بی بی زلیخا اپنے میاں محمد یوسف
کے ساتھ اللہ کے بلاوے پر اُس دربار جارہی تھیں جہاں جانے کی آرزو ہر
مسلمان کے دل میں جاں گزیں ہوتی ہے ۔ ہردل میں میں بلاوے کی تمناہوتی ہے
چاہے وہ امیر ہو یا غریب یا کسی بھی فرقے یا صوبے سے اسکا تعلق ہو ۔ گھر
مہمانوں سے بھرا ہوا تھا ہر ایک بی بی زلیخا کو مبارکباد دے رہا تھا اور
ساتھ ہی کہہ رہا تھا کہ خالہ ہمارے لئے بھی دعا کیجئے گا۔ بہن میرا منّا ہر
وقت بیمار رہتا ہے اسکا نام لے کر دعا کیجئے گا ۔ آنٹی میرا اگلے ماہ
امتحان ہے میرے لئے خصوصی دعا کیجئے گا۔ میری نند کو مرگی کے دورے پڑتے ہیں
اُس کے لئے خصوصی دعا کرنا۔ میری بہن کے اولاد نہیں ہوتی خالہ اُسکے لئے
دعا کرنا بالکل نہیں بھولنا ہے۔زلیخا بی بی مہمانوں میں گھری تھیں جو آتا
ان کے گلے میں ہارڈالتا مبارکباد دیتا اسکے بعد دعاﺅں کی لسٹ بتاتا۔ زلیخا
بی نے ایک چھوٹی ڈائری بنا رکھی تھی جس میں وہ نام کے ساتھ دعائیں بھی
تحریر کرتی جاتی تھیں۔دعاﺅں کی حد تک تو بہت ٹھیک تھا شاید ڈائری میں دعاﺅں
کا تحریر کرنا بھی دعا کی قبولیت کا موجب بنتا ہو لیکن بات یہاں تک محدود
نہ تھی۔ بی بی زلیخا جہاں لوگوں کی دعائیں ڈائری میں نوٹ کر رہی تھیں وہیں
ڈائری کے چند صفحات انہوں نے لوگوں کی فرمائشوں کے لئے بھی مختص کر ر کھے
تھے جہاں وہ اُن کے فرمائشیں عبائے (برقع کی ایک مخصوص قسم) ، اسکارف ریشمی
اور کاٹن کے ستاروں والے گول نئے ماڈل کے چہرے کے گرد لپٹ جانے والے اسکارف
میں لگائی جانے والی نگوں والی پنیں ان کے اقسام خالہ گن گن کر لکھتی جارہی
تھیں اور گنتی جا رہی تھیں اسکارف دو درجن، اسکارف کی پنیں چار درجن، لمبی
والی کلپ دو درجن ، بتول کی بہو کے بچہ ہونے والا ہے اس کے لئے بی بی مریم
کا پنجہ لانا ہے۔ ” بی بی ہزار روپئے سے کم کیا ہو گا ۔ لاﺅ جو بچیں گے بے
شک واپس لے لانا۔ کون لا کر دے گا تم کو وہاں سے۔ نجمی کے بیٹے کے گردے
خراب ہیں اُس نے سات سو روپئے بھیجے ہیں وہاں کبوتروں کو باجرہ ڈالنے کے
لئے۔ علینہ نے اپنے بیٹے کے لئے توپ (عربی لباس) کے لئے دو ہزار دیئے ہیں۔
ہاں بی بی وہاں کی کرنسی ریال ہے پاکستانی روپئے وہاں جا کر کم ہو جاتے ہیں۔
ہاں ہاں شاید 25 سے بھی اوپر کا ایک ریال ہے مگر دیکھو تو چیز کی کوالٹی
بھی تو اعلیٰ ہوتی ہے۔ یہاں پاکستان میں تو ایسا عمدہ مال کہاں ملتا ہے۔
سال کی جگہ چار سال تک چیزیں استعمال کرو نہ رنگ بدلتا ہے نہ کپڑا خراب
ہوتا ہے۔ توپ کے ساتھ مردانہ رومال بھی چاہیے۔ مجھے لگتا ہے دو ہزار کم
پڑیں گے ایک ہزار اور دے دو عطیہ نے ہزار روپئے اور نکال کر زلیخا خالہ کو
دے دیئے۔ آخر وہ سعودی عرب سے ایک نمبر قسم کی اشیاء لا کر دینے والی تھیں
۔۔“ مدینہ کی تسبیحیں ، عجوہ کھجوریں، مکہ کی جاءنمازیں ، بی بی مریم کا
پنجہ، آنٹی نہ جانے کو ن کون سی چیزوں کی فہرست اپنی ڈائری میں نوٹ کرتی
جارہی تھیں۔ میں بھی زلیخا خالہ جو کہ ہماری پڑوسن تھیں کو مبارکباد دینے
ان کے گھر پہنچی تھی اور ان کے لئے گجرے بھی لے گئی تھی کہ بے چاری نے بہت
بارپہلے بھی حج پر جانے سے پہلے دی جانے والی پارٹی میں مجھے انوائٹ کر چکی
تھی مگر وہاں کا احوال دیکھ کر مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔ زلیخا
بی سے سفید لباس پہن رکھا تھا ، مقدس سا پُر نور چہرہ سفید دوپٹے کے حالے
میں بہت نورانی لگ رہا تھا۔ ایک بیٹی تھی جس کی شادی ہو چکی تھی اور وہ
اپنے گھر میں مگن تھی۔ آج اس حج پارٹی میں میزبان تھی، ہر آنے والے کو
