عورت اور چار دیواری

اسلام نے عورت کیلئے جوپردے کی بات کی ہے وہ یہ نہیں کہ عورت جانوروں کی طرح زندگی بسرکرے بلکہ ان کے حقوق متعین کئے گئے ہیں اوراسلام نے مردوںپربھی کچھ پابندیاں عائدکی ہیں کہ بے حیائی اورفحاشی کے کاموںسے بچتے رہیںتویہ نہیں کہ عورت پردے میں رہ کرجانوروں کیطرح زندگی بسرکریں لیکن عورت کوبھی اسلامی حدودمیںرہ کرکائنات ٹٹولنے کاحق ہے کیونکہ خدانے مردوعورت پرعلم یکساں فرض کیاہے اورپھٹانوںنے پردے سے جومطلب اخذکیاہے وہ قطعی اسلام کے اصولوں کے مطابق نہیں کیونکہ اسلام نے خواتین پر کچھ پابندیاں عائدکی ہیںلیکن عورتوں کے حقوق بھی متعین کئے ہیں اور پٹھان نہ کبھی خواتین کے حقوق دیتے ہیںنہ ان کوجائزمقام دیتے ہیںبس پٹھانوںمیںخواتین کامقام جانوروںجیساہے جواس سے سخت مشقت لیتے ہیں اورعورتوں کواپنی مرضی سے زندگی گزارنے کاکوئی حق نہیںدیتاکیونکہ پٹھان خواتین کی زندگی پرجب نظرڈالی جائے توہرموقع پرایک نئے امتحان سے گزرنا پڑتاہے کیونکہ کبھی بیٹی ہوتی ہے کبھی بیوی اورکبھی ماں جب بیٹی ہوتی ہے توخدانے بیٹی کورحمت سے تشبیہ دی ہے لیکن پھٹانوںمیں بیٹی ایک حقیرشے سمجھی جاتی ہے جن کونہ تعلیم کاحق حاصل ہے نہ وراثت کااورنہ اپنی مرضی سے رشتہ کرنے کااورجب بیوی کے روپ میں اجنبی گھرجاتی ہے تووہاںبھی ان کوجائزمقام نہیں ملتابس ایک نوکرانی سمجھ کران سے سخت مشقت لیاجاتاہے اورجب بھی اس سے کوئی کوتاہی ہوتی ہے توبس شوہر کا طعنہ ہوتاہے کہ جاو میرے گھر سے کیونکہ عورت کا اپنا گھر نہیں ہوتا ہے یا اس کے باپ کا گھر ہوتاہے یااسکے شوہرکاکیونکہ خدانے عورت کووہ مقام دی ہے جتنے کائنات میںرنگ بھردئے ہیں اورجب عورت ایک ماں کا روپ دھار لیتی ہے تواسکے خاوندکامال بیٹوںمیں تقسیم ہوتاہے اوریہی بے چاری ماں پھر بیٹوں کی محتاج ہوجاتی ہے اوربیٹوں کے رحم وکرم پررہ جاتی ہے اگربیٹوںمیں سے کوئی ایک انسانیت سوز یاخداترس بیٹاہوتوتھوڑابہت خیال رکھاجاتاہے اورپیٹ بھرنے کاکام چل جاتاہے ورنہ یہ حق بھی صحیح طریقے سے ادانہیں ہوتاکیونکہ کھانے پینے کے علاوہ بھی تو بہت سی ضروریات ہوتی ہیں اسلئے وہ ماں کے روپ میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہے حدیث شریف میں ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے کیونکہ پھٹان لوگ خواتین کے حقوق کے بارے میں اسلام کے ایک حکم پربھی عمل نہیں کرتے اس سے ثابت ہوتاہے کہ پھٹان معاشرے میں عورت کاکوئی مقام نہیں بلکہ پیدائش سے پہلے ہی لو گ بیٹی سے امان مانگتے ہیں اورجس گھرمیںلڑکی جنم لیتی ہے تواُف اللہ ہوتاہے کیونکہ خدانے بیٹی کورحمت سے تشبیہ دی ہے لیکن پھٹانوں کی بیٹی جب پانچ سال کی ہوجاتی ہے تواس کیلئے تعلیم پرکوئی توجہ نہیں د ی جاتی کیونکہ پھٹانوںمیں لڑکیوں کیلئے تعلیم ضروری نہیںسمجھاجاتاہے اورجب تیرہ سال کی ہوجاتی ہے تویہ عمر کا ایسا حصہ ہوتاہے کہ جس میںبچے کوکائنات کے طریقہ کارسمجھانے کاوقت شروع ہوجاتاہے لیکن اس کے برعکس پٹھان لڑکی پرپردہ لازم کرکے گھرسے باہرجانے نہیںدیاجاتاتواسی وقت سے مشکل زندگی شروع ہوجاتی ہے لہذا تعلیم سے بھی محروم رکھاجاتاہے اورپھرباہرکی دنیایعنی