ابتدائے زندگی سے ہی نیکی اور
بدی کی جنگ جاری ہے جس میں آ ج تک لاکھو ں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں جوکہ
انسانی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے مگر ان مظالم کے حوالے سے سوچنا شروع
کیا جا ئے کہ یہ کون کر وا رہا ہے؟ کس کے کہنے پر ہو رہے ہیں؟ اور کس لیئے
ہو رہے ہیں ؟ تو اس کے جواب پرکئی ایک کتا بیں تحریر ہو جا ئیں گی مگر اس
کا چھوٹا سا جواب زر،زن اور زمین کی صورت میں نظر آ تا ہے کہ انسان کی
پیدائش سے لے کر وفات تک اسکی جبلت میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ وہ ان چیزوں
کی حرص کا مارا ہو ا رہے گا کوئی بھی انسان ان کی تمنا اور ان کی خواہش کے
بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا ہر انسان اچھا گھر، اچھی شریک حیات اور بہت سا
مال و زر چاہتا ہے تا کہ اس کی اپنی زندگی اور اس کی آنے والی نسلیں عیش و
عشرت کی زندگی بسر کر سکیں اور یہی وجہ ہے کہ ان خوا ہشات نے انسانی زندگی
میں آ گ بھڑ کا دی ہے اور اس آ گ نے گھر سے نکل کر ہمسائے ، ہمسائے سے نکل
کر محلے،محلے سے نکل کر شہر اور شہروں سے نکل کر ملکوں کو اپنی لپٹ میں لے
لیا ہے ہر ملک کی حوس دوسرے ممالک کے اثاثہ جات ،قدرتی وسائل اور مال اسباب
کو حاصل کر نے میں مصروف عمل نظرآ تی ہے اور دوسروں کو شکست سے فا ش کر نا
اوراپنے لئیے ہر چیز کا حصول ہی انسانی زندگی کا اہم پہلو بن کر ہ گیاہے جس
کی وجہ سے آ ج یہ امن کا گولہ(دنیا) تباہی و بر بادی کا نوحہ بیان کرتی نظر
آ رہی ہے آ ج نظراٹھا کر دیکھیں تو کشمیر سے فلسطین، بوسنیا سے چچنیا تک ،برصغیر
سے ہیرو شیما تک جنگ ہی جنگ نظرآ ئی ہے ہر طر ف آ گ ہی آ گ برسی ہے اور بر
س رہی ہے خون کے دریا بہائے جا رہے ہیں اور حوس زر پھر بھی تھمانے کا نام
نہیں لے رہی اور ان مظالم کا شکار اکثریت میں صرف مسلمان ہی نظر آ رہے ہیں
کیو نکہ یہی وہ قوم ہے جن کے پیغمبر نے اپنے دین کی تبلیغ تلوار سے نہیں
بلکہ تبلیغ سے کی اور مخالفین کے ہر ظلم کو سہہ کر کلمہ حق بلند کیا اور
سیدھی راہ کو نہ چھوڑنے کا درس اپنی قوم کو دیا تا کہ روز قیامت مسلمان
اپنے رب کے سامنے سر خرو ہو سکیں اور یہی وجہ ہے کہ آ ج مسلم ممالک میں
شیطان کے پیروکار اپنے مظالم کی انتہاءکر رہے ہیں چاہے وہ کشمیر ہو ،
بوسنیا ہو یا چچنیا ہو ۔ یا پھر فلسطین ہو، جہاں اسرائیل نے موجود ہ دنوں
میں انسانیت سوز مظالم نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اس ماہ
محرم الحرام میں یز یدیت کی مثال پر عمل پیر ا ہو کر مسلمانِ اسلام کی ایک
قوم ،ایک نسل کو شہید کر تا جارہا ہے اس نے فضائی حملوں سے فلسطین پر آ گ
وخون اور تباہی کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس میں ہر روز کئی درجن فلسطینی
اپنے وطن کی جڑوں کو اپنے خون سے آ بیاری دے رہے ہیں ان میں معصوم بچے،
