خواتین اور بچوں کا بڑھتا استحصال

عید کے دوسرے روز جب میں اپنے وکیل دوست کے ساتھ بازار کی طرف آرہا تھا کہ گندگی کے ایک ڈھیر جس میں پورے علاقے کی گندگی پڑی ہوئی تھی اور عید کے روز شہریوں نے اوجھڑی بھی اسی گندگی میں ڈال دی اسی گندگی کے ڈھیر پر پچاس سال کی ایک خاتون کو دیکھا جس کے ہاتھ میں چھری تھی اور اس گندگی کے ڈھیر میں پڑی اوجھڑی نکال رہی تھی اس کے ساتھ ایک نو سال کا معصوم بچہ بھی موجود تھا جو اپنی والدہ /دادی یا نانی کی مدد کررہا تھا انہیں دیکھ کر مجھے اپنی امی یاد آگئی کہ اگر ایسی میری والدہ ہوتی تو کیا ہوتا اور اسی سوچ نے میرے اندر کے دکھ کو زیادہ کردیا وہ خاتون اوجھڑی نکالتے ہوئے شرم کے مارے نیچے دیکھ رہی تھی کہ اگر اسے کوئی دیکھ لے تو اسے شرمندگی محسوس نہ ہو لیکن اسے دیکھ کر مجھے جو شرمندگی ہوئی وہ میری برداشت سے باہر تھی - اگر یہ اوجھڑی کوئی مرد نکال رہا ہوتا تو اس وقت بھی مجھے برا لگتا لیکن اتنا برا نہیں جب میں نے ایک خاتون کو غربت کی وجہ سے اوجھڑی نکالتے ہوئے دیکھا میں نے اپنے وکیل دوست کو کہا کہ یہاں سے جلدی نکل جائو کیونکہ مجھ سے برداشت نہیں ہورہا- ہم اپنی خواتین کا کس طرح استحصال کرتے ہیں یہ اس کی ایک مثال ہے- خاتون ہونا ایک ایسے معاشرے میں جہاں پر ہر جگہ استحصال ہوتا ہو بہت مشکل کام ہے ہم لوگ مونچھوں کو تائو دیکر اپنے آپ کو پختون اور پھر مسلمان کہلوانے کا فخر یہ اعلان تو کرتے ہیں لیکن ہم نے اپنی خواتین کو وہ حقوق دئیے ہیں جو انہیں ہمارے اس معاشرے میں حاصل ہے یا وہ حقوق جو انہیں اسلام نے دئیے ہیں- کہنے کو تو ہم علی اعلان کہتے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہیں اور بیٹیاں /بہنیں سب کی سانجھیں ہوتی ہیں لیکن انہیں جو دکھ ہم اپنے دیتے ہیں وہ انہیں کوئی اور نہیں دیتا-

اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو اس معاشرے میں رہتے ہوئے انوکھے ڈرامے ملیں گے -بازارمیں جھگڑا مرد کرتے ہیں لیکن گالیاں لوگوں کی مائوں بہنوں اور بیٹیوں کو پڑتی ہیں دشمنیاں مردوں کی ہوتی ہیں لیکن گھروں پر فائرنگ/اور حملے مرد ہی کرتے ہیں ہیں تو خواتین اور معصوم بچے ہی نشانہ بن رہے ہیں اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو کسی بھی سرکاری ہسپتال میں جاکر ریکارڈ چیک کریں آپ کو اندازہ ہوجائیگا کہ کتنے لوگ ایک دن میں ہسپتال میں لائے جاتے ہیںاور ان میں خواتین اور بچوں کی تعداد کتنی ہوتی ہیں -ان جھگڑوںکے بعد بہنیں اور بیٹیاں اغواء کی جاتی ہیں -سب سے انوکھے فیصلے جو ہمارے ہاں ہی ہوتے ہیں کہ فائرنگ اور جھگڑوں کے واقعے مرد ہی بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ بیٹی یا بہن کو "سورہ" میں دیا جائے تاکہ مردوں کے مسئلے حل ہوسکیں-یعنی کرنے والے کوئی اور ہوتے ہیں اور اس کا خمیاز کسی اور نے بھرنا ہوتا ہے --ہم پانچ وقت کی نماز پڑھنے والے پیدائشی مسلمان ہیں پیدائش کے وقت کانوں میں ہمارے اذان سنائی گئی جس کے بعد ہم نے یہ سمجھ لیا کہ ہم مسلمان اورہم ہی جنت کے ٹھیکیدار ہیں لیکن جو ذمہ داریاں ہم پرعائد کی گئی انہیں پورا کرنے کیلئے ہمارے پاس وقت نہیں-کیا خواتین کو جائیداد میں حق دیناہمیں اسلام نے نہیں بتایاکیا معصوم بچوں پر رحم کرنے کا حکم ہمیں اللہ تعالی نے نہیں دیالیکن ہم وہ بے حس مسلمان ہیں جہاں پر ہمارے مفاد کو ضرب پڑتا ہو وہیں پر ہمیں اسلام کے احکامات بھی نظر نہیں آتے لیکن جب ہمارااپنا مفاد ہوتو ہم بہت پختون ولی اور مسلمانی کے نام پر کرتے ہیں - خواتین اور بچوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا عمل ہر جگہ زیادہ ہورہا ہے بازاروں میںآپ کو درجنوں ایسی خواتین اور بچے نظر آتے ہیں جو سڑک کنارے بیٹھے ہوتے ہیں اور لوگوں سے خیرات مانگتے ہیں کیا ان کے مرد کمانے والے نہیں یا ان میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیںکیا یہ خواتین اور بچوں کا استحصال نہیں-

خاتون بننا اور لوگوں کے روئیوں کو برداشت کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ برطانوی اخبارڈیلی میل میں چھپنے والی ایک خبر سے کیا جاسکتا ہے جس میں ایک برطانوی بچہ جو پیدائش کے وقت لڑکا تھا نے اپنی جنس 17سال کی عمر میں تبدیل کردی اور اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ برطانیہ میں سب سے کم عمر میں جنس تبدیل کرنے والی لڑکی بن گئی ہے رایا کوپر نامی لڑکی کو صرف ایک سال میں اندازہ ہوگیا کہ مرد سے خاتون بننے کا عمل کتنا تکلیف دہ ہے اور یہ اسی کے الظاظ ہے کہ میں خوش رہنا چاہتی ہوں اس لئے اب میں دوبارہ مرد بننے کی خواہشمند ہوں "مرد بننے کے عمل سے گزرنے کے بعد مس کوپر برطانوی آرمی یا ائیر فورس جوائن کرنا چاہتی/ چاہتا ہے یہ مغرب کی عورت کا قصہ ہے جہاں پر ہمارے کچھ لوگوں کے بقول ان کے حقوق ملے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں مردوں کی ایجارہ داری کیا مشرق اور کیا مغرب میں ہر جگہ پر ہے -ہم بحیثیت شہری اپنے روئیوں میں تبدیلی لانے کیلئے کیا کررہے ہیں کیا ہمارے علمائ/سیاستدان./میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے یہ سوچنے کی بات ہے -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498127 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More