اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
کہ جناب شہباز شریف صاحب دیوانگی کی حد تک عوامی فلاحی کاموں میں دل چسپی
رکھتے ہیں۔ جب کوئی ان سے کسی بھی تعلیمی یا فلاحی کاموں کے بارے نشاندہی
کردے تو بس وہ فورا اسے نہائت مخلصانہ مشورہ سمجھ کر عمل درآمد کا حکم
فرمادیتے ہیں۔ ان کے نزدیک بولنا کم کام زیادہ کی پالیسی چلتی ہے۔ وہ خود
خلوص نیت سے کام کرتے ہیں اور مشیروں کے مشوروں کے بارے انہیں تسلی ہوتی ہے
کہ وہ بھی مخلصانہ مشورے دیتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے ملک کے جی حضوریئے خوف خدا
اور پاس رسول رکھتے کہ کسی نیک اور مخلص انسان کو دھوکا نہ دیتے اور پرخلوص
مشورے دیتے۔
جناب شہباز شریف صاحب کے پیش رو جناب پرویز الہی صاحب نے لکھا پڑھا پنجاب
بنانے کی کوشش کی ۔ احباب نے سرکاری سکولوں میں زیرتعلیم طلبا و طالبات کو
مفت کتب دینے کا منصوبہ بنایا ۔ چوہدری صاحب نے نادانستہ یا دانستہ اس
منصوبہ کی منظوری دے کر کئی اپنوں کو راتوں رات کروڑوں پتی بنادیا۔ خاص
لوگوں کو کتب کی اشاعت کا کام دیاگیا۔ کتنی کتابیں شائع ہوئیں اور کتنی
تعداد کی رقوم وصول کی گئیں۔ کتنے بچوں میں یہ کتب تقسیم ہوئیں؟ کتنے بچے
محروم رہے اور انہوں نے بازار سے کتب خریدیں۔ بچے کتابیںضائع بھی کرتے ہیں
لیکن دوبارہ مفت کتب نہیں ملتیں۔ اس میں سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اسی صوبہ کے
وہ بچے جو سرکاری تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں میں
فیسیں ادا کرکے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں انہیں یکسر نظر انداز کیا گیا۔
جناب خادم اعلی شہباز شریف صاحب نے بھی پرویزالہی صاحب کی سنت پر عمل جاری
رکھتے ہوئے۔ سرکاری سکولوں کے بچوں کو مفت کتابیں دینے کی رسم جاری رکھی۔
انہیں مشیروں نے مشورہ دیا کہ نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچے امیروں
کے بچے ہیں۔ انہیں کتب مفت نہ دی جائیں۔ اس میں شبہ نہیں اس ملک میں جہاں
دیگر شعبوں میں عوام کے ساتھ ناانصافیاں ہورہی ہیں اور طبقاتی نظام تعلیم
جاری و ساری ہے۔ ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں کم از کم تین ہزارماہوار فیس
ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔ ایسے بھی سکول ہیں جہاں بوقت داخلہ ایک ایک
لاکھ روپیہ لیا جاتا ہے۔ اور یہ زبردستی نہیں لیا جاتا بلکہ زبردستی دیا
جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ زیادہ
مہنگے سکولوں میں بچوں کو پڑھانا اپنی شان کے لائق تصور کرتے ہیں ۔ نرسری
یا پلے گروپ کے بچے کے ماہانہ تعلیمی اخراجات ہزاروں میں اور اسے لانے
لےجانے کے لیئے ایک قیمتی کار امارت کی نشانی ہے۔
