات پر دشمنیاں کرتا ہے یہ وہ باتیں ہیں جو ہر جگہ پر ہمارے
صوبے سے تعلق رکھنے والے افراد کے بارے میں کہی اور سنی جاتی ہیں لیکن کیا
نسوار صرف پختون کھاتے ہیں چرسی صرف پٹھان ہوتے ہیں اور دشمنیوں میں صرف
پٹھان لوگ ہی آگے ہیں کیا پٹھان اور اس صوبے سے تعلق رکھنے والے مہمان
نوازی کے حوالے سے مشہور نہیںکیا ہمارے معاشرے میں اچھی روایات نہیں اس
صوبے سے تعلق رکھنے کی بناء پر کیا ہم لوگ اپنے معاشرے کا اچھا رخ فلموں
میں پیش نہیں کرسکتے یہ وہ سوالات ہیں جو ہمارے ارد گرد ہر کوئی کررہا ہے
لیکن اس کا جواب کوئی نہیں دے رہا - گذشتہ روز بازار سے گزرتے ہوئے میرا
خیال ایک سائن بورڈ کی طرف گیا جس پر ایک پشتو فلم کی تشہیری تصاویر لگائی
گئی تھی پشتو کی وہ فلم منشیات کے حوالے سے تھی جس میں ایک ہیرو سوٹا لگاتا
ہوا دکھائی دیا گیاتھا - سائن بورڈ شہر کے ایک بڑے بازار میں مارکیٹ کے
اوپر لگایا گیا جس طرح اس فلم میں پختون معاشرے کا مذاق اڑایا گیا اس سے
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم لوگ خود ہی اپنے کلچر کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے
ہیں - شہر کے مختلف دیواروں پر پشتو فلموں کے جس طرح کی تصاویر لگائی گئی
کیا اس کو دیکھتے ہوئے عام لوگوں کو شرم نہیں آتی- جس طرح کالباس اسلحہ کی
بھرمار اور تشدد ان فلم کے پوسٹرز میں دکھایا جاتا ہے کیا وہ دیکھنے والوں
پر اثر نہیں کرے گا کیا سڑک کنارے لگنے والے ان فلمی پوسٹرز کو صرف مرد ہی
دیکھتے ہیں کیا ہم لوگوں کی مائیں بہنیں بیٹیاں اور ہمارے معصوم بچے ان
بازاروں سے نہیں گزرتے یہ وہ سوالات ہے جوفلمسازی کے نام پر اپنے حرام مال
کو حلال کرنے والوں کو سوچنا چاہیے اور اسی کے ساتھ ان سینما مالکان کو بھی
جو تفریح کی آڑ میں ہمارے مستقبل کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں-
تفریح ہر ایک کا حق ہے اور کسی کو تفریح سے نہیں روکا جاسکتا لیکن تفریح کے
نام پر بکواس اور فحش اور تشدد سے بھرپور فلموں کی نمائش کہاں پر جائز ہے
کیا ہمیں بطور مسلمان یہ زیب دیتا ہے کیا یہ ہمارے اخلاقیات میں شامل ہیں
یا بحیثیت انسان ہمیں اس کی اجازت ہے کہ نوجوان نسل کو صرف چند پیسوں کی
خاطر لغویات میں مبتلا کریں-کسی زمانے میں پشتو کی ایک مشہور ایکٹرس کے
بارے میں لوگ بات کرتے تھے کہ اس سے پشتو فلموں میں فحاشی کو فروغ دیا اور
وہ پختون نہیں تھی اسی باعث اس نے پٹھانوں کو بدنام کردیا لیکن اب تو ہماری
انڈسٹری میں پختون کلچر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں کبھی انہوں
نے اس تبدیلی کیلئے کوشش کی اور اگر نہیں کی تو کیا تفریح کے نام پر ان
لغویات کو صرف سینما گھروں کے اندر تک محدود نہیں رکھا جاسکتا فلموں کے
پروموشن کے نام پر ہونیوالی پوسٹرسازی کی گندگی کو گلی محلوں میں لانے کی
ضرورت ہی کیا ہے -
آج سے تقریبا دس سال قبل شوبز رپورٹنگ کرتے ہوئے شوبز کی ایسی ہستیوں سے
ملاقات ہوئی تھی جنہیں دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ فلم انڈسٹری سے تعلق
رکھنے والے لوگ ہیں - میٹرک پاک ہدایت کارہے اور آٹھویں پاس ہیرو اوربھی
