تاریخ حق وباطل میں خیروشر،ہدایت
وضلالت اوراسلام وکفرکے مابین ہزاروںمعرکے برپا ہوئے اور قیامت تک ہوتے
رہیں گے۔لاکھوں شہادتیں ہوئیں اور ہزاروں انقلابات آئے اور خصوصاًاسلام
کااوّلین دورتولاتعداداور عظیم الشان شہادتوں سے لبریز ہے۔تاہم یہ حقیقت
بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ آج تک کسی معرکہ کواورکسی کی شہادت کو اس
قدرشہرت وقبولیت اورعالم گیر تذکرہ نصیب نہیں ہوسکاجتنانواسہ رسولﷺ،جگرگوشہ
بتول اورفرزند علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جناب امام عالی مقام حضرت امام
حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کوشہرت وقبولیت اورعالم گیر تذکرہ نصیب ہواہے۔
چودہ سوسال گزر جانے کے بعدبھی شہادت امام حسین کا تذکرہ زندہ وتابندہ
ہے۔اس کی عالم گیرشہرت اور تذکرہ میں آج تک کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ یہ
اورزیادہ پھلتا اورپھولتاجارہا ہے یہاںتک کہ حسینیت ہردوراورہرطبقہ میں حق
وصواب اوریزیدیت ہردوراورہرطبقہ میں فتنہ وفساد اورباطل کی علامت بن گئی ہے۔
یومِ عاشورکی اہمیت وفضیلت
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینا ہے۔ اس ماہ کی دسویں تاریخ کو ”یومِ
عاشور“بھی کہا جاتا ہے جس کو بہت زیادہ عظمت واہمیت اورفضیلت حاصل ہے ۔ایک
حدیث میں رسول اللہﷺکافرمان ہے کہ محرم اللہ کے لیے ہے،اس کی تعظیم کرو،جس
نے ماہِ محرم کی قدرکی، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں عزت عطافرمائے گااوردوزَخ
سے نجات عطافرمائے گا۔
ذیل میں یومِ عاشورکی چندخصوصیات رقم کی جاتی ہیں۔
10محرم/یومِ عاشور....حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
یومِ عاشور....حضرت آدم جنت سے زمین پربھیجے گئے تھے تا کہ انسانیت کی
تخلیق ہو اور اللہ تعالیٰ کی توحیدومعرفت کا پیغام مخلوقِ عالم تک پہنچے۔
یومِ عاشور....حضرت ابراہیمعلیہ السلام کی ولادت ہوئی۔
یومِ عاشور....حضرت ابراہیم علیہ السلام کونمرودکی آگ سے نجات ملی۔
یومِ عاشور....حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اورآپ آسمان پر اٹھائے
گئے۔
یومِ عاشور....حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو فرعون سے نجات ملی اور
فرعون اور اس کا لشکردریائے نیل میں غرق ہوا۔
یومِ عاشور....حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہرآئے تھے۔
یومِ عاشور....حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی بینائی واپس آئی تھی۔
یومِ عاشور....اللہ تعالیٰ نے عرش وفرش،زمینوں، آسمانوں اورلوح وقلم کو
پیدا فرمایا۔
یومِ عاشور....اللہ تعالیٰ نے پہلی بار آسمان سے بارش نازل فرمائی۔
یومِ عاشور....ساری دنیااورساری مخلوق فناہوگی اورقیامت قائم ہوگی۔
10محرم/یومِ عاشور....نواسہ رسول، جگرگوشہ علی وبتول حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ اور آپ کے اصحاب نے جامِ شہادت نوش فرمایااوراسلام کو ایک نئی
زندگی ملی۔
گھرلٹاناجان دیناکوئی تجھ سے سیکھ جائے