جہاں یہ سب کچھ ہے وہا ں ایسے بچوں کی اکثریت ہے کہ جنکے پاس اتنے پیسے
نہیں کہ ڈھنگ کی سکول یونیفارم پہن سکیں، جیب خرچ کے لیئے بھی اکثر تہی دست
ہیں۔ بچوں کی ضرورت کے مطابق سرکاری تعلیمی ادارے آٹے میں نمک کی حیثیت
رکھتے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت کا وجود حکومت کی عدم فراہمی روز
گار کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہی کیا کم غنیمت ہے کہ چوبیس گھنٹے کے ملازم ہیں ۔
سکولوں کی ساکھ قائم رکھنے کے لیئے بے انتہامحنت کرتے ہیں۔ اکثر سکولوں کی
فیسیں اوسطا پانچ صد روپے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں مزدوروں ،کم آمدنی
والوں یا متوسط طبقہ کے لوگوں کے بچے زیر تعلیم ہیں۔ سرکاری سکولوں کی نسبت
نجی تعلیمی ادارے زیادہ بہتر نتائج دکھاتے ہیں اور اکثر بورڈز کے پوزیشن
ہولڈرز ایسے ہی سکولوں کے بچے ہوتے ہیں۔ جبکہ شاہانہ اور امیرانہ شان والوں
کے نتائج ان سے کم ہوتے ہیں۔ذہین اور قابل بچے غریبوں کے ہا ں ہی اللہ
بھیجتا ہے۔لیکن دولت کی طاقت ہمارے ملک میں اللہ دین کے چراغ سے بڑھ کر ہے۔
رقم لگاﺅ جو ڈگری چاہوحاصل کرلو۔ داخلہ لے لو، فیس جمع کراتے رہو مدت مقررہ
پر وکیل ،ڈاکٹر یا انجینئیر کی سند حاصل کرلو۔ خیر تو بات تو غریب بچوں کی
ہورہی ہے کہ ملک بھر میں انکی اکثریت ہے۔ رزق تو اللہ کی تقسیم ہے مگر
حکمرانوں کا وجود عدل کرنا اور تمام لوگوں کو ایک جیسی سہولتیں فراہم کرنے
کے لیئے ہے اگر اس میں وہ تفریق کریں گے تو وہ ظالم کہلائیں گے۔جناب خادم
اعلی نے اپنے صوبے کے بچوں کی بڑی تعداد کو مفت کتب سے محروم کردیا۔ یہ بچے
بھی اتنے ہی مستحق ہیں جتنے کہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے۔ فرق صرف یہ
کہ ان بدقسمت بچوں کو سرکاری سکوں میں داخلہ نہ مل سکا یا انکے علاقوں میں
حکومت کو سکول کھولنے کی توفیق ہی نہ ہوئی۔ صوبے کے مکین ہونے اور صوبے کی
تعمیر و ترقی میں سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین اور نجی
تعلیمی اداروں کے بچوں کے والدین برابر کے شریک ہیں۔ لھذا حکومتی مراعات
میں خادم اعلی سب کو ایک نگاہ سے دیکھیں۔
خادم اعلٰی کو بدخواہ مشیروں نے ایک اور انتہائی ظالمانہ مشورہ دیا جس کے
تحت صوبہ پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈوں کو حکم دیا گیا کہ سرکاری تعلیمی
اداروں سے نویں اور دسویں جماعت کی رجسٹریشن اور امتحانی داخلہ فیس نہ لی
جائے۔ سو اس طرح یہ بہت بڑا ظالمانہ فیصلہ ہوا کہ نجی تعلیمی ادارے خواہ وہ
بورڈوں سے الحاق شدہ ہیں یا نہیں ۔ بشمول پرائیویٹ امتحان دینے والے بچے
بورڈوں کو رجسٹریشن فیس اور امتحانی داخلہ فیس اداکریں گے۔ غالبا جناب خادم
اعلی صاحب کے علم میں یہ بات نہیں لائی گئی کہ تعلیمی بورڈ کلی طور پر
