میرا سوال

قدرت نے ہر چیز کا ایک نظام بنا رکھا ہے جو ہر طرح سے مکمل اور کو تا ہیوں سے پاک تصور کیا جاتا ہے۔فطرت نے بچوں کی ذہنیت میں ایک ایسی سوچ رکھی ہے کہ کسی بھی مسئلے یا پریشانی کی صورت میں وہ اپنی ماں کی طرف دیکھتے اور اس سے مدد کے طلبگار ہوتے ہیں ۔کیونکہ یہی ان کی پہلی پناہ گاہ اور ان کی پہلی درسگاہ بھی تصور کی جاتی ہے۔اس کے بعد ذیادہ قابل اعتماد بچے اپنے باپ کو تصور کرتے ہیں۔جو کہ ان کی حفاظت کفالت اور تربیت کا ذمہ دار تصور کیا جاتاہے۔مال اور اولاد کو اللہ کے پاک دین میں بھی ایک فتنہ قرار دیا ہے۔مگر جب کبھی ایسے حالات پید ا ہوجائیں جہاں انسان اپنے خدا کے حکم سے انکار کر لے یا پھر نظام فطرت سے انحراف کرنے لگ جائے۔توانسان اپنی اصلیت بھول کر درندگی اور جہالت کی اس راہ پر چل پڑتا ہے۔جس کی کبھی کوئی منزل نہیں نکل سکتی۔نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا وہ ہم میں سے نہیں جو اپنے بڑوں کا ادب نہ کرے اور اپنے چھوٹوں سے شفقت نہ کرے ۔مگر آج اس جدید دور میں علم اور میڈیا کی موجودگی کے باوجود ہم اسلام اور دین سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں۔آج بھی جہالت اور ابوجہل کے دور کی کئی روایات ہم میں موجود ہیں۔مگر اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ایک ملک میں اگر اسلام کے قوانین کی خلاف ورزی کی جائے اور حکومت سمیت تمام ذمہ دار خاموش رہیں تو ایسے حالات میں اس ملک اور اس کے حاکم کے لیے کچھ بھی کہنے کی میرے قلم کی حرمت مجھے اجازت نہیں دیتی۔یہاں ہر کام اپنی مشہوری کے لیے کیا جاتا ہے۔اگر میڈیا موجود ہو تو ونی کا از خود نوٹس لے لیا جاتاہے۔کسی مار پٹائی کا حل نکالنے اور اپنی سیاست چمکانے کئی لوگ آجاتے ہیں ۔مگر جب کبھی ظلم ایسی جگہ ہو جہاں ان کی سیاست نہ چمک سکے تو وہاں کسی قسم کی توجہ نہیں دی جاتی۔ایسے کئی واقعات کی مثال دی جا سکتی ہے۔مگر ظلم اور بر بریت میں اپنا ایک نام رکھنے والا میانوالی کا شہر جہاں کبھی معصوم لڑکیوں کو ونی کے نام پر جیتے جی قبر میں اتار دیا جاتاہے۔ تو کبھی غیرت کے نام پر بغیر کسی ثبوت کے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔اسی میانوالی میں نہ جانے ہر ماہ کتنے قتل ہو جاتے ہیں۔مگر میڈیا، چیف جسٹس اور وزیر اعلیٰ سب کے سب اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ ان کی اس ہمدردی سے ان کی سیاست کو کوئی فائدہ نہیں ملنا ہوتا۔عید کے دن سنت ابراہیمی کی تکمیل کا دن تھا تو میانوالی کا ایک لخت جگر اپنے گھر لوٹ کر آیا۔وہ اس بات سے مکمل بے خبر تھا کہ وہ آج اپنی زندگی کی آخری سانسیں لینے جا رہا ہے۔گھر داخل ہونےکی اجازت نہ ملنے پر اس نے جب اسرار کیا تو خود اپنے ہی باپ نے چار گولیاں اس کے سینے سے پار کر دیں۔اس کی خوشیاں اس کی زندگی اس کی معصومیت اور اس کی بے گناہی پر قربان ہوگئیں۔وہ اس دنیا کے دکھوں مصیبتوں سے آزاد ہوگیا تھا۔ابراہیم نے بھی اپنے ہی لخت جگر کو قربان کرنے کی ٹھان لی تھی مگر ان کا مقصد اللہ کے حکم کی تعمیل تھا ۔اسماعیل نے اللہ کے حکم کی خاطر قربان ہونا تھا۔مگر اسی دن میانوالی کے علاقے چھدرو کا رہایشی سرفراز نیازی ولد ثناءاللہ خان اپنے ہی باپ کی دہشت اور درندگی کا نشانہ بن گیا۔وہ اپنی جان کی قربانی دے چکا تھا ۔مگر قصہ یہاں ختم نہ ہوا۔بے حسی اور بے دردی کی یہ انتہاءاس قصے کی محض ابتداءتھی۔