کائنات کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں چونکہ اسی عمر میں کائنات کے دروازے کھولنے چاہئیے اورجب تیرہ سال سے عمربڑھتاجاتاہے تورشتے کی باتیںشروع ہوجاتی ہیں اوران کواپنی مرضی سے رشتہ کرنے کاحق حاصل نہیںہوتاتوجب اسکارشتہ کیاجاتاہے تودوسرے گھرکے جانے سے پہلے ان کیلئے پیچیدگیاںشروع ہوجاتی ہیں کیونکہ جہیز میں کمی ان کیلئے مصیبت بن جاتاہے اورباپ کے جائیداد میں حصہ نہیںملتاہے تو(والدکے گھرمیں کوئی مقام نہیں ہوتا ہے اورشوہرکاگھربھی وبال جان بن جاتاہے )توپٹھان لڑکی کی زندگی ازل سے لیکرابدتک پیچیدہ بن جاتی ہے جس کاتاریخ میں اورمثال نہیں ملتاہے لیکن صرف ایک مثال کہ اہل عرب اسلام سے پہلے بیٹیوں کو زندہ درگورکرتے تھے اورپختون لوگ زندگی میں لڑکی کوزندہ لاش بناتی ہے کیونکہ باپ کے جائیدادمیں وراثت نہیںملتی اورخاوندکے گھرمیںبھی عورت کواصل مقام نہیںدیاجاتاچونکہ پختون لوگ ان کافروں سے اعمال میں زیادہ برے ہیں کیونکہ عرب جاہلیت کے زمانے میں یہ کام کرتے تھے اورپختون لوگ عہد حاضر میں یہ ناجائزکام کرتے ہیں اب چونکہ ہرطرف دین کی روشنی پھیلی ہوئی ہے اورکوئی نبی نہیں آئیگاکہ پھٹانوں کوالگ پیغام دیں اور پختونوں کو بتائیں کہ عورت کامقام کیاہے ؟لیکن خداکے رسول ہی آخری نبی ہیں اور آپ نے خواتین کے سارے حقوق بتادیئے ہیں قیامت تک یہی احکامات چلتے رہینگے اور پختونوں کیلئے حکم کی بجائے خداکے رسول کے اعمال کاثبوت بھی سامنے ہے کیونکہ خداکے رسول نے اپنے اعمال پاک سے ثابت کیاہے کہ عورت کامقام کیاہے ،خداکے رسول نے 25 سال عین جوانی کی عمرمیں ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ بی بی سے نکاح کرکے یہ ثابت کیاتھاکہ چالیس سال کی عمرکی خاتون بھی معاشرے میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے اورنبی پاک نے ان کی زندگی میںدوسری شادی نہیں کی تھی اورآپ ؓکے انتقال کے بعد اور بیبیوںسے نکاح کرکے سب بیویوں کویکساںحقوق دیئے جب پھٹان دوسری شادی کرتے ہیںیاتوپہلی بیوی بچوں کوذلیل وخوارکرتے ہیں اوریاپہلی بیوی کے ڈرسے دوسری بیوی کی زندگی تباہ کرتا ہے اورطلاق توپھٹانوںمیں ایسی شرم سمجھی جاتی ہے جیساکہ پھٹان لوگ دیگراقوام کے سامنے ایک ذلیل قوم سمجھاجاتاہے ۔خدانے حکم دیاہے کہ اگرمیاںبیوی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کے سفرپرنہیںجاسکتے ہوتوطلاق ہی مناسب راستہ ہے اورخداکے رسول کی والدہ ماجدہ (بی بی آمنہ )توآپ کی بچپن میں ہی وفات پاگئی تھیں لیکن آپ ان سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے اوربے حدعزت واحترام سے پیش آتے تھے جب حلیمہ بی بی نبی کے ملاقات کرنے آجاتی توآپ احتراماََاپنی چادربچاکراپنی ماں کواس پربیٹھنے کیلئے فرماتے اوراپنی بہن حلیمہ بی بی کی بیٹی سے بھی بہت پیارفرماتے اوراسکے بے پناہ محبت کابدلہ چکاتے اورخداکے رسول اپنی بیٹی حضرت فاطمہ بی بی ؓ سے اتنامحبت کرتے کہ دنیامیں ایک مثال رہ گیاہے اوراسی طرح اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓکے اولادحضرت حسن ؓ اورحضرت حسین ؓ سے بھی بے پناہ محبت کرتے تھے لیکن اس