تحمل مزاجی: فضیلت واہمیت اور ضرورت

تحمل کا مفہوم
” تحمل“ کا لفظ ”حمل“سے بنا ہے، جس کے معنی” بوجھ اٹھانا “،”برداشت کرنا ‘،” بُردباری کا مظاہرہ کرنا“ اور ”نرمی اختیار کرنا“کے ہیں اور اسلامی اصطلاح میں ناگوار باتوں میں برداشت سے کام لینا اور نا موافق حالات میں نرمی اور تواضع کا اظہار کرنا ”تحمل“ کہلاتا ہے، اسی معنی میں ”حلم“ بمعنی” بُردبار“ بھی استعمال کیا جا تا ہے۔

تحمل انسان کی وہ خاص صفت ہوتی ہے ،جیسے انسان ناگوارحالت میں اپنے غصے اور انتقامی جذبے پرقابو پا کرناگواری کو برداشت کرتا ہے اور انتقام کے بجائے عفوودرگزر سے کام لیتا ہے،اس کو تحمل کہاجاتا ہے یعنی حلیم (بُردبار) وہ شخص ہوتا ہے جو تحمل وبرداشت کی وجہ سے اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہے اور حد اعتدال سے تجاوز نہیں کرتا۔اس لئے تحمل کی صفت بڑی عظیم صفت اورانسان کے ا علیٰ ظرف ہونے کی علامت ہے۔
مرے سر پر ہے تسلیم و رضا کے اَبر کا سایہ
توکّل میرا ایماں ہے تحمل میرا سرمایہ
تحمل کی حقیقت اور جوہر

اہل علم فرماتے ہیں کہ ....صبروتحمل تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔صبرمیں غصہ اوراشتعال کو روکاجاتا ہے اور تحمل میں غصہ اور اشتعال کو برداشت کیا جاتا ہے، گویا یہ دونوں لازم وملزوم ہیںاوردونوں بیک وقت کارفرماہوتے ہیں....اورتحمل وبرداشت کے سلسلہ میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ انتقام کی قدرت نہ ہونے اور انتقام نہ لے سکنے کی مجبوری وکمزوری کا نام تحمل نہیں ہے بلکہ انتقام کی پوری طاقت رکھنے کے باوجودغصہ کو پی جانااور عفوودرگزر سے کام لیناہی” تحمل“ کہلاتا ہے۔

بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مطلب اور فائدہ کی خاطر انسان کسی دوسرے کی سختی اور برائی کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور خاموشی اختےار کرلیتا ہے لیکن یہ تحمل نہیں ہے، کیونکہ ایسا ایک وقتی ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر کیاجاتاہے، اپنی عادت اور صفت کے پیش نظر نہیں کیا، اس لئے اس عمل کو بھی تحمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

تحمل کی اہمیت
قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی صفات کو بیان کیا ہے ، ان صفات میں ایک صفت ”حلم “ کی بھی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان اور حلیم ہے اور اپنے بندوں کے گناہوں، خطاﺅں ، لغزشوں اورغلطیوں سے صرفِ نظر فرما کرمعاف فرمادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی قوت وطاقت کا منبع ہے۔جزا وسزا دےنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے لیکن اپنی شانِ کریمی کی وجہ سے وہ اپنے بندوں کو سزا نہیں دیتا بلکہ معاف فرما دیتا ہے اور اپنے بندوں کی غلطیوں ، گناہوں اورکوتاہیوں پر گرفت نہیں فرماتا بلکہ مہلت اور ڈھیل دے کر گناہوں اور غلطیوں سے باز آنے اوراپنی اصلاح کرنے کا موقع عطا فرماتا ہے، یہ سب اس کی شانِ حلم کی وجہ سے ہے۔

رسول اللہ ﷺ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاتحمل
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمدﷺکو تمام جہانوں کیلئے رحمت (رحم کرنے والا) بنا کر بھیجا اور آپ ﷺ کو صفت ”حلم “ سے بھی نوازا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺنے کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا بلکہ اپنے جانی دشمن، اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ظلم وستم ڈھانے والوں کو بھی معاف فرمادیا۔اےسے کئی واقعات ہیں،جن میں سے واقعہ فتح مکہ کا بھی ہے۔

