ملالہ سے حسد کیوں

ہمارے ہاں کامیاب انسان سے حسد،بغض اورتعصب کی بیماری عام ہے جودیکھتے دیکھتے دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے،جس معاشرے میں ایک دوسرے کوسراہا نہیں جاتاایک دوسرے کیلئے راستہ ہموار نہیں کیا جاتا وہاں لوگ متحدہونے کی بجائے منتشر ہوجاتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کسی کوملنے والی عزت،دولت اورشہرت سے دوسروں کاجلنا معمول بن گیا ہے۔ہم کامیاب افراد کی طرح محنت نہیں کرتے بلکہ شارٹ کٹ مارنے کی کوشش کرتے ہوئے منزل سے بھٹک جاتے ہیں۔ہم کسی انسان کی کامیابی کے پیچھے اس کی جہدمسلسل اورمحنت نہیں دیکھتے اوراس پررشک کرنے کی بجائے اس کے کردارپرشک کرناشروع کردیتے ہیں۔ملالہ یوسف زئی کاشدیدزخمی ہونے کے باوجود زندہ بچنابلاشبہ قدرت کاایک معجزہ ہے کیونکہ مارنے والے سے بچانے والے اللہ تعالیٰ زیادہ قادروتواناہے۔لوگ اس کے زندہ بچنے پرخوش نہیں الٹا اس کے ساتھ پیش آنیوالے اندوہناک واقعہ کی میڈیاکوریج سے پریشان اوربدگمان ہیں ۔ گولی مارنے والے بزدل نے توکوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگرملالہ یوسف زئی کوقدرت کی مہربانی کے بعداس کی علم ،امن اورانسانیت دوستی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اس کے ہمدردوں اورمداحوں کی دعاﺅں نے اسے موت کی آغوش میں جانے سے بچالیا۔ملالہ یوسف زئی بظاہرایک کمزوربچی ہے مگراس کی قوت ارادی نے اس کے بزدل دشمنوں کوان کے ناپاک ارادوں میں ناکام کردیا ۔جس طرح دنیا نے اسے پذیرائی دی وہ کسی خاص خوش نصیب کوملتی ہے ۔بلاشبہ آوازخلق کونقارہ خداکہا جاتا ہے،توپھرخلق خدامیں صرف مسلمان نہیں بلکہ غیرمسلم بھی آتے ہیں اوروہ سب کے سب ملالہ یوسف زئی کے ساتھ کھڑے ہیں ،ملالہ یوسف زئی کوئی غیر نہیں ہماری اپنی اورہم میں سے ایک ہے۔واقعتاً ملالہ یوسف زئی پاکستان کاچہرہ اورقیمتی اثاثہ ہے،اس کی جدوجہد سے کروڑوں ناخواندہ بیٹیوں کی آنکھوں میں علم کی شمع روشن ہوئی ہے ،اب علم اورامن کی یہ تاریخ جوملالہ یوسف زئی کے خون سے لکھی گئی ہے اس کی روشنی کبھی ماندنہیں پڑے گی اورشمالی وزیرستان سمیت پاکستان بھرمیںقیام امن کی تحریک جاری رہے گی۔