کے برعکس پختون معاشرے میں عورت کاکوئی مقام نہیں اوراسلام کے پردے سے پھٹانوں نے یہ مطلب اخذکیاہے کہ عورت کاحق سلب کیاجائے کیونکہ پھٹان اسلام کے رموزسے واقف نہیں اگرپھٹان لوگ اسلامی اصولوں کے مطابق عورت کوپردے میںرکھناچاہتے ہیں تواسلام کے وہ اصول بھی نہیںبھولناچاہئے جوخدانے مردوعورت پرعلم یکساںفرض کیاہے اوروراثت میں دوبیٹیوں کے ایک بیٹے جیساحصہ مقررکی ہے اورحدیث شریف ہے کہ مردوعورت کااتناحق ہے جتناکہ عورت پرمردکاہے ۔
زہ بہ ستا تیارہ دزڑہ دشتونہ منور کڑ مہ
اے پختنے پیغلے زہ بہ تا باندے اختر کڑمہ
ختم تسلسل بہ دے دشپو او د تیارو کڑمہ
ہم بہ ماخا م تاباندے روخانہ او سحر کڑمہ
زہ بہ د ی د ظلم او تیارو کو سے ویجاڑے کڑم
زہ بہ دی دشمن پہ لوری غشے برابر کڑمہ
زہ بہ دِ ظلمونہ اور ذیاتی ہر چاتہ وڑا ندِ کڑم
زہ بہ د عالم منصف خانے پہ تا خبر کڑمہ
نو ر بہ رانہ اونہ کڑی زیاتے دمر دانگی پہ نو م
زیات بہ دِ وختو نہ دظلمونو مختصر کڑمہ
زہ بہ دِ پختون نہ حق د حق پہ دے قلم اخلم
زہ بہ وراثت کے دِ شاملہ پہ خپل سر کڑمہ
زہ بہ دے آزاد کڑ مہ پختون نہ اسیرئی جو ندون
زہ بہ ہر تر بور او ھر دشمن دِ درپہ درکڑمہ
زہ بہ بے غیرتہ ہردشمن ستا د خپو خاورے کڑم
نہ منی چہ تا سوک زہ بہ خاورے ئے پہ سر کڑ مہ
زہ بہ شکستہ زڑہ دِ خو شحالہ پہ تد بیر کڑمہ
زہ بہ د دنیا دھر منصف پہ تا نظر کڑ مہ
زہ بہ دِ دنن شکستہ حال پہ تندکونوں کڑ م
زہ بہ صبا ورزے لہ ستا خہ خکلے منظر کڑ مہ
زہ بہ ہر مشکل کے اے داستا ثابت قدمی کڑمہ
زہ بہ دنیا پیغلو کی تا ھر چانہ بہتر کڑ مہ
زہ بہ ناکامئی دِ سمندر کے بہ لاہو کڑ مہ
زہ بہ ہمیشہ ستا کا میابو پہ لور گزر کڑ مہ
زہ بہ دِ اڑان اے د شہباز او د شاہین کڑمہ
زہ بہ خہ لامبو درتہ ازدہ د سمندر کڑمہ
ہم بہ د شمار زہ دیا قوتو او مر جان کڑ مہ
ہم بہ دِ شمار پہ سمندر کے دگو ہر کڑ مہ
زہ بہ غرہ دسو کو ادا گانے پہ تا او شیندم
ہم بہ میدانونہ دِ مداح اے دہنر کڑمہ
ہم بہ ہر میدان دِ زہ د جیت خکلے مقام کڑ مہ
ہم بہ دِ وطن خکلی خو شبونہ معطر کڑمہ
اے خکلی غٹئی د پرانستو پہ وخت کے مڑاوی شے
ورک بہ درنہ زہ د پرانستو دغہ محشر کڑمہ
زہ بہ د سپر لی بادونہ ستا پہ لور آشنا کڑ مہ
دغہ شان تعلیم بہ دِ اعلیٰ زہ مقدرکڑمہ
زہ بہ دِچمن کے نایاب گل جاوِدانی کڑمہ
ہم بہ دِچمن رونق ، تاثیر ، ستا پہ اثر کڑمہ
زہ بہ دِسینہ اے دکتاب پہ ابو سیراب کڑمہ
زہ بہ دِ د علم رنڑ اگانے اے بشر کڑمہ
زہ بہ ستا د شنڈ و ونو بو ٹو تحقیقات وکڑ م
زہ بہ پہ کو شش تر ینہ پیدا کیمیا ثمر کڑ مہ
زہ بہ دِخائست د خپل وطن پہ نوم پہچان کڑمہ
زہ بہ دِ تعلیم داہلیت پہ مخ زیور کڑمہ
زہ بہ ستا سیرونہ د فضا او دخلاءکڑمہ
ستا د خپودلاند ِ ددنیا بہ زہ ہر در کڑمہ
ہم بہ دِد سوارلسو سپو گمئی زہ پہ آسمان کڑ مہ
ہم بہ دِ روخانہ تجلے زہ دنمر کڑمہ
زہ بہ منت خدائے تہ ستا د خکلی مستقبل کڑمہ
زہ بہ دعا دغہ ہم سحر ہم مازیگر کڑ مہ
Pakiza Yousuf Zai
About the Author: Pakiza Yousuf Zai Read More Articles by Pakiza Yousuf Zai: 21 Articles with 46177 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.