چنانچہ فتح مکہ کے موقع پرجب پورا مکہ مکرمہ آپ ﷺکے رحم وکرم پر تھا اور تمام قریشِ مکہ مغلوبیت اور مفتوحیت کی حالت میں تھے اور عاجزومجبور بھی تھے لیکن اس کے باوجود حضور رحمة للعالمین ﷺ نے شان رحمت اور شانِ حلم کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے خون کے پیاسوں کو اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرسرزمین مکہ تنگ کرنے والوں کو، غلام صحابہ کرام رضی کوظلم وستم کاشکاراور انہیںبےدردی سے شہید کرنے والوں کوبھی یہ کہہ کرمعاف فرمادیا:
”جوہتھیار ڈال دے اس کیلئے امان ہے،جواپنے گھر کادرازہ بند کر لے اس کیلئے امان ہے، جو مسجد میں داخل ہو جائے اس کیلئے امان ہے اور جو ابوسفیان کے گھرمیںداخل ہوجائے اس کیلئے بھی امان ہے“۔ (کتب سیروتاریخ)

واقعہ افک میں تحمل کی اعلیٰ مثال:
حضورسید عالم ﷺتمام کائنات کیلئے رحمة للعالمین بن کر مبعوث کئے گئے۔آپ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺنے کبھی کسی سے دنیاوی معاملات میں انتقام نہیں لیا بلکہ ہرصحابہ کرام کو بھی عفو ودرگزرکاسبق دیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
ترجمہ: ” حضور نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی سے ذاتی معاملہ میں انتقام نہیں لیا ،سوائے اس صورت کے کسی نے احکامِ خداوندی کی نافرمانی کی ہو“۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

حضور سید عالم ﷺ کومکی زندگی میں بالخصوص اور مدنی زندگی میں بالعموم متعدد بارآزمائشوں ،تکالیف اور مشکلات کاسامنا کرنا پڑا لیکن آپﷺ نے ہر موقع پرنہ صرف خود صبروتحمل،استقامت اور عفوودرگزر کا عظیم مظاہرہ کیابلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی صبر وتحمل کی تاکید و تلقین فرمائی۔”واقعہ افک“ میں آپ ﷺ اورآپ کے گھرانہ کوایک سخت آزمائش اور امتحان سے گزرنا پڑالیکن اس سخت ترین آزمائش کے موقع پربھی آپ ﷺ نے کمال صبروتحمل کا مظاہرہ فرمایا۔اس واقعہ میںحضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اورآپ کے والدگرامی امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی سخت آزمائش اورامتحان کا سامنا کرنا پڑا۔

واقعہ افک ایک ایسا موقع تھا جہاں شاید صبروتحمل کے پیکرکادامن بھی صبرواستقامت سے لبریز ہو جاتا۔واقعہ افک سے مراد وہ واقعہ ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے دامن ِعفت وعزت کوداغدار کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی کئی آیاتِ مبارکہ نازل فرماکر آپ کی پاک دامنی اور عفت وپاکیزگی کو روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح کردیا۔مختصراًواقعہ کچھ یوں تھا کہ سن ۵ ہجری میںغزوئہ بنی المصطلق سے واپسی پرمسلمانوں کا لشکروقافلہ مدینہ طیبہ کے قریب ٹھہر گےااور جب قافلہ واپس چلنے لگا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکا ہار کہیں گم ہو گیاجسے آپ تلاش کررہی تھیں، اسی دوران قافلہ چل پڑااورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکاہودج(اونٹ کا کجاوہ) بھی اونٹ پر رکھ دیا گےا یہ سمجھ کر کہ آپ موجود ہیں،لیکن جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاہارڈھونڈنے سے واپس آئیںتودیکھا کہ قافلہ چلا گیاہے تو آپ اس خیال سے وہیں پر ٹھہر گئیں کہ قافلہ کو معلوم ہوگا تو واپس آجائے گا۔ اسی اثناءمیںتھوڑی دیر کے بعدقافلہ کی رہ جانے والی چیزیں سنبھالنے پر مامورحضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکواکیلے دیکھاتوبلندآواز سے ’اناللہ وانا الیہ راجعون‘پڑھا۔ پھر انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکو اونٹ پر بٹھا کراو رخود اونٹ کی نکیل تھامے پیدل چل کرلشکرتک پہنچے۔ منافقین نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکواس طرح اکیلے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آتے دیکھاتو رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اوراس کے ہم نوامنافقین نے آپ کی شان میں بدگوئی اورتہمت باز ی شروع کردی ،جس میںبعض مسلمان بھی شامل ہو گئے جس میںحضرت مسطح بن اثاثہ، حضرت حسان اور حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے۔

