دہشت گردی کے اڈے یا امن کے گہوارے

پاکستان کے مدرسوں میں جدید تعلیم کا تو کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے او ر مذہبی تعلیم بھی ناکافی اور خطرناک بھی ہے ۔ خطرناک اس لیے کہ اب ان مدرسوں میں سے زیادہ تر میں دہشت گردی کی بھی تعلیم دی جارہی ہے اور کسی قسم کی چیکنگ کا نظام نہ ہونے اور سرکاری رٹ کی عدم موجودگی کے باعث یہ مدرسے مختلف فرقوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے علاوہ کوئی اور کام سر انجام نہیں دے رہے ہیں ۔ ان مدرسوں کا نظام بوسیدہ ہونے اور جدید تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے یہ مدرسے نیم حکیم خطرہ جان سے زیادہ خطرہ پاکستان بن چکے ہیں۔

درج بالا پیراگراف میرا نہیں بلکہ 20-11-2012کے روزنامہ جنگ میں محترم جناب ڈاکٹر فرقان حمید صاحب نے ”مدرسے سے مسندِ وزارت ِ عظمیٰ تک“کے عنوان سے ایک کالم میںیہ انکشافات کیے۔محترم ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مدرسوں میں جدید تعلیم کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ تو ڈاکٹر صاحب کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے مودبانہ عرض ہے کہ وہ ٹائم نکالیں تاکہ بندہ انہیں بیسیوں مدارس کا وزٹ کروائے جن میں عصرِ حاضر کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر جدید تعلیم دی جارہی ہے ۔مثلاً کمپیوٹر کی تعلیم ، سائنسی تعلیم ، عصری تعلیم ، نظام معیشت کی تعلیم ، انگریزی کی تعلیم ، ایم بی اے ، بی بی اے وغیرہ تک کی تعلیم دینی مدارس میں دی جارہی ہے۔

دوسری بات محترم ڈاکٹر صاحب نے یہ کہی کہ مدارس میں جو مذہبی تعلیم دی جارہی ہے وہ ناکافی بھی ہے اور خطرناک بھی ہے۔مذہبی تعلیم کے ناکافی ہونے کی انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ کس طرح ناکافی ہے؟ چلو اگر مان بھی لیا جائے کہ مدارس میں مذہبی تعلیم ناکافی دی جارہی ہے تو ڈاکٹر صاحب پھر آپ ہی کوئی مفید مشورہ دیں کہ مذہب کی کافی تعلیم کون سے اسکول ، کالج یا یونیورسٹی میں دی جاتی ہے تاکہ پھر مدارس کے فارغ التحصیل علماءکرام کو وہاں سند ِ تکمیل کے لیے بھیجا جائے؟

ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ مدارس کی تعلیم خطرناک اس وجہ سے ہے کہ زیادہ تر مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میں ان تمام مدارس میں جانے کے لیے تیار ہوں جہاں دہشت گردی کی تعلیم دی جارہی ہے تاکہ ہمارے علم میں بھی اضافہ ہواور اس پر ہم بھی کچھ لکھ سکیں۔ ہاں اگر ڈاکٹر صاحب دہشت گردی کی تعلیم سے قرآن کریم میں موجود آیات ِ جہاد لیتے ہیں یا جہاد سے متعلق احادیثِ مبارکہ لیتے ہیں تو پھر ڈاکٹر صاحب ہی بتائیں کہ مدارس والے ان آیات جہاد کو کہاں لے جائیں؟ کوئی اسلام کا پانچواں رُکن پوچھے تو اسے کیا جواب دیں ؟ ملعون مرزا قادیانی کو بھی یہی ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ جہادی آیات کو منسوخ قرار دیں ، اسے دہشت گردی سے تعبیر کریں ۔ یا پھر آپ کے خیال میں اہل ِ مدارس آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مرزا قادیانی ملعون کی سوچ پر عمل کرکے آیاتِ جہاد کو خارج از نصاب کردیں۔

