جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے فاضل
جج حسنین مسعودی نے اپیل محمد نسیم بھٹ بنام بلقیس اختر میں اپنے فیصلے میں
اس بنیادی سوال کا جائزہ لیا ہے کہ مسلمان شوہر کو طلاق کا قطعی اوریک طرفہ
حق اختیارحاصل ہے یا اس کی کچھ حدود اورکچھ ضابطے بھی ہیں؟موصوف نے نصوص
شرعیہ سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مرد کایہ حق’ مطلق ‘
(absolute) نہیں۔ گویا اس کو یہ کھلی چھوٹ نہیں کہ من موجی معاہدہ نکاح کو
بلا جواز حقیقی منسوخ کردے۔بلقیس اخترکا نکاح 24اگست 2002ءکو نسیم بھٹ سے
ہوا تھا۔ ۶جون2003 ءکو دخترکریمہ کی ولادت کے کچھ عرصہ بعد دونوں میں
ناچاقی ہوگئی۔ جنوری 2006ءمیں بلقیس نے ذریعہ عدالت اپنی اور بچی کےلئے
گزارے کا مطالبہ کیا جس پر شوہر نے دلیل دی کہ وہ طلاق دے چکا ہے۔ مجسٹریٹ
نے اس دلیل کی بنیاد پر بچی کےلئے توگزارہ طے کردیا مگر بلقیس کو غیر مستحق
قرار دیدیا۔ بلقیس کی اپیل پر ضلع جج نے اس حکم کو الٹ دیا جس کے خلاف اختر
بھٹ نے اپیل زیر بحث ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔
اگرچہ یہ فیصلہ 30اپریل 2012ءکولکھا گیا۔ مگراس کی خبر چھ ماہ بعد یکم
نومبر کو شائع ہوئی اور۴نومبر کو سرینگر میں علماءکے ایک مذاکرہ میں اس کو
”امور شرعیہ میں عدلیہ کی راست مداخلت “قرار دیتے ہوئے اپیل کی گئی ہے کہ
تمام مکاتب فکر متحد ہوکر ازالہ کی تدبیر کریں۔ عندیہ ظاہر کیا گیا ہے کہ
مروجہ اور شرعی قوانین کے جانکار فیصلے کا تفصیل سے مطالعہ کریں گے۔ اس
رائے کے ساتھ کچھ اختلافی آوازیں بھی اٹھی ہیں۔ گمان ہے کہ یہ مباحثہ طول
پکڑےگا ۔ ہمارا ارادہ اس پر رائے زنی کا نہیں ہے، البتہ یہ سوال ضرورہے کہ
فیصلے کا تفصیل سے مطالعہ کئے بغیر یہ رائے کیسے قائم کرلی گئی کہ یہ” شرعی
امور میں عدالت کی راست مداخلت “ ہے؟اور جب پہلے ہی ایک رائے بنالی گئی تو
اس کا” مطالعہ“ کیونکر غیر جانبدارانہ اور قابل اعتبار ہوگا؟
بہرحال فیصلہ پڑھنے سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ فاضل جج نے کوئی ذاتی رائے
نہیں تھوپی ہے بلکہ نصوص شرعیہ کے حوالے سے ایک نتیجہ اخذ کیا ہے۔فقہائے
کرام بھی مسائل کا استباط و استخراج انہی نصوص سے کرتے ہیں۔اختلاف ان کی
آراءمیں بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ جسٹس مسعودی کی رائے سے اختلاف ہوسکتا ہے ۔ اس
فیصلے پر غور و خوض دو پہلو ﺅںسے ہونا چاہئے ۔اول یہ کہ فاضل جج نے نصوص کے
حوالہ سے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ معقول و مدلل ہیں یا نہیں؟ اگرلائق جج نے
استدلال میں غلطی کی ہے تو اس کی نشاندہی ہونی چاہئے۔ غور و فکراس پہلو سے
بھی ہونا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں طلاق بدعی کا جو ڈھرہ چل پڑا ہے، اس کی