جانِ عالَم ہوفدا،اے خاندانِ اہلِ بیت
شہیدکامعنیٰ ومفہوم
امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت،آپ کا مقامِ
شہادت،آپ کازمانہ شہادت اورآپ کافلسفہ شہادت کے بارے میںبراہِ راست گفتگو
کرنے سے پہلے ہم شہادت اورشہیدکے معنیٰ اورمفہوم کوواضح کریں گے کہ شہیدکسے
کہتے ہیںاورشہید کے کون کون سے معانی ہیں اوران معانی کے لحاظ سے اسلام
میںشہید اورشہادت کاتصوراور فلسفہ کیاہے۔ مختصراًزینت ِقرطاس ہیں،ملاحظہ
فرمائیں۔
شہید،شاہد،شہوداورمشاہدہ!یہ تمام الفاظ ”شہود“مصدرسے مشتق ہیں۔ شہدیشہد
شہوداًکے کئی معانی ہیں مثلاًحاضرہونا،مددکرنا،گواہی دینااورکسی چیزکوپانا
وغیرہ چنانچہ ان معانی کے لحاظ سے اسلام میں شہیداورشہادت کاتصوراور فلسفہ
یہ ہے کہ :
O شہید!جب جامِ شہادت نوش کرتاہے تو اس کی روح کواسی وقت اللہ تعالیٰ کی
بارگاہ میں حاضرکردیاجاتاہے۔
O اوریہ کہ شہید!اپنی پیاری اورنہایت قیمتی جان کانذرانہ پیش کر کے اللہ
تعالیٰ کے دین،اپنی قوم اوراپنے ملک وملت کی مددکرتاہے۔
O اور یہ کہ شہید!اپنی محبوب جان پرکھیل کراورجامِ شہادت نوش کرکے اللہ
تعالیٰ کے دین کے حق ہونے اوراپنے ملک وملت اوراپنی قوم کی عظیم قدروں کے
حق وصواب ہونے پرزبردست عملی گواہی دیتا ہے۔
O اوریہ کہ اللہ تعالیٰ نے عالَمِ برزَخ،یومِ محشراورجنت میں اپنے بندوں کو
جو نعمتیں، رحمتیں، سعادتیں اورانعام واکرام دینے کاوعدہ فرمایاہے،شہادت کی
عظیم موت کے دروازے سے گزرتے ہی شہیداللہ تعالیٰ کے ان سارے وعدوں کوعملاً
پالیتاہے۔
شہادت کی عظمت وفضیلت
شہادت!اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت عظیم الشان اورگراں قدرنعمت
ہے۔جن خوش نصیبوں کویہ لازوال اوراَن مول نعمت نصیب ہوتی ہے، ان کو شہید
کہتے ہیں۔ اورقرآن کے الفاظ میں ان کو”قتل فی سبیل اللہ“کے نام سے
تعبےرکیاجاتا ہے۔ان انعام یافتہ اورمنعم علیہ بندوں کا تذکرہ اللہ تعالیٰ
نے قرآنِ مجیدمیںبڑے دل نشین اور دل آوَیزالفاظ میں کیاہے۔ارشادِباری
تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ”اورجولوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں،ان کومردہ مت
کہو (وہ مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیںلیکن تم کو(ان کی زندگی کا)شعورنہیں
ہے“۔(سورة البقرہ:آیت 154)
اسی طرح ایک اورمقام پرارشادفرمایاکہ:
ترجمہ: ”اورجولوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ہیں،تم ان کومردہ بھی مت
خیال کرو،بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اورانہیں رزق بھی دیاجاتاہے“۔
(سورئہ آل عمران:آیت نمبر169)
اسی طرح سورة النساءمیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہدائِ کرام کوان لوگوں کے
ساتھ بیان کیاہے، جن پراللہ تعالیٰ نے اپناخاص فضل وکرم اورانعام واکرام
فرمایااور انھیںصراطِ مستقیم اورسیدھے راستہ کامعیار و کسوٹی
قراردیاہے۔چنانچہ ارشادِخداوند قدوس ہے:
ترجمہ: ”اورجوکوئی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولﷺکی(ایمان اورصدقِ دل کے ساتھ)
