میڈیا کسی بھی ملک کی تعمیر و
ترقی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے‘ اسی وجہ سے صحافت کو ریاست کے
چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے‘ موجودہ دور میں جبکہ ہر طرف افراتفری کا عالم
ہے میڈیا ہی واحد ذریعہ ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے ہم تیزی سے بدلتی
صورتحال و واقعات سے خود بھی آگاہ رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اطلاعات بہم
پہنچا سکتے ہیں‘ پاکستانی میڈیا کے بارے میں پاکستانی شہریوں کا ملا جلا رد
عمل ہے‘ میڈیا کہیں مثبت کردار ادا کر رہا ہے اور کہیں منفی جس کی اصل وجہ
یہ ہے ہم اپنا کردار صحیح طرح ادا نہیں کر پا رہے‘ ہم نفسا نفسی کے اس دور
میں اپنی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اندھے ہو چکے ہیں‘ ہم اپنی
تہذیب‘ معاشرتی آداب‘ ثقافت‘ اخلاقیات‘ مذہب سے کوسوں دور ہو چکے ہیں اور
ہوتے جا رہے ہیں‘ جس کے اثرات ہمارے میڈیا پر بھی واضح نظر آ رہے ہیں‘ غیر
ملکی فلموں‘ انڈین ٹی وی ڈراموں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے اور صرف
اسی پر بس نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سرے سے ہی مطلب تبدیل کرنے
کیلئے ہمارے ”میر جعفر و میر صادق“ اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کا آلہ
کار بنتے ہوئے اُن کی مذموم سازشوں کو کامیاب بنانے پر تُلے ہوئے ہیں‘
غداران ملت و غداران اسلام نے پاکستان کے معرض وجود میں لانے کا سبب بننے
والے نعرے کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے‘ جس کا خمیازہ ہمیں آنے والے دنوں میں
بھگتنا پڑے گا‘ ”پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔پڑھنے لکھنے کے سوا“ یہ نعرہ آجکل
ٹیلی ویژن پر دکھایا جا رہا ہے یعنی ہمارے ”روشن خیال“ ”محب وطن“ افراد نے
وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کی بنیاد ہی بدل ڈالی۔
قارئین کرام! موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا
سکتا کہ آنے والے 20-25 سالوں میں ”ارباب روشن خیال“ کی طرف سے یہ سننے کو
نہ مل جائے کہ پاکستان نہرو‘ گاندھی یا ابراہم لنکن نے بنایا تھا‘ اسی طرح
پاکستان کی نئی نسل میں امریکی ہمدردی کا جذبہ جگانے کیلئے اخبارات اور
ٹیلی ویژن چینلز پر US-AID کے اشتہارات دھڑا دھڑ دکھائے جا رہے ہیں‘ ڈالروں
کی خوشبو میں محو ہو کر ہم یہ بھولتے جا رہے ہیں کہ ”یہود و نصاریٰ“ کبھی
ہمارے دوست نہیں ہو سکتے‘ ہم ایک قوم ہوتے ہوئے بھی قوم کہلانے کے لائق
نہیں‘ ہم سب ڈھیٹ اور بے شرم ہو چکے ہیں‘ ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں
پڑتا کہ ہمارے پیارے پاکستان کا بنیادی مطلب تبدیل کیا جا رہا ہے‘ ہمارے
منتخب کئے ہوئے نمائندے ہمارے سر پر جوتے مار رہے ہیں لیکن ہمیں کوئی
شرمندگی نہیں ہوتی کیونکہ ہم اسی کے مستحق ہیں‘ ہم اپنے لئے اور پاکستان
کیلئے بہتر نمائندوں کا انتخاب کرنے کی بجائے ہندوﺅں کی طرح ذات پات کو ووٹ
دے کر اپنا مستقبل برباد کر لیتے ہیں‘ ہمیں صرف اور صرف ڈالروں سے پیار ہے‘
دشمنان اسلام و دشمنان پاکستان ہماری نسلوں کو Slow Poisoning سے ناکارہ
بناتے جا رہے ہیں‘ ہم جذباتی ہو کر ملالہ جیسے واقعات پر بناءسوچے سمجھے
حقائق جانے بغیر سڑکوں پر نکل آتے ہیں‘ کیا ہم انسان ہیں؟
ہائے افسوس! ریاست کے چوتھے ستون کو بھی ”امریکی زنگ“ لگ گیا جس کا جادو سر
چڑھ کر بولنے لگا ہے‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی نصاب سے جہاد کو
خارج کر دیا گیا ہے اور اگر کہیں جہاد کا لفظ ہے بھی تو اس کے معنی ہی بدل
کر رکھ دیئے ہیں جبکہ Mr. Chips جیسی فضول کہانیاں نصاب میں موجود ہیں اور
ماشاءاللہ سے ہم نے حضرت قائد اعظم ؒ کے فرمان سے بغاوت کرتے ہوئے کشمیر کو
بھارتی ریاست تسلیم کر لیا ہے‘ ہم کب تک سوتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟ ہمیں اُس
وقت سے پہلے جاگنا ہوگا‘ کہیں سرکاری سطح پر پاکستان کا مطلب تبدیل نہ ہو
جائے‘ ہمیں عظیم مسلمان قوم کے طور پر اپنا لوہا دوبارہ منوانا ہوگا‘ ہمیں
اپنے اسلاف کی یاد تازہ کرنی ہے‘ ہمیں اپنے آباﺅ اجداد کی تاریخ دہرانی ہے‘
ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم ایک قوم ہیں‘ ہمیں اقبالؒ کا شاہین بننا ہے‘ ہم نے
بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے ہیں‘ ہم نے تیغ اور توپ سے لڑنا ہے‘ اگر ہم
اپنی روش کو تبدیل کر لیں گے تو انشاءاللہ غداران ملت و غداران اسلام‘
دشمنان ملت و دشمنان اسلام منہ کی کھائیں گی اور ”پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ ہی رہے گا۔ |