حوصلہ شکنی منشائے شریعت کو پورا کرتی ہے یاحوصلہ افزائی روح اسلام کے
موافق ہے ؟ یہ انداز فکرمعقول نہیں کہ ہماری رائے ہی درست ہوسکتی ہے، عدالت
کا فیصلہ چاہے کتنا ہی معقول کیوں نہ ”شریعت میں مداخلت “ ہے اورعدلیہ کے
خلاف محاذ آرائی شروع کردی جائے۔بغیر غور و فکر ہر معاملہ میں عدلیہ کو
مطعون کرنے کی یہ روش کہاں لیجائیگی؟ آخر آپ انصاف کی امید کس سے کریں
گے؟فاضل جج نے اسلام میں ازدواجی رشتہ کی اہمیت، طلاق کی گنجائش اور اس کے
طریقہ کار کو جامع انداز میںبیان کیاہے۔ اس کے متعدد پہلوﺅں کی عام افادیت
کے پیش نظر اس کا عام فہم ترجمہ پیش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ صرف تنقید
ہی نہیں،فیصلے کے اہم نکات بھی قارئین کرام تک پہنچ سکیں۔( فیصلہ
kashmirlife.net پر موجود ہے ۔ اس مضمون نگار سے بھی ذریعہ ای
میل([email protected]) طلب کیا جاسکتا ہے۔)
اسلام میں شادی کی حیثیت:
طلاق کے حق سے متعلق مذکورہ بالا سوال کے جواب سے قبل فاضل جج نے یہ
نشاندہی کی ہے کہ اسلام کی نظر میں عقد نکاح زوجین کے درمیان ایک پاکیزہ
میثاق ہے۔یہ انس و محبت ، باہم احترام، وفاشعاری اور اطاعت گزاری کا ملن ہے۔
شادی کو قرآن نے قادر مطلق اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور زوجین کےلئے سکون و
راحت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ فرمایا گیا ہے: ” اور اس کی نشانیوں میں سے ہے
یہ کہ بنادئے تمہارے واسطے تمہاری قسم سے جوڑے کہ چین سے رہو ان کے پاس اور
رکھا تمہارے بیچ میں پیار اور مہربانی۔ بیشک اس میں بہت پتے کی باتیں ہیں
ان کےلئے جو غور کرتے ہیں۔“( 30:21)
اسلام میں شادی محض جذباتی یا حیوانی تقاضوں کو پورا کرنے کاہی ذریعہ نہیں
بلکہ ایک عبادت بھی ہے ۔نکاح کے رشتے میں بندھ کر انسان اللہ کے حکم اور
رسول کی سنت کی اتباع کرتا ہے۔اسلام تجرد کا قائل نہیں۔ نکاح ایک دینی ذمہ
داری ہے، اخلاق کا تحفظ ہے اور سماجی ضرورت ہے۔ شادی کے ذریعہ خاندان بنتا
ہے جو سماج کی بنیادی اکائی ہے۔رسول اللہﷺ کا فرمان ہے، ” نکاح میری سنت ہے“
اور ”جس کو میری سنت سے رغبت نہیں وہ ہم میں سے نہیں۔“ شادی باہم انس و
محبت اور وفاشعاری کا رشتہ ہے۔ اس معاملہ میں اسلام زوجین میں سے کسی ایک
کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتا۔دونوں برابر ہیں۔ محولہ بالا آیت مبارکہ میں
خطاب صرف مسلم مرد یا مسلم عورت سے نہیں ہے۔ قرآ ن یہ نہیں کہتا کہ اللہ
تعالیٰ نے مرد کےلئے عورت کو اس کا جوڑا بنایا یا عورت کےلئے مرد کو اس
کاجوڑا بنایا، بلکہ عورت اور مرد کو ایک ساتھ خطاب کیاہے کہ اس نے زوجین کی
تخلیق فرمائی ۔ یہ اس کی رحیمی ہے۔یہ صاف اشارہ ہے کہ رشتہ ازدواج میں عورت
اور مرد برابر کے شریک ہیں۔ قرآن حکیم شوہر اور بیوی دونوں کےلئے ”زوج “
