ترقی کا راز

یہ لاہور ہی کا علاقہ ہے مضافات کہہ لیں، رائے ونڈ روڈ پر چمرو پور گاﺅں کے عقب میں ایڈن پارک میں میری رہائش ہے۔ ارد گرد زیادہ تر مزدور اور محنت کش طبقہ آباد ہے۔ اپنے بچوں کو تعلیم سے آرستہ کرنے کا یہ طبقہ بھی پوری طرح متمنی ہے۔ چمروپور میں گورنمنٹ کے دو سکول ہیں گورنمنٹ بوائز ہائی سکول اور گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ،چند پرائیویٹ سکول بھی ہیں گو معیاری نہیں مگر علاقے کے لوگوں کی مالی حالت کے مطابق گزارہ کرتے ہیں۔ اس ساری صورت حال کے باوجود میں عادتاََ جب یہاں کے چھوٹے بچوں سے پوچھتا ہوں کہ بیٹا کہاں پڑھتے ہو تو ستر فیصد کا جواب ”مدرسے پڑھتا ہوں“ ہوتا ہے۔ یہاں مدرسوں کی تعداد سکولوں سے زیادہ ہے بہت سے قاری حضرات بھی ملتے ہیں۔ جو چلتی پھرتی درسگاہیں ہیں۔ یہ قاری حضرات مدرسوں کی طرح باقاعدہ کسی نصاب کے تحت تو نہیں پڑھاتے مگر خواندگی کی حد تک لوگوں کو قرآن حکیم اور اُس کے الفاظ سے پوری طرح آشنا کر دیتے ہیں۔

ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں تو تعلیم پر اخراجات کا بتا بتا کر بلکان ہوتی ہیں جانے انہیں یہ صورتحال نظر کیوں نہیں آتی۔ لاہورمیں اگر یہ صورتحال ہے تو لاہور سے کچھ ہٹ کر سرکاری سکولوں کی صورتحال مزید بد تر ہو گی۔ مجھے بچوں کے مدرسے میں پڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ غنیمت ہے کہ اس تعلیمی اندھیرے میں انہوں نے ایک شمع تو روشن کی ہوئی ہے مگر افسوس کہ ہمارے مدرسے نصاب کے لحاظ سے جمود کا شکار ہیں۔ ان دینی مدرسوں میں زیادہ تر آٹھ سالہ درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ دو صدیاں پہلے کا مرتب شدہ نصاب ہے ۔ گو قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ کے علاوہ اب انگریزی ، حساب، تاریخ، سائنس اور کمپیوٹر بھی شامل کر لیے گئے ہیں مگر اس سب کے باوجود یہ نصاب موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ نصاب ایسے نوجوان تیار کر رہا ہے جو مذاہبی لحاظ سے تو بہت سر گرم ہوتے ہیں مگر قرآن جس جستجو اور فکر کی دعوت دیتا ہے اس جستجو اور فکر سے عاری ہوتے ہیں اعتقاد اور عبادات کے حوالے سے تو انہیں پوری طرح بتایا جاتا ہے مگر خلقِ خدا کی خدمت جو قرآن کا وہ پیغام ہے جو دین کی بنیاد ہے اور دوسرے مذاہب سے ہمیں ممتاز بناتا ہے اس پر ان مدرسوں میں بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔

آج تعلیم میں روزانہ کی بنیاد پر تبدیلی آرہی ہے کمپیوٹر کی ایجاد نے اس کی تیز رفتاری میں اس قدر اضافہ کر دیا ہے کہ کہتے ہیں کہ بنی نوح انسان نے پچھلے پچیس تیس سال میں جتنی ترقی کی ہے جو اس کی ابتداءسے اس وقت تک کی ترقی سے زیادہ ہے تعلیمی ضروریات بھی اتنی ہی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ہم بحیثیت قوم بھی اس ترقی کا ساتھ نہیں دے رہے۔ ہمارے سکول کالج اور یونیورسٹیاں بچوں کی تعلیمی ضروریات کو اس تیزی سے پورا نہیں کر رہیں جتنی ضرورت ہے مگر پھر بھی ان کی صورتحال کافی بہتر ہے۔ مگر مدرسوں کی صورتحال اس معاملے میں انتہائی پست ہے۔ مدرسوں کے بچوں کو بھی جدیدیت سے آشنا کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے نصاب اور طریقہ کار میں بہت بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

1947ئ میں جب پاکستان وجود میں آیا تو کل 189مدرسے تھے مگر ان کی تعداد بڑھتی گئی خصوصاََ ضیا الحق کے دور میں مدرسوں کی تعداد نے بہت ترقی کی۔ اس وقت پاکستان میں تقریباََ (40,000) چا لیس ہزار مدرسے کام کر رہے ہیں۔ اور ہر مدرسے کی بنیاد کسی نہ کسی مسلک سے ہے۔ شیعہ، سنی ، اہلحدیث ، دیو بندی ، بریلوی ، سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی بنیاد پر مدرسے ۔سارے مدرسے مسلمانوں کے ہیں ۔ مگر انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے یہاں سے فارغ ہونے والے نوجوان اپنے ساتھ اسلامی بھائی چارہ اور اخوت کی تعلیم لے کر معاشرہ میں نہیں آتے اور اگر کچھ بھائی چارہ اور اخوت ہوتا ہے تو فقط اپنے ہم مسلک اور ہم مکتب کے لیے۔ باقی سب کے لیے کچھ اچھا پیغام نہیں ہوتا۔ مدرسوں کے لیے کچھ یکساں نصاب جو اسلامی بھائی چارے اور پیار محبت پر مشتمل ہو آج کی پہلی ضرورت ہے تا کہ نفرتوں کے اس سیلاب جو اس قوم کو بہا لے جا رہا ہے پر قابو پایا جا سکے۔

کیمبرج اور آکسفورڈ آج دنیا کو بہترین درسگاہیں ہیں۔ آکسفورڈ انگریزوں کی قدیم ترین اور دنیا میں اپنی ابتداءسے آج تک قائم رہنے والی یونیورسٹیوں میں دوسری قدیم ترین یونیورسٹی شمار ہوتی ہے۔ پہلی قدیم ترین اور آج تک زندہ رہنے والی یونیورسٹی یونیورسٹی آف پیرس ہے ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ابتداءغالباََ 1096ئ میں ہوئی۔ 1169ئ میں ہنری IIنے جب انگریز طلبا کے پیرس یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی عائد کی تو آکسفورڈ نے اس کمی کو فوری طور پر پورا کیا اور یوں ایک بڑی درسگاہ کے طور پر نمایاں ہوئی۔

1209ئ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے دو اساتذہ اور کچھ طالبعلم ناراض ہو گئے۔ دریائے کیم پر ایک پل ہے اس پل کے پاس ان اساتذ ہ اور طالبعلموں نے ایک نئے ادارے کی بنیاد رکھی۔ اور اسی حوالے سے اس درسگاہ کا نام کیمبرج رکھا گیا۔ مگر ان دونوں یونیورسٹیوں میں بہت یکسانیت اور بہت سی چیزوں میں اشتراک آج بھی جاری ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آج کی یہ شاندار درسگاہیں ابتداءمیں خالصتاََ مذہبی ادارے تھے اور نہیں مذہبی لوگ ہی چلاتے تھے آج ان کی ترقی کا راز اور دنیا کی بہترین درسگاہ بننے کا سبب یہی ہے کہ انہوں نے نصاب میں بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ اور وقت کی رفتار کے مطابق تبدیلی کی اور جان لیا کہ دنیا میں سب سے بڑی نیکی اور عبادت خلقِ خدا کی خدمت ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500738 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More