سرکاری ادارے نہیں۔ یہ خود مختار ادارے ہیں۔ حکومتتی بجٹ سے ان کو ایک پیسہ
بھی نہیں ملتا بلکہ وقتا فوقتا صوبائی محکمہ تعلیم بورڈوں سے رقم لیتا رہتا
ہے۔ تعلیمی بورڈوں کے مالی وسائل صرف اور صرف امیدواران امتحانات ہیں کہ جن
سے لیگئی فیسوں سے بورڈوں کے ملازمین کی تنخواہیں ، دیگر الاﺅنسز، عمارتوں
کے کرائے، عمارتوں کی تعمیر امیدواران امتحانات کے امتحانی اخراجات ،
بورڈوں کے اجلاسات کے اخراجات، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی، گاڑیوں
کی خریداری اور ان پر اٹھنے والے جملہ اخراجات و دیگر متعدد اخراجات پورے
ہوتے ہیں۔ جب خادم اعلی نے سرکاری سکولوں کے بچوں کو فیسوں سے مستثنی قرار
دیا تو بورڈ وں کی آمدنی انکے اخراجات کے لیئے ناکافی ہوئی جس پر تمام
بورڈوں میں احتجاج ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس نے انکی خوب دھنائی کی اور
جیل میں ڈالا۔ جب کسی سیانے نے بورڈوں کو مشورہ دیا کہ تم خواہ مخواہ پرائی
آگ میں کود پڑے ۔ بچے عوام کے ، فیس عوام نے دینی ہے اگر اخراجات پورے نہیں
ہوتے تو تم فیسیں بڑھا کر پرائیویٹ اور نجی تعلیمی اداروں کے طلبا سے اپنا
بجٹ پورا کرو۔ بس انہوں نے فورا فیسیوں اور دیگر اخراجات میں اس قدر اضافہ
کیا کہ اب غریب آدمی بچوں کو میٹرک کرانے سے بھی معذور ہے۔ جن شہروں میں
چھاﺅنیاں ہیں وہاں کے لوگوں نے اپنے بچوں کو فیڈرل بورڈ سے امتحانات دلانا
شروع کردیئے کیونکہ فیڈرل بورڈ کی فیسیں مساویانہ ہیں سرکاری اور پرائیویٹ
کی کوئی تمیز نہیں ۔ وہاں سبھی کو پاکستانی بچے سمجھا جاتا ہے۔ سوتیلے اور
سگے کی کوئی تمیز نہیں۔ پھر طرہ یہ کہ فیڈرل بورڈ کی فیسیں پنجاب بورڈوں کی
نسبت آدھے سے بھی کم ہیں۔ ۔ تو جنا ب ایسی عمدہ پالیسیوں کے نتیجہ میں آپکے
تعلیمی منصوبے تو دھرے کے دھرے رہ گئے۔ دوسری طرف طبقاتی نظام تعلیم جاری
ہے کہ پہلے ڈویژنل پبلک سکول بنائے گئے ، پھر دانش نام سے سکول بنائے گئے۔
جناب یہ کیسی خدمت ہے؟ صوبے میں ایک جیسا نظام تعلیم نہیں چل سکتا؟ خداکے
لیئے عوام پر رحم کریں۔ اگر خادم اعلی صاحب اتنے ہی مہربان ہیں تو سرکاری
سکولوں کے بچوں کی فیسیں بورڈوں کو خود ادا کریں۔ غریبوں کے بچوں پر زیادہ
فیس کا جرمانہ عائد نہ کریں کیونکہ یہ سراسر ناانصافی ہے اگر کوئی جناب
منصف اعلی (چیف جسٹس )کے پاس چلا گیا تو انہوں نے خادم اعلی کو نہیں دیکھنا
اور نہ انکے مشیروں کو دیکھنا ہے۔ پھر انصاف ہوگا۔لھذا میری گذارش ہے کہ
صوبے کے تمام بچوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔مجھے یہ بھی امید ہے کہ
میری گذارشات کی روشنی میں جناب خادم اعلی ایسے مشیروں کو کان پکڑباہر
نکالیں گے اور اپنے تمام صوبائی بچوں پر یکساں شفقت فرمائیں گے۔۔ |