اطاعت کرتاہے،پس وہ(روزِقیامت)ان لوگوں کے ساتھ ہوگاجن پراللہ تعالیٰ نے
(اپناخاص )انعام فرمایاہے،جوکہ انبیاءاورصدیقین اورشہداءاورصالحین ہیں
اوریہ کتنے بہترین ساتھی ہیں“۔(سورة النسائ:آیت نمبر69)
مذکورہ بالاآیت مبارک میں اللہ تعالیٰ نے شہدائِ کرام کواپنے انعام یافتہ
اور منعم علیہ بندوں میں شمار کیا ہے، اور شہداءکاذکرمقدم کرکے صالحین
پرعظمت وفضیلت عطاءکی گئی ہے۔
شہادت!ایک ایسی جلیل القدراورعظیم الشان نعمت ہے،جس کی امام
الانبیاءحضورسیّدعالمﷺنے بھی شہادت کی تمنااورآرزوکی ہے۔چنانچہ حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ قسم ہے اس
ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!میری یہ آرزواورتمناہے کہ میں اللہ
تعالیٰ کی راہ میں قتل (شہید)کیاجاﺅںپھرزندہ کیاجاﺅں،پھرشہیدکیا جاﺅں،پھر
زندہ کیاجاﺅں،پھرشہید کیا جاﺅںپھرزندہ کیاجاﺅں اورپھر شہیدکیا جاﺅں“۔(صحیح
بخاری،مشکوٰة المصابیح)
شہادتِ امام حسین
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت،آپ کے مقامِ شہادت اور آپ کے زمانہ
شہادت (یعنی شہادت کاسن وسال)کے بارے میں نبئی غیب داں حضورنبی کریمﷺنے
اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوسب کچھ پہلے سے ہی آگاہ فرمادیاتھا۔
چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ابھی نوعمرہی تھے کہ حضوراکرمﷺ نے اپنی
زوجہ محترمہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کواس جگہ(یعنی ارض کرب وبلا) کی
مٹی عطاءفرمادی تھی ،جہاں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے جامِ شہادت نوش
فرماناتھا۔
چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ایک روزحضرت امام حسن اور
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہما میرے گھرمیںرسول اللہﷺکے سامنے کھیل رہے تھے
کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کی خدمت میںحاضرہوئے اوریہ کہا کہ اے
محمدﷺ! بے شک آپ کی اُمت (میں بعض لوگوں کی جماعت) آپ کے اس بیٹے
کوقتل(شہید) کردے گی اورآپ کواس جگہ کی تھوڑی سی مٹی بھی دی۔ حضور رحمت
دوعالمﷺنے اس مٹی کواپنے سینہ مبارک سے چمٹالیااوررودیئے پھرارشادفرمایاکہ
: ”اے اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا !جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے توسمجھ
لیناکہ میرایہ بیٹاشہیدہوگیاہے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس
مٹی کوایک بوتل میںرکھ دیااوروہ ہرروزاس مٹی کودیکھتیں اور فرماتیں کہ اے
مٹی!جس دن توخون میں تبدیل ہوجائے گی وہ کتناعظیم دن ہوگا“۔(الخصائص
الکبریٰ۔المعجم الکبیر۔الصواعق المحرقہ۔السرالشہادتین)
مقامِ شہادت
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقامِ شہادت کے متعلق حضرت علی المرتضیٰ
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضورنبی کریمﷺکی بارگاہ
میںحاضرہواتودیکھا کہ آپﷺرو رہے ہیں۔میں نے عرض کی کہ یارسول اللہﷺ!آپ
کیوںرو رہے ہیں؟آپﷺنے فرمایاکہ : ابھی میرے پاس حضرت جبرائیل آئے تھے ،