بوڑھے ،مرد و خواتین تک تمام لوگ شامل ہیں جو انسانی زندگی کا ایک روشن باب
بنتے جا رہے ہیں اور جب بھی آ زادی ِفلسطین کا نا م لیا جا ئے گا توان
گمنام شہیدوں کو بھی اہل ضمیر لوگ سلام پیش کر یں گے ان کے لئے دعا مغفرت
فرمائیں گے ا ٓئیں آ ج اسرائیل اور فلسطین کے تنازعہ پر غور کر تے ہیں کہ
کیوںان دو نوں ممالک میں کشیدگی ہو ئی اور کیوں اسرائیل معصوم فلسطینیوں کا
دشمن بن گیا ۔ تو اس کا جواب تاریخ، بڑ ے بڑے کالم نگار، مفکر اور تاریخ
دان کچھ اس طرح سے دے رہے ہیں کہ اسرائیل نے 1967ءمیں غیر قانونی طو ر پر
فلسطینی زمین پر قبضہ کر لیا او ر اس زمین کو اپنا حصہ قر ار دیا اور وہاں
پر اسرائیلوں کو آ باد کر نا شروع کر دیا اور تقریبا 2لاکھ سے زائد یہو
دیوں کو قبلہ اول میں بسانے کا سلسلہ جاری رکھاجب کہ اسرائیل کے اس مو قف
کو عالمی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ وہ اس مقبوضہ علاقے کے اصل وارث
ہیں۔ جب کہ اس آ بادی کاری کے ساتھ ساتھ اسلام و امن پسند فلسطینیوں کے
ساتھ دست اندازی کر نا بھی شرو ع کر دی او ران پر اپنی حیوانت کے حملے شروع
کر دیئے اپنے تمام عزائم کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے مسجد اقصیٰ پر
اسرائیلوں کا حق ہے کا نعرہ لگا کر چھپا لیا ۔ ان اسرائیلوں کا دعوی ہے کہ
جہاں پر مسجد اقصی ٰ تعمیر ہے وہاں پر پہلے ہیکل سلیمانی موجود تھا اور ہم
مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے پھر سے ہیکل سلیمانی تعمیر کر نا چاہتے ہیں اور
اپنے تمام مظالم پر اپنے اسی مقصد کا پردہ چڑھایا ہوا ہے ۔ مگر انسانی
زندگی کاغور وفکر کے ساتھ مطالعہ شروع کیا جائے تو ایک پہلو یہ بھی نکلتا
ہے کہ مسلماناں فا تح عالم نے اسرائیل کو دو سے تین مرتبہ فاتح کیااورایک
بار صلاح ا لدین ایوبی نے اسے فتح کیاجس کی وجہ سے وہاں اسلا م پھیلانا
شروع ہو گا جو اس قوم کو کسی صورت بر داشت نہیں تھا اور انھوں نے مسلمانوں
اور ان کے فاتحان سے بدلہ لینے کے لئے یہ طریقہ استعمال کیا اور دنیا وی
خدا امریکہ سے اپنے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا کیئے اور اپنے مقصد کے لئے
اسے اپنے ساتھ ملایا اور اسے تاحال تک استعما ل کر رہا ہے اس سے جنگی سا
مان بھی حاصل کر رہا ہے اور اہل عالم کو ڈروا بھی رہا ہے تاکہ وہ ان
معصوموں پر اپنے مظالم کے پہاڑ توڑ سکے اور مسلمانانِ عالم کو دین کی تبلیغ
سے روک سکے اور یہی وجہ ہر ذی شعور اور باضمیر کو سمجھ آ تی ہے کہ اسی وجہ
سے امریکہ ہر وقت اور ہر صورت میں اسرائیلی درندگی کی کھلے الفاظ میں حمایت
کر تا نظر آتا ہے اور بانگ دہل وہ اسکی ان الفاظ میں جو موجودہ امریکی صدر
نے ادا کیئے ہیں کہ” اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق ہے“ سے حمایت کر تا
ہے مگر افسوس صدا فسوس! کہ اس ساری سازش اور کھولم کھلا حمایت کے باوجود