اس واقعہ کے ایک ماہ تک حضور رحمت دوعالم ﷺ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہااورحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سخت پریشان ، آزمائش، بے قراری اور ذ ہنی اذیت کا شکار رہے ،حتی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاایک ماہ تک بیمار رہیں۔ پھراللہ تبارک وتعالیٰ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی شانِ عفت وپاک دامنی میں سورةالنور کی اٹھارہ (18) آیات طیبات نازل فرمادیںاورحق کوواضح اور ظاہرکردیا۔

اس واقعہ کی بناءپرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کواتناشدید رنج اورصدمہ پہنچا کہ آپ نے حضرت مسطح بن اثاثہ کی مالی امداد بند کردی تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ نے سورة النور میںحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی عفت وپاکیزگی کے متعلق آیات نازل کیں اور اس واقعہ میںبداخلاقی کی تہمت لگانے والوں کو معاف اور درگزرکرنے کا حکم فرمایا توحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں معاف کردیا اور ان کی مالی امداد بھی دوبارہ بحال کردی۔اسی طرح جب حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے سامنے حضرت حسان کیلئے سخت الفاظ استعمال کئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے انہیں روک دیااورفرمایا کہ ان سے سہو ہو گےاتھا۔وہ تورسول اکرم ﷺکی طر ف سے کفار کو جواب دےتے ہیں“۔(صحیح بخاری،تفسیرخزائن العرفان،تفسیرمظہری)

خادموں اور نوکروں سے حسن سلوک:
آج کل کے معاشرہ میں عام طورپردولت مند ی پر غرورکرنے والے اکثردولت مند لوگ اپنے نوکروں اور خادموں کوزرِ خرید غلام سمجھتے ہیں اور ان سے نرم خوئی اور محبت سے بات کرنا تو دور کی بات ہے اکثر ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیوں سے بات کرنے کا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں رسول اللہ کااسوہ حسنہ اورسےرت ہمارے سامنے ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دس برس تک رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں بطور خادم اورغلام حاضررہا لیکن کبھی آپ نے مجھے اُف تک نہیں فرمایااور نہ کبھی یہ فرمایاکہ تو نے فلاں کام کیوں نہیں کیا۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

اسی طرح رسول اللہ ﷺنے غصہ پرقابو رکھنے کواصل طاقت قرار دیاہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ:”طاقت ور وہ شخص نہیں ہے جو کُشتی(پہلوانی) میں دوسروں کو پچھاڑدیتا ہے بلکہ طاقتور تو درحقیقت وہ ہے جو غصہ کے موقع پراپنے (نفس کے ) اوپر قابو رکھتا ہے۔“( صحیح بخاری)

جوشخص انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود دوسروں کومعاف کردیتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ:

ترجمہ: ”حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: ”اے میرے رب آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سے کون سب سے زیادہ پیارا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا” وہ بندہ جو انتقامی کارروائی کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے“۔ (مشکوٰة المصابیح)

معاہدہ صلح حدیبیہ میں صحابہ کرام کا تحمل مزاجی کا مظاہرہ
مسلمانوں اورقریش کے درمیان ایک تحریری معاہدہ6ہجری /628ءمیں طے پایا تھا۔ جس کے نتیجہ میں رسول اللہ ﷺنے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قریش کی جانبدارانہ اور یک طرفہ مفادات پر مشتمل یہ معاہدہ منظور فرمالیا تھا۔لیکن بعد میں وقت نے ثابت کر دکھا یا کہ صلح حدیبیہ کافائدہ مسلمانوں کو ہوا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے نگاہِ نبوت سے دیکھ لیا تھا کہ کفار قریش اس معاہدہ کی پاسداری نہیں کر سکیں گے۔

صلح حدیبیہ کی اہم شرائط درج ذیل ہیں۔
۱) مسلمان اس سال حج کئے بغیر واپس چلے جائیں گے۔
۲) مسلمان اگلے سال حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آئیں گے، لیکن تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے۔
۳) مسلمان اگلے سال حج کیلئے آئیں گے لیکن کسی قسم کا ہتھیار ساتھ نہیں لائیں گے اور صرف تلوار ساتھ لاسکتے ہیں لیکن وہ بھی نیام کے اندر ہوگی۔
۴) جو مسلمان مدینہ سے مکہ آئے گا، اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا۔
۵) اورجو مسلمان مکہ سے مدینہ جائے گا، اسے واپس بھیجا جائے گا۔
۶) معاہدہ پر عمل درآمدکے سلسلے میں کسی قسم کی بدعہدی نہیں کی جائے گی۔
۷) تمام عرب قبیلوں کو یہ آزادی ہوگی کہ وہ فریقین میں سے جس کا چاہیں ساتھ دیں۔
۸) اس معاہدہ کہ مدت دس سال ہے، اس دوران فریقین ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے۔

