کشمیر گریز پاکستانی میڈیا

پاکستانی اخبارات و جرائد نے کشمیر کی تحریک آزادی کشمیر اور کشمیریوں کے حقوق سے متعلق ماضی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تقسیم سے قبل ہندوستان کے مسلم اخبارات و جرائد نے ڈوگرہ حکومت کے مظالم کے خلاف کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی اور کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے حمایت کی لیکن متحدہ ہندوستان کی پالیسیوں میں مسلمانوں کی کوئی شنوائی نہ ہونے کی صورتحال میں مسلم اخبارات و جرائد کی یہ حمایت کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے عوامی آ گاہی تک ہی محدود رہی۔قیام پاکستان کے بعد مملکت خداد داد کے اخبارات و جرائد نے کشمیر کاز کے لئے بھرپور آوار اٹھائی اور اس حوالے سے عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت پر دباﺅ رکھا۔”سقوط ڈھاکہ “ کے بعد سے 1988ءسے شروع ہونے والی کشمیریوں کی رواں جدوجہد آزادی کے ابتدائی دور تک پاکستانی پریس کشمیر کاز کے لئے اپنا سرگرم کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

پاکستان میں نجی ٹی وی جینلز شروع ہونے سے پہلے ہی اخبارات میں کمرشل ازم حاوی ہونا شروع ہو گیا۔اس سے اخبارات کی زیبائش اور تعداد میں تو بہت اضافہ ہوا لیکن ہمارا پریس اس روائیتی کردار سے بری الذمہ ہوتا چلا گیا جو برصغیر کے مسلم پریس کا خاصا تھا۔یوں ہماری صحافت اپنی روایات کی اقدار سے محروم ہو تی چلی گئی۔اخبارات کی تعداد میں مسابقت کی دوڑ شروع ہوئی تو ہماری صحافت پر علاقائیت اور ” شو بز“ کا عنصر بھی غالب ہوتا چلا گیا۔یوں ہماری صحافت کا غالب حصہ دولت مندوں کے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بن کر رہ گیا۔

سابق مشرف دور میں معاشرتی اقدار کو تبدیل کرنے کی غرض سے پاکستان میں نجی ٹی وی جینلز شروع ہوئے ۔اب پاکستان میں درجنوں کے حساب سے ہر قسم کے ٹی وی جینلز چل رہے ہیں۔شروع میں ان ٹی وی چینلز نے اخبارت کو متاثر کیا لیکن پھر اپنی سطح پر آ گئے اور اخبارات کی منفرد اہمیت نمایاں ہوئی۔ان ٹی وی چینلز میں قومی سطح کے علاوہ علاقائیت کی بنیاد پر بھی الگ الگ ٹی وی چینلز قائم ہیں۔ان نجی ٹی وی چینلز میں ُاکستان کے ہر علاقے کا ٹی وی چینل تو ملے گا لیکن کشمیر کے حوالے سے کسی ٹی وی چینل کا قیام تو دور کسی بھی ٹی وہ چینل نے کشمیر کو اپنا موضوع نہیں بنایا باوجود اس کے کہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق متنازعہ علاقہ ہے ،جس متنازعہ علاقے میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہیں۔بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھارت کے کئی ٹی وی چینل کشمیر کے موضوع پر قائم ہیں ۔نشریاتی محاذ پر ہماری وزارت اطلاعات و نشریات و حکومت کی توجہ کا یہ عالم ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں مصروف کشمیریوں کی آواز مضبوط بنانے کے لئے ٹی وی جینل تو درکنار ،1947-48ءکی جنگ کشمیر میں قائم ہونے والے آزاد کشمیر ریڈیو کی آواز کا گلا بھی گھونٹ دیا گیا ہے۔اس کی جگہ آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں مقامی نشریات میںمحدود ایف ایم دیڈیو سٹیشن کو فروغ دیا،جو مقامی امور پر بات کر سکتے ہیں لیکن آزادی کی جدوجہد میں مصروف کشمیریوں کی وہ آواز نہیں بن سکتے جو گلوبل دلج میں ان کی آواز بن سکے۔آزاد کشمیر میں تقریبا دو عشروں سے قائم پی ٹی وی سنیٹر کو ایسی بندوق کی مانند نمائشی طور پر ہی رکھا گیا ہے جو دیکھنے میں تو بندوق ہے لیکن چلتی نہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن نے بھی نجی ٹی وی چینلز سے مسابقت میںمختلف ناموں سے کئی ٹی وی چینل قائم کئے ہیں لیکن مخصوص سرکاری پالیسی کی بدولت کشمیر کاز کشمیریوں کی ضروریات کا حق ادا نہیں کر سکا۔بلکہ پی ٹی وی میں کشمیر کے موضوع کو ہمیشہ ایک بوجھ کی طرح ”ڈیل“ کیا جاتا آیا ہے۔الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے انٹر نیٹ کی نیوز ویب سائٹس اور سوشل نیٹ ورک نے جنم لیتے ہوئے اپنی منفرد اہمیت کو تسلیم کرایا ہے ۔

