جلدی کیجیئے کہیں دیر نہ ہو جائے

آج کی میری ڈاک میں مجھے ایک صاحب کی اس میل نے ہلا کے رکھ دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ مدرز ڈے کا انتظار کئے بغیر یہ کہانی آپ تک پہنچا دوں۔ہو سکتا ہے کہ اس کہانی کو پڑھ کے کوئی بیٹا سبق سیکھ سکے یا کسی ماں کے دل کو قرار آ جائے۔ربِ کریم کی رحمت جو ہر وقت اپنے بندے کو بخش دینے کو بے قرار رہتی ہے اسی بہانے کسی کی نیا پار لگا دے یا ممکن ہے میری ہی بخشش ہو جائے۔ماں اس کائنات کا سب سے خوبصورت رشتہ ہے۔ایسا کہ صرف اسی کی محبت کو اللہ نے اپنی محبت کےساتھ جوڑا ہے۔اللہ کریم اپنے بندوں سے ماں سے ستر گناہ زیادہ پیار کرتا ہے۔یعنی کائنات میں رب کی بندے کے ساتھ محبت کو ماپنے کا اور کوئی طریقہ ہی نہیں تھا۔اس لئے اللہ کریم نے ماں کی محبت کو پیمانہ بنایا۔کہتے ہیں کہ انسان اپنے جسم میں درد اور تکلیف کے چالیس درجے برداشت کر سکتا ہے جب کہ بچے کو اس دنیا میں لانے کے لئے ماں کو برداشت سے بڑھ کے یعنی ستاون درجے تک تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے۔پھر کہیں جا کے زندگی وجود میں آپاتی ہے۔پیدائش کا پہلا لمحہ ہی ماں کی اپنی اولاد کے ساتھ لازوال محبت کی انتہا ہوتا ہے۔اسی لئے تو ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھی گئی۔میں ایک اللہ والے کے پاس بیٹھا تھا۔اچانک کوئی بات کرتے کرتے انہوں نے کہا کہ ہر ماں اپنے بیٹے کے لئے ولی ہوتی ہے بھلے وہ ناچنے والی ہی کیوں نہ ہو۔

کہتے ہیں کہ ایک گاﺅں میں ایک غریب میاں بیوی رہتے تھے۔پاکستان کے تقریباََ سارے گاﺅں کی طرح میاں بیوی دونوں مل کے مزدوری کیا کرتے تھے۔اللہ نے اولاد کی صورت انہیں ایک بیٹے سے نواز رکھا تھا۔ان کی زندگی کا واحد مقصد یہی تھا کہ اپنا پیٹ کاٹ کے بیٹے کو بڑا آدمی بنائیں۔پاکستان میں جب والدین کسی بیٹے کو بڑا آدمی بنانے کا سوچتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر یا انجنئیر بن جائے اور پھر لمبا نال کمائے۔ان والدین نے بھی اپنی دانست میں بیٹے کو بڑا آدمی بنا دیا۔وہ فرسٹ کلاس فرسٹ انجنئیر بن گیا۔اس کی غربت اور اس کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے شہر کے ایک رئیس نے اسے اپنا داماد بنا لیا۔یہ بھی ہمارے معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ غریب کا اچھا پھک اچھی فصل حتیٰ کہ اچھا بیٹا بھی غریب کا نہیں رہتا اسے بھی امیر شہر کسی نہ کسی بہانے ہٹھیا لیتا ہے۔شادی ہوئی اور دلہن بیاہ کے گاﺅں آگئی۔ماں نے بڑے چاﺅ سے دلہن کو چند دن اپنے پاس رکھا اور پھر دلہن کے اصرار پہ انجنئیر صاحب نے شہر میں گھر لے لیا۔شہر میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد ایک دن انہیں خلیج کی ایک آئل کمپنی میں نوکری مل گئی اور وہ سعودی عرب میں تعینات ہو گئے۔سعودیہ جا کے وہ کچھ عرصہ تو ماں باپ کو پیسے بھجواتے رہے لیکن پھر یہ سلسلہ بھی امتدادِ زمانہ کی نذر ہوا۔

