بات یہاں تک آ پہنچی ہے

شیدا بڑا دانشور بنتا تھا لیکن پچھلے سال اس کے ساتھ ایک ایسا ہاتھ ہوا کہ پورا سال اس نے منہ بسورتے گذارا۔وہ چکر باز تو نہیں لیکن چھوٹا موٹا فراڈ وہ جائز سمجھتا ہے۔اس نے اپنے بیٹے کو انگلینڈ بھیجنا تھا۔بھیجنا تو مزدوری کے لئے تھا لیکن اس کا خیال تھا کہ اسے سٹوڈنٹ ویزے پہ بھیج دے گا تو خرچہ بھی کم آئے گا اور اس کا" میدا" آسانی سے وہاں ٹک بھی جائے گا۔یوں تو شہر میں ہر تیسرا شخص لوگوں کو باہر بھیجنے کا ہی دھندا کرتا ہے لیکن شیدے کو کسی پہ اعتبار نہ تھا۔ہم مل کے کوئی صاحبِ اعتبار تلاش کرتے رہے۔آخر کار ہماری نظر ایک ایسے صاحب پہ جا کے ٹکی جو تازہ تازہ کرسیِ انصاف سے ریٹائر ہوئے تھے۔انہوں نے لوگوں کو باہر بھجوانے کا دفتر کھول لیا تھا اور جج ہونے کی وجہ سے ان کی شہرت بھی اچھی تھی۔میرا اور شیدے دونوں کا خیال تھا کہ جج صاحب ہماری اس عدلیہ کا حصہ رہے ہیں جس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدل و انصاف کی بلے بلے کرا دی ہے۔اس لئے ان پہ اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ہم نے میدے کے کاغذ اور آٹھ لاکھ روپیہ دونوں ان ریٹائر جج صاحب کے حوالے کر دئیے۔اس کے بعد پھر "تیری گلیوں کے پھیروں پہ پھیرے"جج صاحب نے ہمیں سیدھا سیدھا لاروں پہ رکھ لیا۔ایک جوڑا جوتا گھسائی کے بعد میں نے تو شیدے کے ساتھ جانا چھوڑ دیا لیکن شیدے کے لئے تو یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔اس کا "میدا"اور اس سے بھی زیادہ اس کا آٹھ لاکھ داﺅ پہ لگا تھا۔وہ جج صاحب کی متواتر منت اور ترلا کرتا رہا۔

جج صاحب نے شیدے کو لیکن پلو نہیں پکڑوا کے دیا۔ایک دن شیدا ان کے دفتر گیا تو ان کے ملازمین نے شیدے کو بہت زودکوب کیا اور وہ منہ سجائے سیدھا میرے پاس آیا۔اس نے پہلے تو انصاف کو پھر منصفوں کو وہ دعائیں دیں کہ لکھ دوں تو سیدھا اندر ہو جاﺅں ۔مجھے حکم ملا کہ اس پہ کالم لکھو اور اس جج کا نام بھی لکھو۔اگر میں اتنا ہی آئی جی ہوتا تو قلم گھسا رہا ہوتا۔تین چار اسی طرح کی پارٹیاں پکڑ کے عیش کی زندگی نہ گذارتا۔مں نے ڈر سے معذرت کر لی۔شیدا اس سیدھے جواب پہ آگ بگولا تو بہت ہوا لیکن میرے پاس تو سیاہی والا پن بھی نہیں کہ وہ توڑ دیتا میں تو سیدھا بال پوائنٹ سے لکھتا ہوں۔اس نے دانتوں تلے دبا کے وہ دو روپے کا بال پوائنٹ توڑا اور داڑھی پہ ہاتھ پھیرتا یہ کہہ کے چلا گیا کہ میں تمہیں بھی دیکھ لوں گا اور اس جج کو بھی۔اس کے بعد شیدے نے اس موضوع پہ میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔پہلے وہ میرے پاس اکیلا آتا تھا۔اب وہ اپنے پانچ سات دوستوں کے ساتھ آنے لگا۔میںغریب آدمی ہوں لیکن حتی المقدور شیدے اور اس کے دوستوں کی مدارت کرتا رہا۔

آج شیدا آیا تو اکیلا تھا۔میں چونکہ پچھلے ایک سال سے شیدے کے ساتھ اس کے دوستوں کا بھی عادی ہو گیا ہوں اس لئے اس چنڈال چوکڑی کا پوچھا تو کہنے لگا کہ آج میرا انتقام پورا ہو گیا اس لئے میں نے ان سب کو کہہ دیا ہے کہ وہ اب کہیں اور اپنے لنگر پانی کا بندوبست کریں۔آئندہ وہ آپ کی طرف نہیں آئیں گے۔میں نے پوچھا کس انتقام کی بات کر رہے ہو۔کہنے لگا وہ جج مید ے اور آٹھ لاکھ والا معاملہ یاد ہے۔میں نے کہا وہ تو میرے دل پہ داغ ہے کیسے بھول سکتا ہوں۔جواب آیا کہ پھر تمہیں یہ بھی یاد ہو گا کہ میں نے کہا تھا کہ میں تمہیں اور جج دونوں کو دیکھ لوں گا۔تمہیں میں نے یوں دیکھا کہ ہر روز میں پانچ سات بندوں کو عین کھانے کے وقت تمہارے ہاں لاتا تھا کہ تمہاری پہلے ہی سے پتلی معاشی حالت پہ کچھ اور بوجھ بڑھ سکے کہ اس سے زیادہ کی تمہاری اوقات ہی نہ تھی لیکن اس ریٹائر جج کے ساتھ میں نے وہ کی ہے کہ ساری زندگی یاد رکھے گا۔

پھر اس نے سارا قصہ تفصیل سے بتایا۔کہنے لگا جس دن تم نے بھی مری مدد کرنے سے انکار کیا۔میں اپنے گاﺅں کے ایک اشتہاری کے پاس گیا۔اس نے دو قتل کر رکھے تھے اور وہ مفرور تھا۔میں نے اسے سارا قصہ سنایا کہ کس طرح ایک ریٹائرڈ جج نے مجھے دن دھاڑے لوٹ لیا ہے۔مفرور کہنے لگا کہ تمہارے پاس اس کا موبائل نمبر ہے۔میں نے نمبر دیا اور ا س مفرور نے جج صاحب کو فون ملا کے ریڈیائی عدالت لگا لی۔اس مفرور نے جج صاحب سے پوچھا کہ شیدے کو جانتے ہو؟جج نے کہا! جانتا ہوں۔مفرور نے پوچھا کہ اس سے آٹھ لاکھ لیا ہے؟اس نے کہا ہاں لیا ہے۔مفرور نے پھر پوچھا۔واپس کب کرو گے تو جج صاحب نے کہا کہ اس کے بیٹے کو باہر بھجوانا تھا۔ابھی تک اس کا ویزا نہیں آیا جب آئے گا تو وہ باہر چلا جائے گا۔اس بات پہ مفرور کی عدالت برہم ہو گئی۔جج صاحب کو بتایا گیا کہ میں نے دو قتل پہلے ہی کیے ہوئے ہیں۔فلاں تھانے میں میرا کیس ہے اور میں سات سال سے مفرور ہوں۔پیسے اگر فلاں تاریخ تک شیدے کے گھر نہ پہنچے تو میں تمہیں نہیں تمہاری زوجہ کو اٹھا لاﺅں گا۔باقی تفصیل تم خود جج رہے ہو میرے بارے میں فلاں تھانے سے پتہ کر لینا۔

شیدے کی خوشی دیدنی تھی۔کہنے لگا آج جج صاحب خود آئے تھے۔انہوں نے میری منت بھی کی اور پیسے بھی لوٹائے اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کہ تیرے بیٹے کو میں بغیر پیسوں کے باہر بھجواﺅں گا۔پیسے بعد میں لے لوں گا۔ہاں یار ذرا اپنے دوست کو بتا دینا کہ میرا تمہارا معاملہ کلیئر ہو گیا ہے۔شیدا خوش ہے کہ ایک مفرور کی وجہ سے اس کی عمر بھر کی کمائی لٹتے لٹتے بچ گئی۔میں بہت اداس ہوں کہ جس ملک میں لوگ عدالتوں سے زیادہ مفروروں پہ اعتبار کرنے لگیں وہاں جنگل کا قانون نہیں ہو گا تو پھر کیا ہو گا۔عوام کو تو سستا اور فوری انصاف چاہئیے وہ عدالت سے ملے یا مفرور سے۔انہیں اس سے کوئی خاص غرض نہیں ہوتی لیکن اس کا بھی کیا کیا جائے کہ اس ملک میں حکمرانی ہی مفروروں کی ہے جو اوپر سے نیچے تک براجمان ہیں۔ایسے میں لوگ انصاف کے لئے مفروروں کے پاس نہ جائیں تو کہاں جائیں۔سوچتا ہوں میںبھی شیدے کو ساتھ لے کے اس مفرور کے ڈیرے کا ایک چکر لگا ہی لوں۔برے وقت کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔آپ چلیں گے ہمارے ساتھ ۔یہ برا وقت تو ہمارے ہاں کسی پہ بھی کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 273805 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More