دہشتگردی سے نجات ، ہر شہری کو کردار ادا کرنا ہوگا

محرم الحرام میں راولپنڈی، کوئٹہ اور کراچی میں ایک ہی روز دہشت گردی کے واقعات اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ کوئی بہت منظم قوت پاکستان بھر میں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کی آگ جلا کر ہماری سلامتی کو خاکستر کرنے پر کاربند ہے۔ حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کے باوجود ایسے واقعات کا رونما ہوجانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نگرانی اور انٹیلی جنس میں ابھی بھی بہت سے سقم باقی ہیں جنہیں درست کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ڈھوک سیداں راولپنڈی کی امام بارگاہ میں ہونے والے خود کش دھماکے میں دودرجن سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔عینی شاہدین کے مطابق جلوس میں تعینات پولیس اور رضا کار اپنے فرائض پوری تندہی سے انجام دے رہے تھے اور ان کی نظریں ہر مشکوک شخص کو ٹٹول رہی تھیں۔ سیکورٹی اہلکاروں اور رضاکاروں کا ایک گروہ چند سو میٹر پہلے راستے کو کلیئر کررہا تھا اور دوسرے گروہ نے جلوس کو اپنے جلوہ میں لے رکھا تھا۔ پولیس اور رضاکاروں کے پہلے گروہ نے جو جلوس سے ذرا فاصلے پر تھا، دومشکوک افراد کو جلوس میں گھسنے سے روکنا چاہا تو ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس طرح اس دھماکے میں جہاں بہت سے عزادار جاں بحق ہوئے وہاں بہت سے سیکورٹی اہلکار اور رضا کار بھی دوران ڈیوٹی شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے ایسے واقعات پوری قوم کے لئے لمحہ فکریا ہیں۔ شدت پسندی اور دہشت گردی کے ان بڑھتے ہوئے واقعات کے سامنے کوئی چارہ گری نظر نہیں آرہی۔ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے کوششوں کے باوجود دہشت گردوں پر آہنی ہاتھ نہیں ڈال سکے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد آزادی سے اپنی مذموم کارروائیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان کے گلی محلوں کو خون سے رنگنے والے ان دہشت گردوں کے سرغنہ تو بیرونی عناصر ہوسکتے ہیں مگر ان کے مذموم مقاصد مقامی غداروں کے ذریعے ہی انجام پاتے ہیں۔ یہ مقامی دہشت گرد ہمارے ارد گرد بھی ہوسکتے ہیں لہٰذا اپنے ملک، شہریوں اور عزیزوں کو بچانے کے لئے ہم سب کو اپنی نظریں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اجنبی افراد اور ان کی حرکات وسکنات کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔

دہشت گرد گروپ اور تنظیمیں ایک منظم طریقے سے ہمارے نوجوانوں کو ورغلا کر ان کی برین واشنگ کرتے ہیں اور پھر انہیں مذہب یا محرومی کے نام پر خودکش حملہ کی ترغیب دیتے ہیں ۔ ان نوجوانوں کو جنت یا بدلے کا یقین دلانے کے بعد مختلف شہروں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ پہلے سے موجود اپنے نیٹ ورک کی ہدایت پرخود کش حملہ کرتے ہیں۔ یہ دہشت گرد اکثر کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہوکر دہشت گردی کا نیٹ ورک چلاتے ہیں جہاں ایک بم فیکٹری کے علاوہ ایک دوسرے سے رابطے کا نظام بھی موجود ہوتا ہے۔ اگر ہماری عوام بیدار ہوکر اپنے ارد گرد کے ماحول اور مشکوک افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھے تو بڑی حد تک دہشت گردی کی وارداتوں سے بچا جاسکتا ہے۔ایسی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ اردگرد کے افراد کو دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع تھی مگر انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کے متعلق آگاہ نہ کیا۔ بعد میں جب دہشت گرد اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوجاتے تو پھر مقامی افراد کی جانب سے کف افسوس ملنے کی بہت سی خبریں منظر عام پر آتی ہیں۔ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے دہشت گرد جس علاقے میں موجود تھے، وہاں کے افراد ان کی مشکوک حرکتوں سے آگاہ تھے مگر کسی نے پولیس کو خبردار کرنے کی زحمت نہ کی۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں میاں چنوں کے نواحی علاقے میں ایک مدرسے میں دھماکہ ہوگیا جس سے 17افراد ہلاک ہوئے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ وہ جانتے تھے کہ مدرسہ کا استاد گھر میں بم چھپاتا ہے۔ مگر وہ اس بات کو چھپاتے رہے جس کا نتیجہ گاﺅں کی بربادی کی صورت میں نکلا۔ کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مقامی افراد نے مشکوک افراد پر کڑی نظر رکھی اور بروقت پولیس کو آگاہ کرکے دہشت گردی کے نیٹ ورک اور بم بنانے والی فیکٹری کو پکڑ لیا۔

یاد رکھیں، کوئی بھی دہشت گرد جب اپنی مذموم کارروائی کو عملی جامہ پہنانے کی پیش بندی کررہا ہوتا ہے تو اس کی حرکات و سکنات سے اس کے اصل چہرے سے پردہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اگر مشکوک افراد پر نظر رکھنے کے حوالے سے عوامی شعور بیدار کیا جائے تو دہشت گرد وں کو ان کے مذموم عزائم سے قبل ہی پکڑ کر کسی بھی بڑی تباہی سے بچا جاسکتا ہے۔دہشت گرد دھماکا خیز مواد تیار کرنے کے لئے روزمرہ اشیاءاور کیمیکلز استعمال کرتے ہیں۔ مختلف اشیاءکے مرکبات کے اجزاءکوعلیحدہ کرکے انہیں دھماکہ خیز مواد کی تیاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اگر کوئی فرد ایسی چیزوں میں دلچسپی لے تو سمجھ لیجئے اس کے عزائم خطرناک ہوسکتے ہیں۔ دھماکہ خیز مواد اور آمیزے کی تیاری اکثر کرائے کے گھروں، ہوٹل کے کمروں میں کی جاتی ہے۔ جہاں وہ عام اشیائے ضروریہ سے خطرناک دھماکہ خیز مواد تیار کرتے ہیں۔ نیل پالش، ہیئر بلیچ، بیوٹی ڈرگ کی شکل میں عام سٹور سے مل سکتا ہے۔ کھادبھی اس غرض سے بڑے پیمانے پر استعمال کی جاسکتی ہے۔ تاہم ان اشیاءکی دہشت گردوں کو بھاری مقدار میں ضرورت ہوتی ہے لہٰذا سٹور مالکان ، عام لوگوں، ہوٹل سٹاف اور ہمسایوں کو ایسے کسی بھی شخص کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے جو ان اشیاءکو بھاری تعداد میں خرید رہا ہو۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان کے قریب دہشت گرد گروپ نے ایک بم فیکٹری بنا رکھی ہو۔ اسی طرح کوئی شخص کیمکلز، کیل، بیرنگ، ماسک، دستانے وغیرہ خرید کرکرائے کے گھر ، ہوٹل یا کمرے میں لائے تو اس پر کڑی نظر رکھی جائے۔ موبائل فون یا کلائی گھڑیاں بظاہر خطرناک نہیں مگر ان کے اندر کئی اشیاءبھی خطرناک بم بنانے میں مدد دے سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص غیر معمولی اشیاءجن کی عام طور پر گھر میں ضرورت نہیں ہوتی وہ بھی لائے تو سمجھ لیجئے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

کیمیائی ردعمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھویں یا خوشبو سے بھی دہشت گردوں کے مذموم ارادوں کو بھانپا جا سکتا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ ہمسایوں نے قریبی گھر سے نکلنے والے دھویں اور بدبو کی نوعیت سے دہشت گردوں کا سراغ لگا کر انہیں پکڑوانے میں مدد کی۔ اسی طرح سیوریج سسٹم کی نالیوں میں بہنے والے پانی یا کیمیکل سے بھی مشکوک سرگرمیوں کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ دہشت گرد منصوبے کے آخر میں مدعا غائب کرنے کے دوران ہر فالتو شے بہا دیتے ہیں یا جلا دیتے ہیں۔ لہٰذا اس قسم کی کارروائی پر بھی نظر رکھی جائے۔ دہشت گردوں کو پکڑنے کا ایک موقع ان کی جانب سے دھماکہ خیز مواد کی ٹیسٹنگ کے دوران بھی ہے۔ دہشت گرد جب بھی کوئی دھماکہ خیز مواد تیار کرتے ہیں، اس کا ٹیسٹ ضرور کرتے ہیں۔ چھوٹے موٹے ٹیسٹ تو گھر کے پچھواڑے میں کئے جاسکتے ہیں، مگر پیچیدہ یا خطرناک ٹیسٹ کو وہ کسی ویران جگہ یا پارک یا پلے گراﺅنڈ کے کسی غیر مصروف حصے میں جاکر کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ایسا کوئی دھماکہ آپ دیکھیں یا آواز سنیں تو اس کی اطلاع متعلقہ احکام کو ضرور دیں۔اس طرح اس دھماکے میں استعمال شدہ کیمیکلز سے اس کی نوعیت اور اغراض و مقاصد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح عوام کی جانب سے یہ چھوٹی سی اطلاع کسی بڑی دہشت گردی کی واردات ناکام بنا سکتی ہے۔ اگر ہم اسی طرح متحد ہوکر دہشت گردی کے خلاف پرعزم اور ثابت قدم رہے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کو اس عفریت سے پوری طرح نجات مل جائے گی اور پاکستان کو عدم تحفظ کا شکار کرنے کا خواب دیکھنے والے عناصر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تہہ خاک ہوجائیں گے۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 38996 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.