گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
خون سے لکھا ہوا شعر
یزیدِ کے ناپاک لشکری شُہَدائے کربلا علیہم الرضوان کے پاکیزہ سروں کو لیکر
جارہے تھے۔دریں اَثنا ایک منزِل پر ٹھہرے۔ حضرتِ سیّدُنا شاہ
عبدُالعزیزمُحَدِّث دِہلوی علیہِ رَحمة اللّٰہِ القَوی لکھتے ہیں ، وہ
نَبِیذیعنی کَھجور کا شِیرہ پینے لگے ۔ایک اور روایت میں ہے،وَھُم
یَشرَبُونَ الخَمر یعنی وہ شراب پینے لگے۔ اِتنے میں ایک لوہے کا قلم
نُمُودار ہوا اوراُس نے خون سے یہ شِعر لکھا
اَتَرجُو اُمَّة قَتَلَت حُسَیناً
شَفَاعَةَ جَدِّہ یَومَ الحِسَابِ
(یعنی کیا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتل یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ
روزِقیامت ان کے نانا جان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی شفاعت پائیں
گے ؟)
بعض روایات میں ہے کہ حضورسرورِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کی
بعثت شریفہ سے تین سوبرس پیش تریہ شعرایک پتھرپرلکھاہواملا۔
(اَلصَّواعِقُ المُحَرِّقة194)
سرِ انور کی کرامت سے راہِب کا قَبولِ اسلام
ایک راہب نصرانی نے دَیر(یعنی گرجا گھر)سے سر انوردیکھا تو پوچھا ، بتایا
،کہا: ”تم بُرے لوگ ہو ،کیا دس ہزار اشرفیاں لے کر اس پر راضی ہو سکتے ہو
کہ ایک رات یہ سر میرے پاس رہے ۔“ان لالچیوں نے قَبول کر لیا۔راہب نے سرِ
مبارَک دھویا ،خوشبو لگائی ،رات بھر اپنی ران پر رکھے دیکھتا رہا ایک نور
بلند ہوتا پایا ۔راہب نے وہ رات رو کر کاٹی ،صبح اسلام لایا اور گرجا گھر ،
اس کا مال ومتاع چھوڑ کراپنی زندگی اہلِ بےت کی خدمت میں گزار
دی۔(اَلصَّواعِقُ المُحَرِّقة 199 )
دولتِ دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر
کربلا میں خوب ہی چمکی دُکانِ اہلِ بیت
دِرہم و دِینار ٹِھیکریاں بن گئے
یزیدیوں نے لشکرِ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خَیموں سے
جو دِرہم و دِینار لوٹے تھے اور جو راہِب سے لیے تھے اُن کو تقسیم کرنے
کیلئے جب تَھیلیوں کے مُنہ کھولے تو کیا دیکھا کہ وہ سب دِرہم و دِینار
ٹھیکریاں بنے ہوئے تھے اور اُن کے ایک طرف پارہ 13 سورہ ابراھیم کی آیت
(نمبر 42 ) وَلَاتَحسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعمَلُ الظّٰلِمُونَ
ط ( ترجَمہ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بے خبر نہ جاننا
ظالموں کے کام سے ۔)اور دوسری طرف پارہ 19 سورةُالشُّعَرائکی آیت
(نمبر227)تحریر تھی: وَسَیَعلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوآ اَیَّ مُنقَلَبٍ
یَّنقَلِبُونَ۔ ترجَمہ کنزالایمان:اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ
پر پلٹا کھائیں گے ۔ (ایضاً ص199)
تم نے اُجاڑا حضرتِ زَہرا کا بوستاں رُسوائے خَلق ہو گئے برباد ہو گئے
تم خود اُجڑ گئے تمہیں یہ بددعا ملی
مَردودو! تم کو ذلّتِ ہر دَوسَرا ملی
محترم قارئین کرام!یہ قدرت کی طرف سے ایک درسِ عبرت تھا کہ بد بختو! تم نے
اس فانی دنیا کی خاطِر دین سے مُنہ موڑا اور اٰلِ رسول صلی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہ وسلَّم پر ظلم و ستم کاپہاڑ توڑا۔ یا د رکھو! دین سے تم نے سخت
لاپرواہی برتی اور جس فانی و بے وفا دُنیا کے حُصول کے لئے ایسا کیا وہ بھی
تمہارے ہاتھ نہیں آئے گی اور تم خَسِرَالدُّنیَاوَال ±اخِرَة (یعنی دنیا
میں بھی نقصان اور آخِرت میں بھی نقصان ) کا مصداق ہو گئے
دنیاپرستو دین سے منہ موڑ کر تمہیں
دنیاملی نہ عَیش وطَرَب کی ہوا ملی
تاریخ شاہِد ہے کہ مسلمانوںنے جب کبھی عَمَلاً دین کے مقابلے میں اِس فانی
دنیا کو ترجیح دی تو اس بے وفا دنیا سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور جنہوں نے اس
فانی دنیا کو لات مار دی اورقراٰن وسنّت کے احکامات پر مضبوطی سے قائم رہے
اور دین و ایمان سے منہ نہیںموڑا بلکہ اپنے کردار و عمل سے یہ ثابِت کیا
سر کٹے ،کُنبہ مرے سب کچھ لُٹے
دامنِ احمد نہ ہاتھوں سے چُھٹے
تو دنیا ہاتھ باندھ کر ان کے پیچھے پیچھے ہو گئی اور وہ دارَین میں سُرخُرو
ہوئے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں
وہ کہ اس کا درکا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اس درسے پھرا اللہ اُس سے پھر گیا
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |