”خیر و شر“ کے درمیاں علامت حق ہیں حسین

رسول کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ ہی دین مکمل ہو گیا، اللہ کریم کا ارشاد ہے: ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا“ (سورةالمائدة:۳) جب دین کامل ہے، کوئی شبہہ اور وہم کی گنجایش نہیں پھر اس دین متین سے انحراف بھی کس طرح قابلِ برداشت ہو گا۔ اسی نظام فطرت اور دین کامل کی فصیل میں یزید شگاف ڈالنا چاہتا تھا۔ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس جہاں سے تشریف لے جانے کے بعد یزید نے حکومت و امارت کا نظام سنبھالا۔ امید تھی کہ وہ نظام حکومت سے مربوط ہونے کے بعد اسلامی فکر و خیال اپنا لے گا لیکن ایسا ہوا نہیں۔

یزید کے نزدیک دو نظام تھے، اسلامی نظام اور قیصر و کسریٰ کا باطل نظام حکومت۔ اسلامی نظام فطری اور کامل و اکمل تھا جب کہ قیصر و کسریٰ کا نظام انصاف و دیانت کے خلاف تھا۔ یزید کی فطرت میں شر تھا۔ اسے خلاف فطرت باطل نظام بھایا۔ خوف خدا کیا رخصت ہوا اس نے ظلم و ستم کو شعار بنایا۔ دین کے اصولوں سے کھلا انحراف کیا۔ نفس کا اتباع کیا۔ فکر کو رسوا کیا۔ اس کا مقصد پیغمبر اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے کی شہنشاہیت کا فروغ تھا، جس کی بنیاد انسانی اصولوں کی پامالی پر تھی۔ ظلم پر تھی۔ بے حیائی پر تھی اور فحاشی و بد بختی پر تھی۔ اس لیے یزید سے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جنگ حق و باطل کی جنگ تھی۔ یزید کا نشانہ نظام مصطفی تھا۔ امام حسین کے نزدیک نظام مصطفی کی حفاظت اہم تھی۔ یزید شریعت کو طبیعت کے تابع کرنا چاہتا تھا اور امام حسین شریعت کی بالادستی چاہتے تھے۔دونوں میں یہی بعدالمشرقین تھا۔ ایک باطل کا علم بردار تو ایک حق کا پاس دار۔

ان وجوہ سے واقعہ کربلا کو سیاسی معرکہ کہنا عقل و خرد سے بعید ہے اگر دین کی بقا کے لیے جاں نثاری سیاسی جنگ گردانی جائے تو پھر اسلامی استحکام کے تمام معرکوں کی حسی حیثیت مجروح ہو کر رہ جائے گی۔ در اصل اس میں بھی یہود و نصاریٰ کی پالیسی ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کو تقویت پہنچنے والا ہر عمل اور اسلامی حیات کے لیے قربانی دینے والی ہر شخصیت چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اسی لیے وہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ان سے بغض و حسد رکھتے ہیں۔ اسلام کے تمام دشمن یزید کے حامی ہیں۔ وہ یزید کو ان لوگوں کے لیے آئیڈیل بنانا چاہتے ہیں جو اسلامی فکر سے آزادی کے متوالے ہیں۔

مسلمانوں میں انتشار اور تفریق کے لیے صہیونیت کا یہ کاز کسی حد تک کام یاب رہا ہے کہ وہ یزیدی فکر و خیال کے حامل بعض افراد مسلم سوسائٹی میں تیار کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی لیے کبھی کبھی کہیں سے یزید کی مدح میں یہ آواز آجاتی ہے کہ ”یزید برحق تھا، واقعہ کربلا ایک سیاسی معرکہ تھا“.... عقل و خرد سے غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے آغاز میں خلفاے اسلام کا کردار ہی اسلام کی ترجمانی کا عمومی ذریعہ مانا جاتا تھا جب کہ احادیث و اسلامی تعلیمات باضابطہ کتابی صورت میں سامنے نہیں آپائے تھے ایسے میں یزید کی بیعت کا مطلب یزید کے افعال اور ظلم کو جواز فراہم کرنا تھا۔ دین تو اہل بیت کے گھرانے سے تقویت پاتا ہے اس لیے امام حسین نے دین کے نکھرے چہرے پر یزیدی ستم کے چھینٹے نہیں پڑنے دیے، ہاں! جان دے دی لیکن اسلام کی شان نہیں دی۔ اپنے لہو سے اسلام کے گلستاں کی آبیاری کی۔ ایک ایسی مثال قائم کی جو بہادری اور عزم محکم کا باعث بنی، جو اسلامی شان کے اظہار کا ذریعہ بنی، جو حق کے لیے مژدہ جاں فزا ثابت ہوئی۔ اب جب بھی دین کے لیے جان کی بازی لگانے کی بات آئے گی امام حسین کی قربانی یہ پیغام دے گی کہ خانوادہ نبوی نے قربانی کی مثال قائم کر دی ہے لہٰذا جان دے دو۔ حق کی زندگی تمھاری قربانی کو جاودانی کے مقام پر فائز کر دے گی۔

سیاسی جنگ میں عرصہ تک تیاری کی جاتی ہے، شمشیر و سناں، توپ و تفنگ اور سامانِ حرب و ضرب اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ عمدہ تربیت کی جاتی ہے، اشیاے خورد و نوش ذخیرہ کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ ہی الگ ہے ، اسلام کے مقابل باطل تمام فتنہ سامانیوں سے لیس آیا۔ خیمہ حسینی میں اشیائے حیات بھی میسر نہیں۔ بہ ظاہر مجبور ہیں لیکن حق کے لیے مستعد ہیں۔ جذبہ صادق سے لیس ہیں۔ یہ مجبوری اضطراری نہیں اختیاری ہے، یہ ایک امتحان تھا جس میں ثابت قدمی کا اظہار ہونا تھا اور ہوا بھی، تاریخ انسانی نے وہ سماں دیکھا جب پیاس سے مضطرب جسم ناز زخموں سے چور اسلام کے لیے خاک پر گرا لیکن اسی کے ساتھ یزیدیت کی موت بھی ہوئی، یزیدیت کی موت در اصل ایک فکر کی موت ثابت ہوئی، امام حسین کی قربانی حق کی زندگی بن کر جذبات کے لیے مہمیز کا سبب ہوئی۔ اب ہر باطل کے لیے یزید ”شر و فساد“ استعارہ بن چکا ہے اور امام حسین ”خیر و عافیت“ کی علامت بن چکے ہیں، معرکہ حق و باطل میں حق کا نکتہ ارتکاز کربلا میں سامنے آیا، حیات انسانی میں دین حق کے لیے عظیم پیغام کربلا کی زمیں سے ملا:
ہر دور میں اٹھتے ہیں یزیدی فتنے
ہر دور میں شبیر جنم لیتے ہیں
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 257146 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.