انہوں نے مجھے خبردی ہے کہ میرابیٹا حسین دریائے فرات کے کنارے اس جگہ قتل
کیاجائے گا،جس کوکربلا(کربلا!رنج وآفت کامقام،ملکِ عراق میں کوفہ کے قریب
ایک جگہ کانام ہے)کہتے ہیں۔(الصواعق المحرقہ، البدایہ والنہایہ)
زمانہ شہادت
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اورمقام شہات کی طرف آپ کے زمانہ
شہادت (سن وسال)کے بارے میں بھی حضوراکرمﷺنے اشارتاًنشان دہی فرمادی
تھی۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورسید عالم ﷺنے
فرمایاکہ:اے ابوہریرہ!ساٹھ ہجری کے سال کے سرے(یعنی اختتام) سے اور لڑکوں
کی امارت وحکومت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ 60ہجری کے اختتام اورلڑکوں کی حکومت سے
اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے۔کیونکہ آپ کومعلوم تھاکہ 60ہجری میںیزیدکی
حکومت ہوگی اوریہ بڑے فتنہ اورفسادکا وقت ہوگا،اس لئے آپ نے اس سے اللہ
تعالیٰ کی پناہ مانگی۔چنانچہ آپ کی یہ دعا بارگاہ ِخدا وندی میں یوںپوری
ہوئی کہ آپ کا59ہجری میںوصال ہوگیا۔
فلسفہ شہادتِ امام حسین
قمری سال کاآغازماہِ محرم الحرام سے اوراختتام ماہِ ذوالحجہ پرہوتاہے۔
10محرم الحرام کوحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت وقربانی
اور10ذوالحجہ کوحضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی ہے۔معلوم ہواکہ اسلام
ابتداءسے لے کرانتہاءتک قربانیوں کانام ہے،گویاکہ ایک مسلمان کی تمام زندگی
ایثارو قربانی سے عبارت ہے۔بہ قولِ شاعر
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ، ابتداءہے اسماعیل
ذوالحجہ کامہینہ ہمارے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عشقِ الٰہی کا بے
پناہ جذبہ اورحضرت اسماعیل علیہ السلام کی آرزوئے شہادت کانقشہ پیش کرتا ہے
اورمحرم الحرام کامہینہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے عملی
واقعہ کی جانب دعوت دیتاہے۔ذوالحجہ کی دسویںتاریخ کوحضرت اسماعیل علیہ
السلام اللہ تعالیٰ کی خوش نودی اورضاکی خاطراپناسراقدس چھری کے نیچے رکھ
دیتے ہیں مگر یہ سرتن سے جداہونے سے پہلے ہی بارگاہِ خداوندی میںدرجہ
قبولیت پالیتاہے۔
اورمحرم الحرام کی دسویںتاریخ کونواسہ رسولﷺنہ صرف اپنی جان بلکہ اپنے
جگرگوشوں،بھائیوں، عزیزوں،رشتہ داروں اوراپنے اصحاب کی گردنیں دین حق کی
سربلندی،اعلائِ کلمتہ الحق،ظلم وستم کے مٹانے کیلئے اورناموسِ اسلام اور حق
وصداقت کی خاطراپنے مالک ومولاکی بارگاہ میںپذیرائی کیلئے کٹا دیتے ہیں۔ یہ
تاریخ انسانیت کی بہت بڑی قربانی ہے،جوماہِ محرم الحرام میں دشتِ کربلا میں
پیش آئی اوراللہ تعالیٰ نے اسے امت مسلمہ کیلئے تاقیام قیامت اسلام کے
شعائر میں داخل فرما دیاہے۔
الغرض حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک فطری عطیہ تھاجو ازل سے ہی
آپ کی ذات کیلئے لکھاجاچکاتھا۔اورمیرے خیال میںتویہ خونی اور انقلابی معرکہ
واقع ہوناضروری تھا،کیونکہ ابتدائے افرینش سے لے کراسلام کے سنہری دورتک
اللہ تعالیٰ کی راہ میں جتنے بھی جہادہوئے اورجتنی بھی قربانیاںدی گئیں،ان
کی حیثیت ایک شخصی اورانفرادی ہواکرتی تھی،اجتماعی طورپرکسی نبی یا
پیغمبرکے پورے خاندان نے کسی جہادیاکسی قربانی میںحصہ نہیںلیاتھا۔
غرض یہ کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کاواقعہ کوئی شخصی یا
انفرادی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ چمنستانِ نبویﷺکے پورے گلشن(خاندان)کی شہادت
کاواقعہ ہے۔اوراس کاتعلق اسلام کی اصل حقیقت سے ہے،دین وملت کی اصل روح
اوربنیاد سے ہے یعنی اس حقیقت اوراس روح سے ہے،جس کی ابتداءحضرت اسماعیل
علیہ السلام کی ذات سے ہوئی اورنواسہ رسولﷺحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے
میدانِ کربلامیں اپنی قربانی سے اس کی تکمیل کردی۔
اس لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کاواقعہ کئی اعتبارسے
دیگرتمام شہادتوں سے ممتازاورمنفرد ہے۔اس کی انفرادیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ
آپ خانوادئہ رسولﷺکے چشم وچراغ ہیں یعنی آپ سے پہلے کسی رسول کے خاندان نے
شہادت کارتبہ حاصل نہیں کیا۔
اس میںشہیدہونے والوں کی حضورسیّدعالمﷺکے ساتھ خاص نسبتیں اور رشتہ داریاں
ہیں۔
یہ داستانِ شہادت گلشن نبوت کے کسی ایک پھول پرمشتمل نہیں بلکہ یہ سارے کے
سارے گلشن کی قربانی ہے۔
قتل حسین اصل میںمرگِ یزیدہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہرکربلاکے بعد
اسلام کی نشرواشاعت اوردین حق کی سربلندی کے لیے لاتعدادمسلمان مرتبہ شہادت
پرفائزہوچکے ہیںمگران تمام شہدائِ کرام میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی
شہادت بے مثل وبے مثال ہے کیونکہ آپ جیسی مصیبتیں کسی دوسرے شہیدنے نہیں
اٹھائیں،مثلاًآپ تین دن کے بھوکے پیاسے شہیدکئے گئے اوراس حال میں کہ آپ کے
تمام اصحاب ، عزیزواقارب اوراہل وعیال بھی بھوکے پیاسے تھے اورخاص کرچھوٹے
چھوٹے معصوم بچے پانی کے لیے تڑپ رہے تھے یہ آپ کے لیے اور زیادہ تکلیف کی
بات تھی،کیونکہ انسان اپنی بھوک وپیاس توکسی طرح برداشت کر ہی لیتا ہے،لیکن
اپنے اہل وعیال اور خصوصاًمعصوم اور شیر خوار بچوں کی بھوک وپیاس برداشت سے
باہر ہوتی ہے۔
پھرپانی کاوجودنہ ہوتوپیاس کی تکلیف کم محسوس ہوتی ہے ،لیکن جبکہ پانی کی
کثرت اور فروانی ہو اورجسے عام لوگ ہرطرح سے استعمال کررہے ہوں حتیٰ کہ
جانوربھی سیراب ہورہے ہوں،مگر کوئی شخص اپنے اہل وعیال اوراپنے اصحاب سمیت
تین دن سے بھوکا پیاساہواوراسے وہ پانی نہ پینے دیاجائے تویہ اس کیلئے
زیادہ تکلیف وآزمائش کی بات ہے۔
دشت کرب وبلامیں بالکل یہی نقشہ تھاکہ عام آدمی اورجانورتوسبھی دریائے فرات
سے سیراب ہورہے تھے ،مگرنواسہ رسول سیّدالشہداءحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
اورآپ کے تمام اصحاب ورفقاءپرپانی بندکردیاگیاتھا۔ یہاں تک کہ آپ اپنے
بیماروں اور معصوم بچوں کوبھی پانی کاایک قطرہ نہیں پلاسکتے تھے۔
اُس کی قدرت جانورتک، آب سے سیراب ہوں
پیاس کی شدت میں تڑپے بے زبان اہل بیت!