ایسے لاجواب نمونے ہیںکہ انہیں دیکھ کر ہنسی آتی ہے اپنے آپ کو ہیرو کے رول
میں لانے کے خواہشمند ان " بابا" لوگوں کے بڑھے ہوئے پیٹ دیکھ کر حیرانی
ہوتی ہے کہ آخر ان میں کیا ایسی خوبی ہے جس کی بناء پر انہیں ہیرو لیا جاتا
ہے ان جیسے لوگوں کی سوچ تو الگ ان کیساتھ بیٹھ کر انہیں عام زندگی میں
برداشت کرنا بھی بڑا دل گردے کا کام ہے چونکہ دور پیسے کا چل رہا ہے ہے اس
لئے ایسے ایسے نادر نمونے فلموں میں دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر
حیرانی ہوتی ہے موجودہ دور میں اگروکسی کے پاس پیسہ ہے تو اس سرمایہ کو لگا
کر کوئی بھی ہیرو بن سکتا ہے بھلے سے کوئی فلم دیکھے نہ دیکھے لیکن سرمایہ
کاری کی وجہ سے کوئی بھی اپنے آپ کو ہیرو کہلواسکتا ہے - اگر پیسہ بھی حرام
کا ہو جسے کالا دھن بھی کہتے ہیں اور اس پیسے کو سفید کرنا یعنی حلال کرنا
مقصود ہے تو شوبز کی دنیا سے بہتر کوئی جگہ نہیں - عیاشی آپ اس شعبے میں
کرسکتے ہیں-ایک نام کا اداکار جو اغواء ہونے کے بعد ملک چھوڑ کر چلا گیا یہ
اس کی کہی ہوئی بات ہے جو وہ کھلے عام کہا کرتا تھا "کہ شوبز کے شعبے میں
رہتے ہوئے ایک ہفتے میں اگر میری کسی نئی لڑکی سے دوستی نہ ہو تو مجھے چین
نہیں آتا"اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اس شعبے میںکیا ہوتا ہے اور ان کو
بنانے والے اور ان میں کام کرنے والے اس معاشرے کو کیا بنانا چاہتے ہیں-
ہمارے صوبے میں اب تو کلچر کے فروغ کیلئے این جی اوز بھی میدان میں آگئی
ہیں جوفنکاروں کے نام پر پیسہ وصولی کرنا جانتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ
ایسے لوگوں کو جویہاں سے اپنے اعمال کی وجہ سے بھاگ کر بیرون ملک چلے گئے
تھے انہیں دوبارہ یہاں پر فحاشی کا کاروبار شروع کیا جاسکے تاکہ ان کی روزی
روٹی اور عیاشی کا سلسلہ چل نکلے -عوام کو لالٹین کے دور میں بھیجنے والی
سرکار بھی کچھ نہیں کررہی کیونکہ لالٹین کی روشنی میں انہیں کچھ نظر ہی
نہیں آتا -اب تو فلموں میں فحاشی کیساتھ ساتھ سی ڈی ڈراموں میں بھی لغویات
کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے سب سے عجیب او ر حیران کن بات یہ ہے کہ سی ڈیز
بنانے والے خود سنسر بورڈ کے حق میں ہیں اور اس کیلئے مخصوص رقم بھی دینا
چاہتے ہیں جو کہ سنسر بورڈ کے مد میں استعمال ہوگی لیکن لالٹین والی سرکار
کو فرصت نہیں- پختونوں کی ترجمانی کا دعوی کرنے والوں کو یہ سب کچھ نظر ہی
نہیں آتا -فلموں کے بارے میں چلو یہ حجت پیش کی جاسکتی ہے کہ ان کا سنسر
کرنے والے شائد ہماری روایات سے بے خبر ہے لیکن کیا سی ڈیز کی آڑمیں جو
فحاشی تشدد اور سگریٹ نوشی کو فروغ دیا جارہا ہے اس کے آگے پل باندھنے کا
کردار کون ادا کرے گا -کیونکہ سی ڈیز تو اس صوبے میں بن رہی ہیں اور ان کو
بنانے والے بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اگر لالٹین والی سرکار سوئی ہے تو کیا
ہم اس معاملے میں کچھ کرنہیں سکتے یہ ایسا سوال ہے جو اس معاشرے میں رہنے
والے ہر شہری کو اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے - |