دو ٹکے کے عوام میں شمار
ہونیوالے "بے حیثیت صحافی"اپنے آپ کو بہت اعلی اور سپرمین تصور کرتے ہیں
اور اس کا اظہار کئی جگہوں پر یہ لوگ کرتے ہیں کوئی اپنی گاڑی پر واضح
الفاظ میں " پریس" کی نیم پلیٹ لگاتا ہے اور کوئی اس کی آڑ میں کسی مجبور
کو خرچہ پانی پر مجبور کرتا ہے اور یہی ہماری مخصوص لوگوں کی صحافت بھی ہے
اب تو صورتحال یہ بن گئی ہے کہ "ان مخصوصص لوگوں"سے ہر ایک ڈرتا ہے اسی
بناء پر ہر آٹھواں شخص اپنے آپ کو "پریس سے وابستہ " ہوں متعارف کروا کر
آگے جانے کی کوشش کررہا ہے اس عمل میں کئی " کپڑے پریس " کرنے والے بھی "پریس
" کی آڑ میں اپنا کام نکال لیتے ہیں ہم نے تو چند "سینئر"کے پاس چار پہیوں
والی گاڑیاں دیکھی ہیں لیکن وہ لوگ بھی گاڑیوں پر "پریس "نہیں لگاتے -اگر
آپ جی ٹی روڈ پر کھڑے ہوجائیں تو لینڈ کروزر سے لیکر موٹر سائیکل پر "پریس"کا
نیم پلیٹ لگا نظر آتا ہے اب ہمیں نہیں پتہ کہ کن " صحافیوں" کے پاس لینڈ
کروزر آگئے ہیں حالانکہ کچھ لو گ تو انفارمیشن کے "پے رول" پر ہیں اور
باقاعدہ مضامین چھپوا کر " خرچہ پانی" خفیہ فنڈز سے نکال لیتے ہیں لیکن وہ
بھی اتنا نہیں ہوتا کہ چار پہیوں والے گاڑیاں خریدیں-
چھ ماہ قبل ایک موٹر سائیکل پر ایک ٹی وی چینل کی نیم پلیٹ دیکھی میرے ساتھ
میرا ایک اور صحافی دوست بھی تھا اسی موٹر سائیکل والے کو روکا اور کہا کہ
تم کہاں سے "صحافی " ہوں جو تم نے اتنا بڑا پریس کا بورڈ لگایا ہے پہلے تو
اس نے ہمیں"دبانے "کی کوشش کی کہ تم کون ہو پوچھنے والے جب ہم نے تعارف
کروا دیا تو جواب میں وہ صاحب جواب دینے پر رضامند ہوگئے اور کہا کہ میرا
ماموں کا بیٹا متعلقہ ٹی وی چینل میں ہے اسی وجہ سے میں نے اپنی گاڑی پر اس
کی ٹی وی چینل کا نیم پلیٹ لگایا ہے اس کے فوائد بیان کرتے ہوئے بقول اس
صاحب کہ میراکام سیلز کام ہے اور سیلزمین کی حیثیت سے میں پشاور کے مختلف
علاقوں میں جاتا رہتا ہوں کبھی کبھار مجھ سے ٹریفک کراس کرتے ہوئے غلطی
ہوجاتی ہے اور کبھی میں کاغذات بھول جاتا ہوںتو ٹریفک اہلکار میرے ساتھ
تعاون کرتے ہیں اور یہ تعاون اس صورت میں بھی ہوتا ہے کہ میں کسی بلڈنگ میں
جاتا ہوں تو بائیک روڈ کنارے ٹریفک پولیس والوں کے پاس کھڑی کردیتا ہوں اور
وہ کچھ نہیں کہتے اور کبھی کبھار دو تین بندے موٹر سائیکل پر لے جاتا ہوں
تو یہ کچھ نہیں کہتے -سچ کہتا ہوں میں اس کی باتیں سن کر اس سے جیلس بھی
ہوا تھا کہ اس کو کہتے ہیں "چوری اور اس پر سینہ زوری" یعنی صحافت سے
وابستگی بھی نہیں اور مزے کررہا ہے حالانکہ ہم نے قسطوں میں کسی زمانے میں
موٹر سائیکل لی تھی اور ٹریفک پولیس کی مہربانی سے وہ فروخت بھی کردی-صرف
ایک دفعہ سنٹرل جیل کے سامنے تعینات پولیس اہلکار نے "اوے "کہہ کر روکا اور
کہاکہ کیا کرتے ہوں اور کدھر جارہے ہوں تو میں نے جواب دیا کہ بھائی تمھاری
خبر کسی اور اور کسی اور کی خبر آپ کو پہنچانے کا کام دیتا ہوں اور گھر
جارہا ہوں -تو وہ پولیس اہلکار واپس مڑ گیا اور کہا کہ چلے جائو میں نے
پوچھ لیا کیوں تلاشی نہیں لینی تو اس نے کہا کہ خیر ہے تم "اخبار والے ہو"
میں نے اسے جواب دیا کہ بھائی تلاشی لو"خبریں ادھر سے ادھر لے جانے کا کام
ہمارے گائوں میں "نائی "بھی کرتے ہیں لیکن وہ اس ٹریفک اہلکار نے مجھے جانے
دیاکہ تم اخبار والے ہو ٹھیک ہے چلے جائو اور میں بھی بڑے زعم سے موٹر
سائیکل لیکر چلا گیا کہ پولیس نے میری تلاشی نہیں لی -موجودہ دور میں جس
طرح کے حالات کا ہم شکار ہیں اس میں توہم شکر ادا کرتے ہیں کہ موٹر سائیکل
نہیں اور پیدل ہی آتے جاتے ہیں کیونکہ آج کل تو "شہیدوں والی پارٹی"کی
سرکارکبھی موٹر سائیکل پر پابندی لگاتی ہے کبھی موبائل فون پر پابندی لگاتی
ہے لگتا ہے کہ عوامی جمہوری فلاحی اور ساتھ میں اسلامی ملک میں بہت جلد "کپڑے
پہننے"پر بھی پابندی لگائے گی کیونکہ خودکش حملوں کا خطرہ ہے آنے والے
انتخابات میں "شہیدوں والی سرکار"دو ٹکے کے عوام کو کہہ دے گی کہ روٹی کپڑا
اور مکان کا نعرہ ہماری حکومت نے لگا دیا تھا مکان کے معاملے سیلاب نے
ہماری مد د کی روٹی کیلئے اب کتوں سے بھی بدتر خوار ہورہے ہوں اور رہی کپڑے
کی بات تویہ بھی ہم نے اتار دئیے سو "شہداء کی پارٹی"عوام سے کئے گئے وعدے
پورے کرنے میں کامیاب رہی-اور ہم لوگ "آوے ہی آوے"کے نعرے لگاتے رہینگے-
خیر یہ ہم کہاں سے اپنے دل کے پھپھولے لے بیٹھے بات ہورہی تھی صحافیوں کی
کچھ دن قبل پولیس نے ایک موٹر سائیکل والے کو روکا جس کے آگے بائیک پر پریس
اور پیچھے پولیس لکھا ہوا تھا پولیس کے روکے جانے پر اس نے جواب دیا کہ کزن
میرا اخبار میں اور چاچا کا دوست پولیس میں ہے اس لئے دونوں کی نمائندگی
کررہا ہوں لیکن حقیقت یہ تھی کہ دونوں باتیں غلط نکلیں اور پولیس چھترول سے
پتہ چلا کہ موصوف افغان مہاجر ہے بعد میں ایک بہت بڑے " صحافی "نے اس کی
سفارش کرکے اس کی جان چڑھوا دی- پریس کیساتھ منسلک ہونے کی عجیب سی بیماری
ہے پریس کلب میں جا کر انداز ہ ہوتا ہے کہ چار سو کے قریب رجسٹرڈ صحافی
پشاور میں کام کررہے ہیں جن میں کچھ "سلیپنگ " پارٹنر بھی ہیں کیونکہ ان کے
"اخراجات" مختلف ڈیپارٹمنٹ برداشت کرتے ہیں اور انہیں تنخواہیں کہیں اور سے
بھی آتی ہیں بازار میں پریس کے نیم پلیٹ دیکھ کر انداز ہوتا ہے کہ اس
شہرمیں ہر کوئی صحافی ہے اور اپنے آپ کو سپر مین سمجھتا ہے-ایک ہفتہ قبل جی
ٹی روڈ پر بم ناکارہ کرنے کے دوران مشاہدہ ہوا کہ ہر کوئی دور کھڑے ہو کر
کوریج کررہا ہے ہمارے ایک ساتھی کیمرہ مین نے نزدیک جانے کی کوشش کی تو میں
نے بتا دیا کہ بھائی میرے تم ابھی ابھی " باپ "بنے ہوں اگر خدانخواستہ
نشانہ بن گئے تو پھر تم پر پروگرام کرنا پڑے گا اور ہم اس میں کہیں گے کہ
مرحوم ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے اپنے نوزائیدہ بچے کو بھی بھول گئے اور انا
اللہ ہوگئے جس پر اسے عقل آگئی اور وہ پیچھے ہٹ گئے تاہم ایک اور میری طرح
کا "بے حیثیت صحافی " بم ڈسپوزل یونٹ کیساتھ کھڑا تھا پولیس نے بہت کہا
لیکن وہ صاحب بم ڈسپوزل یونٹ کیساتھ کھڑے رہے آخر کارمیں نے اسے سب کے
سامنے میں نے سنائی تو وہ شرم کے مارے پیچھے ہٹ گیا پولیس والے تو ہنس رہے
تھے کیونکہ میں نے کہا تھا کہ بھائی میرے دس ہزار روپے کیلئے اپنے آپ کو "شہادت"
کے عہدے پر سرفراز کرنے پر تلے ہوئے ہوں کیونکہ بم کا ٹکڑا بغیر کسی پہچان
کے سب کو لگتا ہے اور پھر ہم ہی تمھارے لئے سڑکوں پر "خوار "ہونگے جس کی
وجہ سے میرا وہ بھائی جائے وقوع سے دور ہوگیا-
ایکسلیسیوز اور بریکنگ کی ریس نے ہم لوگ کیا کیا کرتے ہیں یہ ہمیں ہی پتہ
ہے اور اسی وجہ سے ہم نشانہ بھی بن جاتے ہیں بعد میں کہا جاتا ہے کہ صحافی
ڈیوٹی سرانجا م دیتے ہوئے زخمی ہوگیا اگر صحافی اپنے آپ کو سپر مین نہ
سمجھے اور عام آدمی کی طرح کام کرے اور جن حالات سے ہم آج کل دوچار ہیں ان
میں اگر لو پروفائل رہے تو صحافی کبھی بھی نشانہ نہ بنے -کچھ غلطی ہماری
اپنی ہے اور کچھ ہمارے حکمرانوں کی بھی ہے جو ہمیں گاہے بگاہے "مکھن"لگاتے
ہیں کہ "تم لوگ چوتھے ستون ہو" اور پھر صحافی لوگ اسی "مکھن"پھر پھسلتے
رہتے ہیں -اللہ ہم پر رحم کرے- |