سیّدالشہداءامام عالی مقام حضرت سیّدناامام حسین رضی اللہ عنہ کربلاکے تپتے
ہوئے صحراءمیںقیامت خیزگرمی اورچلچلاتی دھوپ میںبھوکے پیاسے مگراللہ تعالیٰ
اوراس کے پیارے رسولﷺکی محبت واطاعت میںسرشارہوکراپنے عزیز واقارب اوراپنے
اصحاب سمیت شہادت کے عظیم منصب سے شرف یاب ہوئے اورتوحیدورسالت اور دین حق
کی سربلندی اوربقاءکیلئے اوراعلائِ کلمتہ الحق اورحق گوئی وسچائی کی
خاطراللہ تعالیٰ کی راہ میں اپناسب کچھ قربان کردیا۔
انقلابِ شہادتِ امام حسین
انسان کو بیدار تو ہو لےنے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو10محرم الحرام61ہجری کوسرزمینِ کربلا
میںشہیدکیاگیا۔ آپ کی شہادت کاواقعہ بہت ہی طویل اوردل گداز ہے، جس طرح آپ
کودھوکے اورفریب سے کوفہ بلایاگیااورجس طرح آپ کواپنے جگرگوشوں، عزیزو
اقارب اوراصحاب سمیت بڑی بے دردی اورسنگ دلی کے ساتھ شہیدکیا گیا۔اسے لکھنے
اور سننے کی قلب وجگرمیں تاب وطاقت نہیں ہے۔
امام جلال الدین سیوطی”تاریخ الخلفائ“اورعلامہ ابن اثیر”البدایہ والنہایہ “
میں رقم طرازہیں کہ:
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کے16اہلِ بیت بھی شہیدکیے گئے۔
شہادت کے ہنگامے کے وقت دنیامیںسات یوم تک اندھیراچھایارہا۔دیواروںپر دھوپ
کارنگ زردسانظرآتاتھااورستارے ٹوٹتے رہتے تھے۔آپ کی شہادت 10محرم الحرام
61ہجری کو واقع ہوئی ۔اس دن سورج گہنا(بے نور)گیاتھااورمسلسل چھے مہینے تک
آسمان کے کنارے سرخ رہے،بعدمیںوہ سرخی رفتہ رفتہ ختم ہوگئی لیکن اُفق کی
سرخی اب تک موجود ہے،جوشہادتِ امام حسین سے پہلے نہیں تھی....بعض لوگ کہتے
ہیں کہ یومِ شہادتِ حسین بیت المقدس کا جو پتھر بھی پلٹاجاتاتواس کے نیچے
تازہ خون دکھائی دیتا۔عراقی فوج نے اپنے لئے ایک اونٹ ذبح کیاتواس کا گوشت
آگ کاانگارہ بن گیاجوشعلے ماررہاتھااور جب انھوں نے وہ گوشت پکایا تووہ
نہایت تلخ اورکڑواہوگیا۔
( تاریخ الخلفاءصفحہ 207/البدایہ والنہایہ:ص189،جلد8)
امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کاسرمبارک لے جانے والے قافلے
کے راستے میں ایک جگہ گرجاگھرآیاتوانھوں نے رات گزارنے کیلئے وہاںقیام کیا
اوروہ لوگ آپ کاسرِانورپاس ہی رکھ کرنبیذ(شراب)پینے لگے۔ اتنے میں پردہ غیب
سے ایک آہنی قلم نمودارہوااوراس نے دیوارپر خون سے لکھاکہ:
اَ تَرجُوا اُمَّةً قَتَلَت حُسَیناً .... شَفَاعَةُ جَدِّہ یَومَ
الحِسَابَ
ترجمہ: ”کیاحسین کوشہیدکرنے والے یہ امیدبھی لگائے بیٹھے ہیں کہ قیامت کے
دن ان کے نانا جان(حضوراکرمﷺ)ان کی شفاعت بھی کریں گے“۔
جبکہ بعض روایات کے مطابق یہ شعر حضورنبی کریمﷺکی بعثت مبارک سے بھی300 سال
پہلے سے دیوارپرلکھاہواتھا۔(البدایہ والنہایہ،تاریخ الخلفائ)
تاریخ نے لکھاہے بہت ذکرِ کربلا
جس طرح لکھنا چاہیے اب تک لکھا نہیں گیا
محرم الحرام کی دسویںتاریخ بڑی عظمت وبزرگی اورقدرومنزلت والی ہے ، کیونکہ
بہت سے اہم اور تاریخ ساز واقعات اسی تاریخ کووقوع پذیرہوئے ہیں۔عاشورہ کے
دن روزہ رکھناسنت نبوی ﷺہے اور بہت ہی فضیلت رکھتاہے۔اسی طرح امامِ عالی
مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اوردیگرشہدائِ کربلا اوراپنے مرحومین کے
لئے ایصال ثواب کی نیت سے نذرو نیاز کا اہتمام کرنا،حلیم
پکاکرکھلانا،سبیلیں لگانا،کھیرپکانااورپانی وشربت وغیرہ پلانابہت اجروثواب
کاکام ہے۔
دعاءہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کوغازی کی زندگی اور شہادت کی موت
نصیب فرمائے۔آمین ثم آمین |