کالفظ استعمال کرتا ہے۔ قرآن نے جہاں بھی مثالی شریکوں کا ذکر کیا ہے وہاں
شوہر او ربیوی کی اصطلاح نہیں بلکہ ”زوج ‘ ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس
سے یہ صاف ہوجاتا ہے کہ اسلام کی نظر میںشوہر اور بیوی برابر کے شریک ہیں
اور ان کا درجہ بحیثیت زوجین آپس میںبرابر کاہے۔
یہ ہے وہ اساس ہے جس پراسلام شادی شدہ جوڑوںمیں ایک خاص معاشرت کی حوصلہ
افزائی کرتا ہے۔ اسلامی اصولوں کے دائرے میںرہتے ہوئے دونوں کو اپنی پسند ،نا
پسند کی آزادی دی گئی ہے۔ نکاح کے وقت دونوں کو دائرہ عقد نکاح میں داخل
ہونے کا اہل ہونا چاہئے۔ نکاح کےلئے دونوں کی رضامندی ، ایجاب و قبول ضروری
ہے۔یہ اس نظریہ کو مزید تقویت پہنچاتا ہے کہ ایک مرد اور عورت کو عقد نکاح
کے وقت برابر کا حق، برابر کی ذمہ داری اور برابر کا اختیار حاصل ہے۔نکاح
کے بعد دونوں کے اپنے اپنے حقوق ہیں۔ شادی کے مقاصد اور اس کی بنیاد سے
ظاہر ہے کہ یہ چار دن کا عارضی ملن نہیں بلکہ ایک طویل مدتی تاحیات ساتھ کا
عہد ہے۔
باہم حفاظت کرنے والے:
اسلام میں میاں اور بیوی ایک دوسری کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ قرآن ان
کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے۔(تمہاری عورتیں لباس ہیں تمہارا اور تم
لباس ہو ان کا:۲:187) یہ آیت مبارکہ اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ دونوں کا
رشتہ کس قدر قربت اور بے تکلفی کا ہے۔یہاں بھی قرآن شوہر اور بیوی کے
درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔ لباس صرف گرمی ،سردی یا بیرونی زد سے ہی
حفاظت نہیں کرتا، بلکہ ایسی چیز ہے جس سے زیادہ قریب کوئی دیگر چیز انسان
کے بدن سے ہوتی ہی نہیں۔چنانچہ ” ایک دوسرے کے لباس“ کی تمثیل کا مطلب یہ
ہوا کہ کوئی دوسرا شخص اتنا قریب اور حفاظت کرنے والا نہیں ہوسکتا جتناشوہر
اپنی بیوی کےلئے اور بیوی اپنے شوہر کےلئے ۔زوجین کے درمیان باہم انس و
محبت، قربت، فکرمندی اور حفاظت کایہ جذبہ پورے خاندان، سماج، دنیا اور
کائنات پرمحیط ہوجاتا ہے ۔چنانچہ اسلام میں رشتہ ازدواج عالمی امن و محبت
کی ایک مضبوط اکائی ہے۔
تنسیخ عقد نکاح:
اگرچہ اسلام شادی کو عارضی رشتہ تصور نہیں کرتا اور یہ توقع و تلقین کرتا
ہے کہ زوجین کے درمیان انس و محبت، دلچسپی، پاکبازی اور باہم عزت کی
بنیادوں پر ایک مستحکم رشتہ قائم رہے لیکن اس کے باوجود وہ بعض ناگزیر وجوہ
کی بنیاد پر انقطاع عقدنکاح کے امکان کوخارج نہیںکرتا۔ اسلام نے تنسیخ
معاہدہ نکاح کے تین طریقے متعین کئے ہیں۔ (الف) خلع: زوجین کی باہم رضامندی
سے ۔(ب) طلاق: شوہر کے طلاق دینے سے (ج) فسخ نکاح: قاضی کی مداخلت سے ۔ اس
کے علاوہ کچھ دیگر ضمنی طریقے بھی ہیں، مثلا ایلائ، ظہار، مبارت اور لعان
وغیرہ۔ پیش نظر کیس شوہر کی طرف سے طلاق کا ہے ۔ طلاق تین قسم کی ہوسکتی ہے:
(الف) طلاق احسن: مدت طہر (دو ماہواریوں کے درمیان وقفہ) میںبغیر اس کے کہ
ہم بستر ہواہو ، شوہر ایک طلاق دیدے اور پھرمدت عدت ختم ہونے تک ہم بستر نہ
ہو۔(ب) طلاق حسن: طہر کی لگاتارتین مدتوں کے دوران ہر مدت میں ایک مرتبہ
طلاق دے اور اس دوران ہم بستر نہ ہو۔(ج) طلاق بدعت: ایک ہی طہر میں تین
طلاق ، چاہے ایک ہی جملے میں دیدے یا تین جملوں میں دوہرادے، یا لکھ کر
دیدے یا کسی اور طرح اپنا عندیہ صاف ظاہر کردے ، اس طرح طلاق مغلظہ واقع
ہوجائے گی جس کو لوٹایا نہیں جاسکے گا۔
یہ بات اہم ہے کہ صرف طلاق احسن وہ قسم ہے جس کو قرآن کی پسندیدگی
(approval) حاصل ہے(اورجس کوتفصیل سے بیان کیاہے) کیونکہ اس میں رجوع کی
گنجائش رہتی ہے۔ ایک طرح یہ تجربہ کے طور پر علیحدگی کا عارضی طریقہ ہے جس
میں زوجین بے تعلق رہ کر وقت گزاریں۔ اس میں زوجین اور ان کے قریبی لوگوں
کو انقطاع تعلق و علیحدگی کے منفی اثرات کومحسوس کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سند
جواز کے اعتبار سے طلاق حسن، طلاق احسن کے بعد کے درجہ میں آتی ہے۔ دو طہر
کے درمیان طلاق کے بعد دونوں فریقوں کےلئے یہ موقع رہتا ہے کہ وہ یا تو
ساتھ نباہ کا فیصلہ کرلیں یا ہمیشہ کےلئے الگ ہوجائیں، جس صورت میں رجوع
کرنا ممکن نہیںہوگا۔ ایک بار جب دو طلاقوں کی مدت کے دوران رجوع نہ ہو تو
تیسری طلاق بائن ہوگی ہے۔قرآن سورہ بقرہ کی آیت 229 میں کہتا ہے:” اور جب
طلاق دی تم نے عورتوں کو اور پھر پہنچیں اپنی عدت تک (عدت پوری ہونے کو آئے)
تورکھ لو ان کو موافق دستور کے یا چھوڑ دو ان کو بھلی طرح سے اور نہ روکے
رکھو ان کو ستانے کےلئے تاکہ ان پر زیادتی کرو“۔ طلاق بدعت بعد کی ایجاد ہے
اور قرآن و سنت میں اس کی کوئی سند نہیں ملتی۔ یہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ
طلاقوں کی وبا پر قابو پانے کےلئے علاج کے طور پر تجویز ہوئی تھی مگر بعد
میں اس مرض سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوئی جس کا علاج مقصود تھا۔اتنا ہی نہیں
کہ اس سے قطعی طلاق فوراً واقع ہوجاتی ہے بلکہ مطلقہ خاتون عدت کے دوران
اپنے نان و نفقہ اور گھر میں رہنے جیسے حقوق سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔ طلاق
کی یہ انتہائی مذموم اور ناپسندیدہ قسم ہے اور نکاح کو توڑنے کےلئے یہی
کثرت سے استعمال کی جاتی ہے۔“
فیصلے کے اس حصے میں قرآن وسنت کے حوالے سے رشتہ ازدواج کی جو تشریح اور
طلاق کی جو قسمیں بیان کی گئی ہیں ان سے اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ اس
کے بعد طلاق کے سلسلے میں قرآن کے احکامات اور اقوال نبی ﷺکے حوالے سے یہ
استدلال کیا گیا ہے کہ اسلام طلاق کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔یہ حصہ آئندہ پیش
کیا جائیگا، بشرطیکہ اللہ نے توفیق دی۔ (ختم) |