میرے حالیہ دورہ کے موقع پر وادی کشمیر کے اکثر افراد نے پاکستانی ٹی وی چینلز کے اس ’کشمیر گریز‘ کردار کا تذکرہ خصوصی طور پر کیا اور پاکستانی اخبارت میں بھی کشمیر کو نظر انداز کرنے کے چلن پر افسوس کا اظہار کیا۔اب اپنے عزیز و اقارب کو کیا بتا تا کہ مقبوضہ کشمیرکے پریس کی طرح ہمارا میڈیا بھی سرکاریت سے مجبور و عاجز ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب پاکستانی میڈیا میں کشمیر کے موضوع کو اہمیت دی جاتی تھی لیکن جب لڑائی کا محاذ پاکستان کی سرحدوں کے اندر آ گیا تو ہمارے اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز نے کشمیر کو اس طرح نظر انداز کردیا جس طرح کوئی چار بیویوں کا شوہر اپنی سب سے ضعیف بیوی کو بوجھ تصور کرتے ہوئے گریزاں ہوجا تا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارا میڈیا کشمیر کے حالات و واقعات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کاز سے متعلق حکومت پر عوامی دباﺅ بھی ڈالتا تھا لیکن ہماری صحافت تجارتی کیا ہوئی کہ قومی مفادات کی داستان صحافت عہد رفتہ کی یادیں ہی رہ گئیں ۔

تجارتی صحافت کے ماحول میںروزنامہ اخبارات نے علاقائی و قبیلائی ازم کو فروغ دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے ۔ قومی اخبارت میں کشمیر کاز کو نمایاں طور پر نظر انداز کرنے کی ہمارے ا خبارات کی متفقہ پالیسی اپنے مضر اثرات دکھا رہی ہے۔عام شہری کو بھی اس طرح کا تاثر ملتا ہے کہ کشمیر کاز صرف مظلوم کشمیریوں کی بات کرنا ہے جو کشمیریوں کا ہی مسئلہ ہے جبکہ وہ ان بنیادی حقائق سے لا علم رکھے جا رہے ہیں کہ کشمیر اور کشمیریوں سے دوری مملکت پاکستان کے کئے کن مہلک ترین نتائج کی حامل ہو سکتی ہے ۔

کشمیر سے متعلق پاکستانی صحافت کی ذمہ داریوں کے کئی رخ ہیں۔ایک کشمیر سے متعلق حالات و واقعات کو سامنے لانا،کشمیریوں کے حقوق و طویل جدوجہد کی موثر حمایت کرنا ،کشمیر سے متعلق پاکستان کے قومی مفادات کا ادرا ک کرنا اور حکومت پاکستان پر اس حوالے سے موثر دباﺅ ڈالنا۔کشمیر صر ف بھارت نواز یا حریت رہنماﺅں کا نہیں بلکہ ان کشمیری عوام کی بے مثال قربانیوں اور جدوجہد کا نا م ہے جن کے عزم غیر متزلزل نے بار بار تحریک کو چلایا اور سہارا دیا ہے۔یوں چند افراد کی بد کرداری،مجبوری کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے پاکستان کے میڈیا کو کشمیر کو نظر انداز کرنے کی مہلک غلطی ہر گز نہیں کرنی چاہئے۔یہ صرف پاکستان کے ایک ادارے کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی اور بقاءسے مربوط معاملہ ہے۔پہلے ہمارا پریس ہمارے قومی مفادات کا ادراک اور اس حوالے سے حکومت پر دباﺅ رکھتا تھا لیکن پاکستان کے میڈیا میں کشمیر کو جس طرح داستان عہد رفتہ کی طرح بھلا دیا گیا ہے اس سے کشمیریوں کو غلط اشارے جا رہے ہیں۔کشمیری پاکستان کی حکومتوں کی کشمیر کے حوالے سے ذمہ داریوں سے چشم پوشی ،کوتاہی اور غلط پالیسیوں پر یہ کہتے ہوئے مطمئن ہوتے رہے کہ پاکستانی عوام تو ان کے ساتھ ہیں لیکن جب عوام کی سوچ و فکر کا ترجمان کہلانے والا میڈیا کشمیر اور کشمیر کاز کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698841 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More