22عرب ممالک کے قلب میں واقع
ناجائزوناپاک یہودی ریاست اسرائیل نے ایک بار پھر فلسطینی مسلمانوں پر ظلم
و ستم کے پہاڑتوڑے ہیں اگرچہ مصر ی صدر کی کامیاب کوششوں کے نتیجے میں اب
جنگ بندی ہوچکی ہے لیکن چھ دن تک جاری رہنے والی خون کی ہولی اوراس پر اس
امت مسلمہ نے ایک بار پھر مجرمانہ خاموشی اختیار کی جس کے آفاقی مذہب اسلام
کی ابتدائی تعلیم ہی یہ ہے کہ ''تمام مسلمان ایک جان کی مانند ہیں اگرجسم
کے ایک حصے میں تکلیف ہوتواسے پوراجسم محسوس کرتا ہے''لیکن قبلہ اول کے
مکین مظلوم مسلمان بھائیوں کی آہ و بکا پرکسی بھی اسلامی ملک کے سربراہ ،کسی
عرب لیگ،او آئی سی یاکسی نام نہاد حقوق انسانی کی تنظیم کو یہ جراءت نہ
ہوسکی کہ وہ اس بیہمانہ اور غیرانسانی قتل عام پر اپنے غزہ کے بھائیوں کے
ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوتا یا کم ازکم اس اسرائیلی بربریت کے
خلاف موثرآوازہی اٹھاسکتا ۔2007ءسے غزہ میں حماس کے برسرِ اقتدار آنے کے
بعد اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے اور اس دوران غزہ کے 16لاکھ
عوام کو جن مسائل سے دوچار ہونا پڑا ہے اس کی نظیر تاریخِ انسانی میں بہت
کم ہی ملتی ہے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی بھائیوں پر ایسا ظلم و ستم پہلی
بار نہیں توڑا گیا اس سے پہلے1982ءمیں صابرہ و شتیلا کے مہاجر کیمپوں میں
پناہ گزینوں پرصرف 48گھنٹوں میں 8000مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر
شہید کردیاگیاتھااس تباہی و بربادی کا مرکزی کردار ایریل شیرون تو زندگی
میں ہی چارسال سے خوفناک عذاب میں مبتلا دنیا کو درس عبرت دے رہاہے اس کے
بعد2008ءمیں بھی اسرائیلی درندوں نے غزہ کے محصورین پر وحشیانہ بمباری کی
تھی جس میں 1400فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جن میں ایک بڑی
تعداد اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کی تھی۔ 2010ءمیں غزہ کے محصورین کیلئے
مختلف ممالک سے خوراک لے جانیوالے قافلے freedom flotillaپر جس طرح عالمی
قوانین کی صریحاََ خلاف ورزی کرتے ہوئے حملہ کیا اور اُن سے خوراک و ادویات
چھینیں اس پر پوری دنیا چیخ اٹھی تھی لیکن اسرائیل کے کانوں پراس وقت بھی
جوں تک نہیں رینگی تھی کیوں کہ دنیاکا سب سے بڑا دہشتگرد امریکہ ہمیشہ اس
کی پشت پررہاہے اورآج بھی ایک ایسے وقت میں جب اسلامی دنیا کے ساتھ ساتھ
دیگر ممالک کے عوام بھی کمسن بچوں کی گلتی سڑتی اور بے گوروکفن لاشوں
پرسراپا احتجاج ہیں ایسے میں تمام انسانی حقوق و جنگی قوانین کو پس پشت
ڈالتے ہوئے امریکی صدراوباما کہہ رہاہے کہ ''دفاع اسرائیل کا حق ہے'' اس
طرح دنیا کے سامنے امریکہ کا مکروہ چہرہ ایک بار پھردنیا کے سامنے عیاں
ہوگیاہے اوراس بار بھی اس نے وہی کرداراداکیا جیسا کہ وہ اس سے قبل سلامتی
کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش ہونیوالی تمام قراردادوں کو ویٹو کرکے
اداکرتا رہاہے ۔اسرائیل کی جانب سے اس حالیہ حملے نے اس آواز کو ایک بار
پھر موثربنادیا ہے جو گزشتہ ایک عرصے سے اسلامی دنیامیں اٹھائی جاتی رہی ہے
اور چند ہی روز قبل حج کے موقع پر بھی امام کعبہ نے اس جانب توجہ دلائی کہ
امت مسلمہ کو اپنے وسائل کو بروئے کارلاتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا
اوراس میں ترقی کرنا ہوگی مثلاََ آپ دیکھیں کہ اس اسرائیلی حملے میں جو
14نومبر کو معروف جہادی کمانڈر احمدالجباری کی شہادت کے ساتھ شروع ہوا میں
اسرائیل نے بے پناہ وسائل جھونک دئیے ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں
اسرائیل کا خرچہ 40کروڑ ڈالر روزانہ کے حساب سے ہوا جس میں سے 20کروڑ
ڈالرروزانہ تو وہ صرف حماس کے فقط 100ڈالر میں تیارکردہ قسام راکٹوں سے
بچاؤ کیلئے خرچ کرتا رہا بیشک اس طرح اسرائیل کو بے حساب معاشی بوجھ کا
سامنا کرنا پڑا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے پاس موجو د امریکی ٹیکنالوجی
iron domeنے اسے بہت حد تک محفوظ رکھا ورنہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر
پھینکے گئے 1350قسام راکٹ اگر درست نشانوں پر پہنچتے تو اسرائیل کا
تیاپانچہ ہوجاتا لیکن iron domeٹیکنالوجی نے ان راکٹوں کے 70%حملوں کو فضا
میں ہی ناکام بنادیا جس سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ
مسلمانوں کو اپنا وجود برقراررکھنے اور ترقی کرنے کیلئے بحرحال سائنس و
ٹیکنالوجی سنٹر تعمیر کرنا ہوں گے اپنے وسائل کو عالم اسلام کی بھوک ننگ
غربت و بیروزگاری کو ختم کرنے اور اس کی جگہ یونیورسٹیاں بنانے اور ایسے
سکالر اور سائنسدان پیدا کرنے پر خرچ کرنا ہوں گے جو ہر میدان میں عالم
کفرکا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کھڑے ہوں اس کے ساتھ ساتھ اس بار بھی ہمیشہ
کی طرح یہ بات دیکھنے میں آئی کہ اسرائیل کی پشت پناہی کیلئے تو تمام عالمی
قوتیں کھڑی ہوگئیں لیکن مظلوم فلسطینیوں کی حمائت میں عالم اسلام
گونگا،بہرا اور اندھا ثابت ہوا اب یہ بات عالم اسلام کو سمجھ لینی چاہئے کہ
اُن کی بقا صرف اور صرف اتحاد میں ہے نہ کہ صرف اپنے گھر اور ملک کو محفوظ
جان کر اسی میں عافیت سمجھنے میں ۔اگر ہم نے اب بھی خودغرضانہ روش ترک کرتے
ہوئے امت کے اجتماعی مفادکو پیش نظر نہ رکھا تو وہ وقت دور نہیں جب ایک بار
پھر (خدانخواستہ) ایک ایک کرکے سب اسلامی ممالک میں بغداد و نینوا اور
غرناطہ طرزکی داستانیں دہرائی جائیں گی اور ہماری داستاں تک نہ ہوگی
داستانوں میں ۔ |