مجھے ان افراد کی سوچ اورسمجھ پرافسو س ہوتا ہے جوملالہ یوسف زئی کے ساتھ پیش آنیوالے حادثے کوڈرامہ قراردے رہے ہیں،شروع شروع میں ان افرادکواعتراض تھا کہ ملالہ یوسف زئی کے ساتھ زخمی ہونیوالی دونوں بچیوں کونظراندازکیا جارہا ہے مگرجب وہ اپنے منفی پروپیگنڈے اورایجنڈے میں کامیاب نہ ہوئے توانہوں نے سرے سے ملالہ یوسف زئی کے سرمیں گولی لگنے کے واقعہ بلکہ سانحہ کو باطل قراردے دیا اورمحض عوام کوگمراہ کرنے کیلئے سوشل میڈیا پرطرح طرح کی فرضی کہانیاں لکھناشروع کردیں ۔میں ان سے پوچھتی ہوں کہ اگر واقعی ملالہ یوسف زئی کازخمی ہوناکوئی ڈرامہ ہوتا اوربقول ان کے اس کاماسٹرمائنڈامریکہ ہے توکیا اس ڈرامے کاسکرپٹ اس قدر کمزورہوتا۔ہمارے ہاں یہ رواج ہوگیا ہے کہ اپنی ناکامی اورنااہلی کاملبہ دوسروں پرگرادیتے ہیں ،پچھلی کئی دہائیو ں سے ہم اپنے ملک میں ہونیوالے واقعات کی ذمہ داری امریکہ پرڈال دیتے ہیں ۔میراایسے افراد سے سوال ہے کیا امریکہ نے ہم سے زندگی بچانے والی ادویات سمیت ضروریات زندگی میں ملاوٹ کرنے کیلئے کہا ہے۔کیا یہ بھی امریکہ نے کہا ہے کہ مرداپنی غیرت کے نام پراپنے بھائیوں اوربیٹوں کوتوکچھ نہ کہیں مگربیٹیوں کوکاروکاری کردیں اوراگرکوئی حواکی بیٹی کسی کی ناجائزخواہشات ماننے سے یاکوئی رشتہ مانگنے پرمہذب اندازمیں انکار کردے تواس کے چہرے پرتیزاب پھینک دو اوراس کی روح کاقتل کردو ۔ہمارے ہاں جمہوری حکومت کی کسی پرتشدداحتجاجی تحریک یاسیاسی وفاداریوں کی نیلامی کے نتیجہ میں تبدیلی ہویافوجی آمریت جمہوریت کے وجودکواپنے شکنجے میں دبوچ لے توہمارے ہاں اس کاتعلق بھی امریکہ سے جوڑدیا جاتا ہے۔کسی سیاستدان کاقتل ہوجائے تواس کے ڈانڈے بھی امریکہ سے ملادیے جاتے ہیں۔جولوگ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے عادی اور ماہرہوں انہیں کسی اوردشمن کی ضروت نہیں پڑتی ۔کیا برطانیہ نے ہمیں فرقہ واریت ،لسانیت ،منافرت اورصوبائیت کے نام پرایک دوسرے کے گلے کاٹنے کاکہا ہے،کیا سنی اور شیعہ کی بنیاد پرہونیوالے فسادات کوبرطانیہ سپانسرڈ کرتا ہے،ہم اس طرح کی باتوں سے اپنے آپ کوتوبیوقوف بناسکتے ہیں مگرکسی صاحب بصیرت مورخ کی آنکھوں میں دھول نہیںجھونک سکتے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے بارہ سے پندرہ لاکھ افراد صرف برطانیہ اورلاکھوں امریکہ ،کینیڈا سمیت یورپ کے ملکوں میں روزگار کیلئے مقیم ہیں اورانہیں وہاں مذہبی آزادی،تعلیم اورصحت سمیت وہ تمام بنیادی اورضروری شہری سہولیات دستیاب ہیں جوبرطانیہ سمیت ان ملکوں کاآئین مقامی شہریوں کودیتا ہے۔اگربرطانیہ میں زخمی ملالہ یوسف زئی کاعلاج انسانی بنیادوں پرکیا گیاہے تواس میں کیا گناہ یا برائی ہے ،مگرافسوس کچھ لوگ اس پربھی برطانیہ پر تنقید کے تیربرسا رہے ہیں ۔قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرنے والی مسلمان خواتین کی ناموس پربجاطورپردرندہ صفت سکھوں اورہندﺅں نے جس طرح حملے کئے تھے وہ زخم آج بھی ہرے ہیں اورقیامت تک تازہ رہیں گے مگرآج پاکستان کے طول وارض میں جوہمارے ہم وطن آدم کے بیٹے حواکی بیٹیوں کی عزت تارتار کرتے ہیں کیا ان درندوں کو انڈیا نے ایساکرنے کیلئے حکم دیا ہے۔اسلامی معاشرے میں ہماری اشرافیہ سمیت مختلف طبقات میں جس طرح شراب نوشی معمول بن گئی ہے کیا ہمارے ہاں یہ کلچر انڈیا نے فروغ دیا ہے ۔

میرے بھائیوں اورمیری بہنوں ہم کب تک اپنے مسائل ،اپنے مجرموں اوراپنے رہزنوںسے چشم پوشی کرتے رہیں گے ،ہم اپنے ملک اورمعاشرے اندرسرگرم میرجعفر اورمیرصادق کے پیروکاروں کوتلاش اوران سے نجات حاصل کیوں نہیں کرتے جوہرروزچند کوڑیوں کیلئے ہماری سٹیٹ کایعنی ہمارے مضبوط قلعے کادروازہ کھول دیتے ہیں ۔جس وقت تک ہمارے دشمنوں کو ہماری صفوں میں میرجعفر اورمیرصادق دستیاب آتے رہیں گے اس وقت تک ہم مسائل ومصائب میں گھرے رہیں گے مگرہمیں اپنے دوستوں اوردشمنوں کوشناخت اوران میں فرق کرناہوگا۔ہرملک اپنے قومی مفادات کیلئے کسی نہ کسی حدتک دوسرے کے داخلی معاملات میں اعلانیہ یاخفیہ مداخلت ضرور کرتا ہے تاہم یہ اس ریاست کی حکومت پرمنحصر ہے کہ و ہ کس طرح اس کاسدباب کرتی ہے۔ظاہر حکمرانوں کی کمزوریوں اورمجبوریوں سے دوسرے ملک فائدہ اٹھاتے ہیں اگرعوام باکردارقیادت کاانتخاب کریں گے تو ہماراکوئی بھی حکمران ریاست کے قومی مفادات پرکمپرومائز کرنے کاتصور بھی نہیں کرے گا۔اچھااوربراحکمران منتخب کرنے میں ووٹرز کابہت اہم کردارہوتا ہے لہٰذا کسی بھی حکمران کی کامیابی یاناکامی کاکریڈٹ یاڈس کریڈٹ عوام کوبھی جاتا ہے۔
Saima Shehzadi
About the Author: Saima Shehzadi Read More Articles by Saima Shehzadi: 2 Articles with 2501 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.