مایوسیوں کے جہاں میں امید و
بقاء کی کرن بنو !جیو اور جینے کی امید دو
ہونہ جس میں انقلاب موت ہے وہ زندگی
رات کے ١٢بج رہے ہیں ۔اچانک میسج کے موصول ہونے کی بیل بجی ۔ پیشہ کے
اعتبار سے صحافی اور ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے طبیعت میں محتاط رہنا اور ہر
انہونی کے لیے تیار رہنے کی طبیعت کی وجہ سے جلد ی سے اُٹھا ۔موبائل
اُٹھایا۔اِنْ بوکس میں چیک کیاتو پتا چلاکہ عمران صاد ق نے دل ہلادینے والا
میسج کیاہے ۔''یہ میراآخری میسج ہے ۔اب میںتمہیں کبھی بھی نہیں ملوں
گا''ہیں؟میں چونک گیا۔الہی ماجراکیاہے ؟بیلنس بھی نہیںتھا۔خیر صبح کی سفیدی
کا انتظار کیا ۔بیلنس لوڈ کر واکرموصوف کو فون کیا ۔تو رندھی ہوئی مایوس
آواز آئی ۔گذشتہ رات کے میسج کا ذکر کیاتو اس نے مایوسیوں کے وہ رونے روئے
کہ اک لمحہ کے لیے میں بھی سکتہ میں آگیا۔یار بہت محنت کی ابھی تک خوار
ہورہاہوں ۔گھر والوں نے بھی تنگ کر رکھاہے۔جاب بھی نہیں ملتی ۔اگر مل جائے
تو مناسب سیلری بھی نہیں دی،یار اب جینے کو دل نہیں کرتا۔نفرت ہوگئی ہے
رشتوں سے،لوگوں سے ۔میںبڑی سنجیدگی سے اس کی باتیں سنتارہا۔ادھر اذان ظہر
ہوگئی مسجد چلے گئے ۔نماز پڑھی ۔واپس نکلنے لگے تو میں نے اس کے کندھے پہ
ہاتھ رکھا۔پوچھا عمران! تمہیں مزدوری کی اجرت تو نہیں ملی۔عمران :کیامطلب ؟مطلب
یہ کہ تم نے نماز پڑھی ۔تو تمہیں فوراسے کچھ ملا؟عمران :تو کیاجنت نہیں ملے
گی ۔نعمتیں ملیں گیں۔آخرت سنور جائیگی۔میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے
کہا۔اپنے جملوں پر غورکروآپ نے ہر بات مستقبل میں بتائی ہے ۔حال میں کوئی
بھی چیز نہیں بتائی ۔یار !ربّ جو ہر کام پر قدرت رکھتاہے کُنْ فَیَکُنْ سے
کایہ پلٹ سکتاہے وہ تمہیں آج کی مزدوری کی اجرت آخرت میں عطاکرے گاتو ان
دنیاوالوں سے تم کیوں جلدی میں صلہ مانگتے ہو۔یار!یہ ضروری نہیں زندگی آپ
جس نظر سے دیکھو ،آپ جو چاہو ،آپ کے من میں جو ہو وہ سب ہوجائے ضروری نہیں
۔خیر طویل بات ہوگئی ۔محترم قارئین ۔ اپنی بات سمجھانے کے لیے پروفیسر
اشفاق احمد مرحوم کی خوبصورت تحریر سے اقتباس آپکے ذوق مطالعہ کی نظر
کرتاہوں ۔آپ لکھتے ہیں کہ کسان ہل جوتتا ہے ۔ کھاد ملاتا ہے ۔ مٹی نرم کرتا
ہے۔ بیج ڈالتا ہے ، پانی دیتا ہے اور پھر پودے کے انتظار میں کھڑا ہو جاتا
ہے ۔ ۔ ۔ ۔ پھولوں کو پودوں سے زبردستی کھینچ کر نہیں نکالا جا سکتا ۔ اس
کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ خاموشی کے ساتھ اورجرئت کے ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور محبت کے ساتھ ! ! ۔
اللہ کی محبت کا بیج بھی ایسے ہی بویا جاتا ہے اور پھر اسی طرح روحانی مراد
کا بھی انتظار کیا جاتا ہے ۔ خاموشی سے محبت سے ، جرات سے ! جو کوئی بھی اس
میں بے چینی اور بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے وہ مراد حاصل نہیں کرتا۔ بے
صبری بار آوری کے لیے مناسب کھاد نہیں ۔ابدی پھولوں کے حصول کے لیے ابدی
انتظار کی ضرورت ہے اور جو ابدی انتظار کا تہیہ کر لیتا اس کے لیے فٹ سے
بھی دروازہ کھل جایا کرتا ہے ۔ ہمارے اندر ، اندر کی طاقت موجود ہے اور
کافی مقدار میں موجود ہے ۔ لیکن ہم بے صبری کے ساتھ اس کو گنوا دیتے ہیں ۔گدلے
جوہڑ کے اندر اپنے چھکڑوں کو تیزے سے ہانکتے ہوئے گذارنا اور بھی گدلاہٹ
پیدا کرتا ہے ۔ آرام سے چلو گے تو سب گار بیٹھ جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم پر
لازم ہے کہ ہم محض شاہد بنیں ۔ دیکھنے والے بنیں ۔ ذہن خودبخود پاکیزہ ہو
جائے گا ۔ ہمیں ذہن کو پاکیزہ بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔ ساری گڑبڑ
اس ذہن کو پاکیزہ بنانے سے پیدا ہوتی ہے ۔ آرام سے کنارے پر بیٹھ کر نظارہ
کریں اور پھر دیکھیں کیا نظارہ ابھرتا ہے۔
جی قارئین کرام:کیا خیال ہے آپ کا ؟امید ہے میری تمام گفتگوکا حاصل سمجھ
گئے ہونگے کہ بیج لگانے کے فوربعد فصل کی امید ماورائے عقل بات ہے ۔اس بیج
کے پھوٹنے سے لیکر بیل بننے تک کا ایک فطری مرحلہ ہے جس سے اسے گزرناہے
۔کیوں خلافِ فطرت باتیں کرتے ہیں ۔لہذاصبر کا دامن کو پکڑے رکھیں ۔حکمت و
دانائی سے زندگی میں آنے والے مشکلوں کا مقابلہ کریں ۔بجائے کوسنے کے حل
تلاش کریں اور فطری انداز میں چلیں۔حوصلہ اور امید زندگی کی کشتی کے وہ
ناخداہیں۔ جو منجدھار میں ڈوبی زندگی کو بھی پار لگادیتے ہیں ۔دوستو!جیواو
جینے کی امیددو۔مایوسیوں کے جہاںمیں امید و بقاء کی کرن بنو۔۔اللہ ہم سب کا
حامی وناصر ہو۔ |