رسول اللہ ﷺ نے صلح کی شرائط تحریر کرنے کی ذمہ داری حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شرائط لکھنے سے قبل ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ لکھا لیکن سہیل بن عمرو نے کہا کہ عرب دستور کے مطابق ”باسمک اللھم“لکھا جائے۔ حضوراکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہی لکھنے کی ہدایت کی ۔اس کے بعد یہ لکھا جاناتھا کہ یہ معاہدہ محمدرسول اللہ ﷺ اور سہیل بن عمرو کے درمیان طے پایا اور جب ”محمد رسول اللہ“ لکھا گیا تو سہیل بن عمرو نے پھر اعتراض کیا کہ” محمد بن عبداللہ“ لکھا جائے ۔ حضور اکرم ﷺ نے اس شرط کو بھی منظور کر لیا۔

اس طرح یک طرفہ مفادات ، مسلمانوں کے نکتہ نظر سے سخت شرائط اور قریش کی من مانیوں نے مسلمان کو شدید اضطراب سے دوچار کر دیا لیکن مسلمانوں نے اس کڑے وقت میں بڑے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اوراس معاہدہ کی پاسداری پر عمل درآمدکیا۔

صلح حدیبیہ ایک ایسا معاہدہ تھا جس میں کئی شرائط مسلمانوں کے مفادات کے بالکل خلاف تھیں اور مسلمان بظاہر مغلوب نظر آرہے تھے لیکن اس موقع پر صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺکے فیصلوں کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ عمل درآمد کرکے اس کا احترام اور پاسداری بھی کی اور انتہائی صبر وتحمل سے کام لیتے ہوئے کسی قسم کا منفی طرزِ عمل اختےار نہیں کیا۔اور پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے صبر و تحمل اور استقامت کا بڑا عمدہ صلہ دیا اور صلح حدیبیہ کے بعد اےسے واقعات ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے قریش کی طاقت کو مزید کمزور کردیا اور بالآخر قریش نے خود ہی بدعہدی کرکے صلح حدیبیہ توڑدیا۔صلح حدیبیہ کے بعد جب مسلمان مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ واپس لوٹ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح نازل فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک فتح مبین کی نویدوخوشخبری سنائی۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴾ اِنَّا فَتَحنَا لَکَ فَتحًا مُّبِینًاo لِّیَغفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّ مَ مِن ذَنبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعمَتَہ عَلَیکَ وَیَھدِیَکَ صِرَاطًا مُّستَقِیمًاo وَّیَنصُرَکَ اللّٰہُ نَصرًاعَزِیزًاo ھُوَالَّذِی اَنزَلَ السَّکِینَةَ فِی قُلُوبِ المُومِنِینَ لِیَزدَادُوآاِیمَانًا مَّعَ اِیمَانِھِم وَلِلّٰہِ جُنُودُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیمًاحَکِیمًاo﴿ (سورة الفتح: آیت ۴۔۱)

ترجمہ: ” بے شک ہم نے آپ کوروشن فتح عطافرمادی تا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سبب سے تمہارے اگلوں اورتمہارے پچھلوں کے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردے اور تم کو سیدھا راستے پر چلائے اور اللہ تمہاری زبردست مدد فرمائے، وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر اطمینان نازل فرمایا تا کہ ان کے ایمان کی حالت کو مزید بڑھادے اورآسمانوں اورزمین کے تمام لشکر اللہ ہی کی ملکیت ہیں اور اللہ تعالیٰ علم وحکمت والا ہے“۔

حضور اکرم ﷺ نے جب یہ خوشخبری اہل ایمان کو سنائی تو مسلمانوں کے حوصلے مزید بلند ہوگئے اور ان کی ایمانی حالت مزیدمضبوط اور قوی ہوگئی اور صلح حدیبیہ سے جو کسی حد تک مایوسی کی فضا قائم تھی اس کیفیت کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمان ایک نئے عزم اور ولولہ کے ساتھ مصروفِ عمل ہو گئے۔
Molana Muhammad Nasir Khan Chishti
About the Author: Molana Muhammad Nasir Khan Chishti Read More Articles by Molana Muhammad Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 180834 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.