اس کا پرسان حال کوئی نہ تھا ۔ماں کی شفقت کا سایہ وہ پہلے ہی کھو چکا تھا۔کیوں اور کیسے اس کو بیان کرنا دردناک اور المناک ہے۔رات بھر مجھ سے سویا نہ گیا۔مجھے اپنے باپ سے خوف آنے لگا۔میں نے خود کو اس 17سال کی بہن کی جگہ رکھ کر دیکھا ۔جس کے سامنے اس کے بھائی کا خون ہوگیا۔اور وہ کچھ بھی کرنے سے عاری رہی ۔اس کو تو رونے تک کی اجازت بھی نہ جانے ملی ہو یا اس کے آنسو بھی اس دہشت ناک اور درندہ صفت باپ کے ظلم کے طوفان کی نظر ہوگئے۔کیسی حالت ہوگی اس بلال کی جس نے اپنے سامنے اپنے باپ کے ہاتھوں اپنے بھائی پر ہوتا یہ ظلم دیکھا۔نہ تو بڑھ کر اس اس بندوق کے سامنے آسکتا تھا اور نہ ہی وہ موت کے فرشتے کاراستہ روک سکتا تھا۔ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کرسکتا ۔اس نے کئی بار خدا سے سوال کیا ہوگا۔کہ وقت کا وہ لمحہ وہاں رک کیوں نہ گیا؟وہ بندوق تھامے ہاتھ پتھر کیوں نہ بن گئے؟ جو اپنے ہی بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے۔گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔مگرجب اس درندہ صفت انسان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی گئی تو قانون کے محافط خود کو بے بس قرار دیکر اس جانور کی مانند خاموش رہے جس کے سامنے ایک جانور قربان کر دیا جاتاہے اور وہ اس کے خلاف کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتے۔ہم سے بہترتو کتے ہیں ۔کم از کم اپنے جیسے پر ہونے والے ظلم کے ہر ہاتھ کو مل کر روک لیتے ہیں۔قانون کے رکھوالے شائد بے بس ہوں۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جب انسان اپنے ضمیر کا سودا چند ٹکوں کی خاطر کردے تو پھر اس کا جسم اس کی سوچ کچھ بھی اس کے قابو میں نہیں ہوتا۔مگر ظالم کا ساتھ دینا ظلم کرنے کے مترادف ہے۔وقت لوٹ کر کبھی نہیں آیا۔مگر اس سے سبق سیکھنا ہم سب کا فرض ہے۔آج ایک سرفراز قتل ہوا اور اس کے گواہوں کو ڈرا دھمکا کر چپ کرایا جا رہا ہے۔اگر آج کوئی نہ بولا تو کل سرفراز نیازی کی جگہ میرا بھائی ےا کسی کا بھی بھائی ہو سکتا ہے۔آج قیادت اور قانون کے ایوانوں کے رکھوالے جس بے دردی اور ظلم کے ساتھ اس قاتل کا ساتھ دیکر اس کو انہی گلیوں میں گھومنے پھرنے کی اجازت دے رہے ہیں جہاں اس نے اپنے ایک بیٹے کو قتل کیا۔تو ان کا قانون ان کا انصاف کیا ان سے سوال نہیں کرتا کہ وہ انسان جو انسان کہلانے لے لائق تک نہیں کیا اس کے ہاتھوں وہ معصوم بچے محفوظ ہوں گے جن کی آنکھوں کے سامنے ےہ قیامت برپا ہوئی ۔کیا اس کی دہشت اس کی درندگی ان کو سچ بولنے کی اجازت دے گی؟اس کا جواب تو شائد مجھے نہ مل سکے ۔مگر اتنا ضرور ہے کہ اگر اس شخص کو گرفتار نہ کیا جا سکا تو گواہ کوئی نہیں بن پائے گا۔انصاف کا حصول اگر نہ ہو سکا تو غیرت اور اصول کے تقاضے ےہ ہیں کہ وزیراعلیٰ نہ صرف اپنی پولیس کے لیے چوڑیاں خرید لیں بلکہ ساتھ ہی اپنا استعفٰی دیکر باقی حکمرانوں کی طرح ملک سے چلے جائیں۔کیونکہ اگربغداد کے کنارے کتے کے مرنے کا حساب خلفائے راشدین نے دینا تھا تو اس ملک میں ہونے والے انسانوں کے قتل کا جواب کون دے گا؟کس کو اس ضمرے میں پوچھا جائے؟خدا را بولیں اس سے پہلءکے ہم بولنے کے قابل نہ رہیں۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 51487 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More