اُسکی مرضی کے مطابق کولڈ ڈرنک یا چائے سے اُسکی تواضع کر رہی تھی۔ رات کا
کھانا بھی تھا۔ ایسا لگ رہا تھا ان کا پورا خاندان سارے پڑوسی حتیٰ کہ دور
پرے کے رشتہ دار اور جان پہچان والے سب ہی موجود تھے۔ گھر میں تل دھرنے کی
جگہ نہیں تھی۔
حج پہ جانے سے پہلے اور آنے کے بعد دی جانے والی دعوت ہمارے معاشرے میں ایک
عام سی بات ہے مگر معاشرے کا یہ پہلو آج میں پہلی بار دیکھ رہی تھی کہ کس
طرح دعاﺅں کی لسٹیں بنائی جارہی تھیں اور فرمائش بھی نوٹ کی جارہی تھی بلکہ
ان پیسے ایڈوانس بھی لے کر رکھے جارہے تھے۔ درجن دو درجن اسکارف اور دیگر
اشیا ءلانے کی باتیں چل رہی تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ جو ہر سال عمرے
اور ہر دو تین سال بعد حج کرتی ہیں اپنے ہر سعودی عرب کے سفر سے واپس آتے
ہوئے وہ ایسی کئی چیزیں اِدھر لا کر فروخت کرتی ہیں اور وہاں کبوتروں کو
دانہ بھی ڈالنے کے پیسے(باجرہ خریدنے کے لئے) بھی لیتی تھیں یعنی اللہ کے
مہمان بھی بن گئے اور دنیاوی تجارت کرکے منافع بھی حاصل کرلیا۔ اللہ تعالیٰ
ہمارے معاشرے کو نمودونمائش اور دکھاوے سے بالاتر کر کے سراسر اللہ کی رضا
اور منشیٰ کے مطابق عمل کرنے والا بنائے۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا میڈیا
ہمارے حکمران اور اوپری طبقہ اب تو بشمول متوسط اور نچلہ طبقہ بھی نمودو
نمائش اور مادہ پرستی کی اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ وہ حج جیسے مذہبی عمل میں
بھی فائدے کا کوئی پہلو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ چند افراد کے کئے
جانے والے غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کے نتیجہ میں ملک بدنام ہو جایا کرتے
ہیں۔ دورانِ حج حجاجِ کرام کے گروپس میں پاکستانی گروپ کو وہ اہمیت اور عزت
حاصل نہیں ہے جو دوسری مسلمان اقوام کو حاصل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی
حجاجِ کرام دورانِ حج بنائے گئے سعودی اصول و ضوابط پر بھی پوری طرح عمل
پیرا نہیں ہوتے اس میں کچھ کوتاہی تو معاشرہ کی ہے اور کچھ ان کی تعلیم کی
کمی یعنی حج پر جانے سے قبل دی جانے والی کلاسز اور سعودی حکومت کے اصول و
ضوابط مناسکِ حج کی ادائیگی کا صحیح طریقہ کار اور دورانِ سفر اور مقاماتِ
مقدسہ پر آنے جانے اور واش رومزکے استعمال پر لائن کی پابندی کرنے دھکم پیل
اور اپنی باری پہلے لینے جیسے رویوں میں نمایاں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تسبیح
،جاءنمازیں، اسکارف ، توپ اور دوسری اشیاءجو وہاں اسٹال پر بیچی جاتی ہیں
ان کو خریدنے اور لانے میں بھی احتیاط اور ذمہ داری کو ملحوظِ خاطر رکھنا
چاہیے۔ دل میں حج کی نیت کرتے ہی ہمارا ہر عمل اُس مقدس سفر کے شایانِ شان
ہونا چاہیے۔ اللہ کے گھر کے مہمانِ خاص کا ہر ہر طرزِ عمل باعثِ تقلید ہونا
چاہیے۔حج کی فضیلت او ر سفرِحج میں اٹھائی جانے والی مشکلات اور آسانیاں
منجانب اللہ ہونے کا یقین ہی ہمارے طرزِ عمل میں مثبت تبدیلیاں لانے کا
باعث بن سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اپنے دائرہ عمل میں کام کرتے ہوئے اسلام اور
پاکستان کا نام بیرون ممالک روشن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تمام حاجیوں کو
جو اس سال اللہ کے مہمان بننے کے حقدار ٹہرے۔ بہت بہت مبارک باد اور وہ جن
کی اس مقدس سفر کی آرزو اس سال دل میں رہ گئی ان کے لئے ۔
حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کے لئے حاضر غلام ہو جائے |