اسرائیل کی جارہیت دہشت گردی نہیں ، روزانہ بے گناہ معصوم فلسطینی بچوں کو خاک و خون میں نہلا نا دہشت گردی نہیں، امریکا کے ڈرون حملے دہشت گردی نہیں ، شہر کراچی میں خون کی ہولی کھیلنا دہشت گردی نہیں ، مدرسہ احسن العلوم اورجامعہ دراسات کے پانچ معصوم طلبہ کو دن کے اجالے میں شہید کرنا دہشت گردی نہیں!ہاں دہشت گردی صرف اور صرف آیات جہاد اور احادیث جہاد میں ہی منحصر ہے ۔ کون سے مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے ؟ ملک کی معروف دینی درسگاہ جامعہ دار العلوم کراچی پر چھاپہ ،جامعہ اشرف المدارس پر چھاپہ مار کاروائی ، احسن العلوم کا سانحہ ۔ ان تمام کاروائیوں کے باوجود اہل مدارس کی جانب سے کوئی اشتعال انگیز ردِ عمل سامنے آیا؟ سڑک پر کسی کی گاڑی جلائی گئی ؟ کسی نجی یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا؟ نہیں نہیں اور ہرگز نہیں۔ لیکن پھر بھی اہل مدارس دہشت گرد ہیں !امریکہ ، اسرائیل اور ان کے اتحادی امن پسند؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی!

محترم ڈاکٹر صاحب نے مزید لکھا ہے کہ مدارس میں چیکنگ کا کوئی نظام نہیں۔ میرا ڈاکٹر صاحب سے سوال ہے کہ جامعہ دار العلوم کراچی اور اشرف المدارس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چھاپہ مار کاروائیوں میں کتنے کلاشنکوف برآمد ہوئے؟ کتنے دستی بم برآمدہوئے ؟ کتنے خود کش جیکٹ برآمد ہوئے؟ کتنا تخریبی مواد برآمد ہوا؟ کتنے مہلک ہتھیار برآمد ہوئے؟ سوائے عمامے ، ٹوپی ، تسبیح ، عطر کی شیشی اور مسواک کے! اگر چیکنگ کا نظام نہ ہوتا تومحترم کوئی ایک نہ ایک ہتھ گولہ تو برآمد ہوجاتا! کوئی ایک خود کش جیکٹ تو برآمد ہوجاتی! پتہ نہیں کیوں اہل مدارس دہشت گرد بھی ہیں اور ان میں دہشت گردی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے؟ تعجب امریکہ اور ان کے اتحادیوں پر نہیں آپ جیسے تعلیم یافتہ اور صاحب قلم لوگوں پر ہے۔

محترم موصوف نے مزید لکھا ہے کہ مدارس کا نظام بوسیدہ اور جدید تعلیم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے یہ مدرسے نیم حکیم خطرہ جان سے زیادہ خطرہ پاکستان بن چکے ہیں۔ یہ اعتراض تو کسی حد تک درست ہے کیونکہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی اہل مدارس کانظام وہی نظام مصطفوی ہے ، ان کا قرآن وہی ساڑھے چودہ سوسال پرانا ہے ، ان کا قبلہ وہی کعبہ ہے ۔ نہ تو ان کا نطام بدلا نہ ہی قرآن اور نہ ہی قبلہ کیونکہ لارڈ میکالے کے لائے ہوئے تعلیمی نظام کو انہوں نے نہ کل تسلیم کیا تھا اور نہ آج تسلیم کرنے پر رضامند ہے۔ چاہے ان کے خلاف جتنے پروپیگنڈے کر لیے جائیں ، نبی کے شعار داڑھی اور پگڑی کو چاہیے جتنا بدنام کردیا جائے ، چاہیے انہیں دہشت گرد کہا جائے ، شدت پسند کہا جائے ، تخریب کار کہا جائے۔ لیکن وہ کسی صورت اس بوسیدہ نظام کو چھوڑنے پر تیار نہیں! اور محترم موصوف کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کی بنیادوں میں بھی انہیں مدارس کے فارغ التحصیل علماءکا خون شامل ہے اور گاہے بگاہے وہ اپنے خون سے اس پاک وطن کی آبیاری کرتے رہتے ہیں اور وہ اسی کو اپنا فرض اور قرض سمجھتے ہیں۔

آخر میں ڈاکٹر صاحب سے مودبانہ التماس ہے کہ ذراتعصب کی عینک اتار کر ، میڈیا کے یکطرفہ ڈنڈوروں کو پس پشت ڈال کر ، شدت پسند اور تخریب کاری کے لیبلوں کو ایک کونے میں رکھ کر ،ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اعتدال کی آنکھ سے دیکھیے اور منصفانہ دل و دماغ کے ساتھ سوچیے!مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں یا امن کے گہوارے؟
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 20207 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.