دنیا میں موجو دہ 58اسلامی ممالک میں کسی بھی بے حس اسلامی ملک کو اس سازش
و حمایت کے خلاف آ واز بلند کر نے کی تو فیق نہیں ہو ئی کیو نکہ اسلامی
ممالک کی اکثریت کے مفادات امریکہ سے جڑُے ہوئے ہیں اور ا کثر تو ہر حکم پر
”جی سر!“ کہتے ہوئے ہر جا ئزو ناجا ئز کام میں امریکہ کا ساتھ دیتے نظرآ تے
ہیں اور یہی بات بڑ ے بڑے تجزیہ نگار، مفکر اور تاریخ دان چیخ چیخ کر کہہ
رہے ہیں کہ امریکہ اسلامی ممالک کو اپنے مفادات کو پانے اور ان کی حفاظت
کےلئے کٹھ پتلی کی طر ح استعمال کر رہا ہے اور جو ملک اس کی بات نہیں مانتا
تو وہاں پہلے انتشار پھیلا کر وہ حکومت ختم کروا دیتا ہے یا پھر انتہا
ءپسندی کا بہانہ بنا کر اس کے خلا ف ایکشن لیتا ہے اس ملک پر چڑھائی کر
دیتا ہے اور موجود ہ صدی میں عراق، افغانستان، لیبیا ، مصرکی مثالیں سب کے
سا منے ہیں جہاں امریکی حمایت میں سب کچھ ہوا اور عراق اور افغانستان میں
امریکہ کئی سالو ں سے آ کر بیٹھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں پر کسی طر
ف بھی ظلم ہو تو نہ تو اسلامی ممالک اپنی آ واز کسی پلیٹ فارم پر بلند کر
تے ہیں اور نہ عرب لیگ یااو آئی سی جیسی تنظیمیں ان کے خلاف کلمہ حق بلند
کر تی ہیں ۔ اس لئے اب اگر ہمیں با حیثیت مسلمان (ایک جسم ) او ر اپنے
ملکوں پر امریکی تابع داری کی ٹھاپ ختم کر نی ہے تو اسلامی ممالک کے سر بر
اہان کو ایک جگہ مل جل کر بیٹھنا ہو گا اور ان تمام پہلو ﺅوں پر غور کر نا
ہو گا جسکی وجہ سے امریکہ اسلامی ممالک کو زیر کر نے کی پالیسیوں پر گامزن
ہے اس کے لئے سب سے پہلے تمام ممالک کو ٹیکنا لوجی پر توجہ دے کر اس پر
فوقیت حاصل کر نا ہو گی اپنی عوام کا معیا ر زندگی بلند کر نا ہو گا اور
بنیادی ضروریات زندگی میسر کر نا ہوگی حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں کو چھوڑ کر
اپنے ملکوں میں جدید تعلیمی سنٹر، یو نیورسٹیاں اور جدید سائنسی لیبارٹریاں
تعمیر کر نا ہو نگی اور وہ سائنس د ان پید اکر نے ہو نگے جو کفر عالم کی ہر
بر بریت کا بھرپور جواب دینے میں ہمہ تن گیر مصروف عمل ہوں اور ان کو کسی
بھی جارحیت کا ایسا جواب دیں کہ آ ئندہ کوئی اسلامی دنیا کی طرف آنکھ اٹھا
کر نہ دیکھے اور پھر متحد ہو کر اپنی آ واز ایک پلیٹ فارم سے بلند کر نا ہو
گی اور تمام اسلامی ممالک کو یک جان ہو کر اپنے حقوق کا تحفظ کر نا ہوگا
اور اپنے تمام مفادات جو امریکہ سے وابسطہ کیئے ہو ئے ہیں آپس میں وابسطہ
کر نا ہو نگے تا کہ ایک تو اپنا سر مایہ ان ممالک میں رہے اور دوسرا تمام
کے تمام ممالک میں اقتصادی، معیشتی ، اور تعلیمی ترقی ہو تو دوسری طرف پوری
دنیا کو یہ پیغام جا سکے کہ اب اسلامی دنیا کی طرف اٹھنے والی آ نکھیں نکا
ل لی جائیں گئیں یہ بس تب ہی ممکن ہے جب ہم سب متحد ہو جائیں۔ اللہ ہم سب
کا حامی و ناصر ہو (آمین) |