صاحب کے ہاں جب اپنے بچے آئے تو وہ بھول گئے کہ انہوں نے گاﺅں کے ایک کچے سے گھر میں دو کمزور لا چار اور لاغر روحوں کو بھی اپنے انتظار میں ٹانگ رکھا ہے۔ہاں یہ ہوا کہ انجنئیر صاحب نے سعودیہ میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھایا اور ہر سال حج کرنے لگے۔ہر سال وہ حج ادا کرتے اور ہر سال حج کے بعد وہ تسلسل سے ایک خواب دیکھا کرتے جس میں کوئی بتانے والا انہیں بتاتا کہ ان کا حج قبول نہیں ہوا۔پہلے دو تین سال تو وہ اسے اپنا وہم ہی تصور کرتے رہے لیکن یہی خواب جب دسویں حج کے بعد بھی انہیں ستانے آ موجود ہوا تو وہ اپنی یہ الجھن لے کے ایک عالم کے پاس گئے۔عالم کہ خوابوں کی تعبیر کا علم بھی رکھتا تھا۔اس نے صاحب کو بتایا کہ آپ کے حج کی قبولیت میں کوئی ایسا فرض شامل ہے جسے آپ ادا نہیں کر پا رہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال آپ کو آپ کے حج کے نامقبول ہونے کی وعید سنائی جاتی ہے۔

صاحب نے بہت سوچا کہ آخر ایسا کون سا گناہ ہے جو مجھ سے سرزد ہوا جس کی مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔ذہن کے کسی کونے اور دل کے کسی گوشے میں ماں باب سے بے اعتنائی کی شرمندگی تو شاید پہلے ہی کہیں مستور تھی۔ خواب کی تعبیر نے اس راز کو کھول دیا۔اب خدا جانے ماں باپ کی محبت یا اپنے حج کی قبولیت تھی کہ صاحب ایک دن اپنے گاﺅں پہنچ گئے۔وہاں پہنچ کے دیکھا تو نقشہ ہی اور تھا۔ان کا وہ گھر جس میں وہ اپنے والدین کو چھوڑ گئے تھے کہیں موجود نہ تھا۔ان کی ائر پورٹ سے رینٹ کی دمکتی کار دیکھ کے جمع ہوئے بچوں سے انہوں نے اپنے ماں باپ کا پوچھا تو کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ایک بچے نے البتہ اتنا بتا یاکہ ایک بڑھیا جس کے میاں کا چند ماہ پہلے انتقال ہوا ۔جس کا ایک بیٹا سالوں پہلے سعودیہ گیا تھا پھر اس نے لوٹ کے ان کی کوئی خبر نہیں لی۔یہ بد نصیب اس بد بخت بیٹے کی یاد میں رو رو کے اندھی ہو گئی،گاﺅں کے باہر ایک کٹیا میں رہتی ہے۔اس کا بھی پہلے یہیں پہ مکان تھا۔یہ اس بچے کی معیت میں اس کٹیا کی طرف چلے۔پہنچ کے دیکھا کہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ایک جھلنگا چارپائی پہ دراز ہے ۔حاجی بلکہ الحاج انجنئیر صاحب آگے بڑھ کے ماں کے بالکل قریب ہو گئے اور سنا تو وہ اپنے رب سے ہم کلام تھی۔میرے مالک! میرے سر تاج تو نے مجھ سے پہلے اپنے پاس بلا لیا۔ایک بیٹا تھا اسے تیری مشیت نے مجھ سے دور کر دیا۔اب میرا بھی وقت آگیا ہے۔میرے مولا! کیا یہ ممکن نہیں کہ میرا محرم ہی مجھے میری آخری آرام گاہ تک پہنچائے۔یہ کہہ کے اندھی بڑھیا تو اپنے مالک کے ہاں سدھاری۔حاجی صاحب کی البتہ چیخیں نکل گئیں اور آج تک نکل رہی ہیں۔نجانے انہیں ماں کی آخری وقت کی بے بسی ستاتی ہے یا انہیں اپنی اس انویسٹمنٹ کے ضائع ہونے کا دکھ ہے جو انہوں نے دس حجوں کی صورت میں کر رکھی تھی۔

کیاآپ بھی بڑے آدمی تو نہیں بن گئے۔کیا آپ کی ماں بھی تو کہیں آپ کے فراق میں رو رو کے اندھی تو نہیں ہو رہی۔کیا آپ کو بھی حج نامقبول ہونے کے خواب تو نہیں آرہے؟ اگر ایسا ہے تو عالم کے پاس نہ جائیے۔پہلی سواری پہ بیٹھ کے جائیے اور ماں کے قدم چوم لیجیئے ۔ایسا نہ ہو کہ ہمارے حاجی صاحب کی طرح آپ کی انویسٹمنٹ ضائع ہو جائے اور آپ کی چیخیں سن سن کے باقی کے لوگ عبرت پکڑیں۔ماں باپ کے ساتھ کی بے اعتنائی اور بے مروتی آپ کو اللہ کی نظر سے بھی گر دیتی ہے۔جلدی کیجیئے کہیں دیر نہ ہو جائے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291938 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More