بانسری کا کوئی نغمہ نہ سہی، چیخ سہی

ایک دو تین چار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دس۔۔ پندرہ۔۔ بیس۔۔ تیس۔۔! نہیں آپ ہر گز یہ نا سمجھیں کہ میں نے ابھی نئی نئی گنتی سیکھی ہے اور آپکو سنانے لگی ہوں نہیں ۔۔۔ بلکہ یہ تو وہ گنتی ہے جو آج مجھ سمیت اس قوم کے ہر فرد کو گنوائی جارہی یہ گنتی میں نے کب گنی ؟ گاڑیوں اور بسوں کی ایک لمبی نا ختم ہونے والی قطار... مگر وہاں دور تک کوئی جلسہ جلوس یا کوئی شادی کی تقریب کچھ بھی تو نہ تھا اسی معمہ کو حل کرنے کی فکر میں تھی کہ ھماری گاڑی کچھ اورآگے کو بڑھی تب یہ راز کھلا کہ یہ تو ایک سی این جی پیٹرول پمپ ہے جس پر گاڑیوں اور بسوں کی الگ الگ لائن لگی ہوئی ھے میری نظر سب سے آخری گاڑی کے اندر بیٹھے ہوےٴ شخص کے چہرے پر پڑی، اپنے آگے چونتیس گاڑیوں کو دیکھ کر اسکے چہرے سے ٹپکتی بے بسی اور جھنجھلاہٹ کوئی بھی با آسانی دیکھ سکتا تھا مگر دیکھتا کون ۔۔۔؟

کہ وہاں تو ہر ایک کا یہی حال تھا ۔ میں سوچنے لگی اسکی باری کم ازکم تین گھنٹے سے پہلے تو نہیں آئے گی ۔ میں اسی سوچ میں گم اپنے برابر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے صاحب سے مخاطب ہوئی ﴿جو کہ رشتے میں میرے شوہر نامدار ہیں ﴾ کہ صاحب یہ بتائیں کہ یہ لوگ یہاں اتنی لمبی لمبی لائنوں میں لگے صرف ایک سی این جی کے لیے﴿ جو عام روٹین میں شائد پانچ سے دس منٹ کا بھی کام نہیں مگر اہم اتنا کہ اس کے بغیر آپ ایک قدم بھی گاڑی آگے نہیں بڑھا سکتے﴾ جب یہ یہاں سے فارغ ہو کر لوٹیں گے تو کیا یہ قابل ہوگے کہ یہ اس بات پر کوئی دھیان دے سکے کہ ملک میں آج مزید کس کس چیز پر پابندی لگا دی گئی ہے، بجلی کے نرخوں میں مزید کتنا اضافہ ہوچکا ہے ،اور یہ کہ آج پڑوس میں کس کو ٹارگٹ کلنگ میں مار دیا گیا یا آج کہاں کہاں بم دھماکہ ہوا ۔۔۔۔۔۔؟

اپنے ان گھنٹوں کے ضائع ہوجانے ، اپنے نجانے کتنے ہی اہم کاموں کا حرج ھوجانے ، آفس میں باس کی ڈانٹ کھانے کے بعد کیا انکے اعصاب اس قابل ہوں گے کہ وہ خود پر ہی ہونے والی ان ذیادتوں پر کوئی احتجاج کر سکیں کوئی آوز اٹھا سکیں ۔۔۔۔۔۔؟

ہر گز نہیں وہ تو اپنی زندگی کی ان مصیبتوں سے ہی نہیں نکل پائیں گے جو " باقائدہ پلاننگ کے ساتھ ان پر مسلط کر دی گئی ہیں" تاکہ وہ اس کے آگے کچھ سوچ ہی نا پائیں کہ انھوں نے کل پھر اسی طرح کسی سی این جی پمپ کی لائن میں لگنا ہے اور اس سے اگلے دن سی این جی کی چھٹی کی وجہ سے بچوں کی اسکول کی وین نہیں آئے گی اس لیے انکو بھی اسکول چھوڑنے اور لانے کی ڈیوٹی نبھانی ہے۔ ویسے تو چھٹی کس کو بری لگتی ہے مگر مجھے آج تک اس چھٹی کی سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ سمجھ تو اور بھی بہت سی باتوں کی نہیں آئی مگر بہر حال جو بھی ہے مجھے اس قوم کو ایک بعد ایک مسئلہ میں الجھائے رکھنے والوں کو داد دینے پڑتی ہے ۔

مجھے اس وقت ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو میں نے شائد کہیں پڑھا تھا کہ ایک صاحب نے اپنے دوست سے اپنے چھوٹے بیٹے کی شرارتوں کی شکایت کی وہ کسی لمحہ چین سے نہیں بیٹھتا تھا کوئی نا کوئی نئی حرکت پورے گھر کو ہلائے رکھتی ہے دوست مسکرائے اور کہا اسے کچھ اسطرح مصروف رکھیں کہ اسے ان شرارتوں کے لیے وقت ہی نا مل سکے ، اتنا کہہ کر انہوں نے خود ہی مشورہ بھی دے دیا کہ آپ کل سے اسے اپنے بڑے بھائی کی پینٹ پہنادیں آپکا مسئلہ حل ۔۔۔۔۔ صاحب بڑے حیران ۔۔۔۔۔۔ خیر دوسرے دن انھوں نے یہی کیا اور وہ مزید حیران اسوقت کہ واقعی بچے کی سب شرارتیں ختم تھیں ۔۔۔۔

اس قوم کے ساتھ بھی آج کل صاحب اقتدار ایسا ہی کچھ کر رہے ہیں ۔۔

آپ کہیں گے کہ اب اتنے مصائب کی چکی میں پسی ہوئی قوم جسکو کوئی راہ نہیں سجھائی دے رہی وہ ان سے نکلے کیسے؟

تو واقعی آپکا سوال بجا ہے کہ حالات چاہےکتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں ان سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ تو لازمی ہونا ہی چاھیے مگریہاں سب سے اہم بات یہ کے کیا ہم اب بھی اپنے ساتھ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی اس غفلت کی نیند سے جاگنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں﴿ جس میں پڑے ہونے کی وجہ سے ہی آج یہ نوبت آ ئی ﴾ مانا کہ یہ سب حقیقت میں اتنا آسان بھی نہیں مگر آپ یقنا یہ بھی جانتے ہونگے کہ سوئی ہوئی قومیں جب ایک بڑی نیند لیکر بیدار ہوتیں ہیں تو انھیں اس کا کفارہ بھی بڑاہی ادا کرنا پڑتا ہے اور صورتحال آر یا پار کی سی ہوتی ھے جیسے ریسلینگ کے دوران رنگ میں زمین پر پڑا وہ ریسلر جو اپنے مخالف کے مکمل قابو میں ہونے کے باوجود آخری لمحات میں خود کو مخالف کے بازوں سے نکانے کی لیے اپنی پوری قوت جمع کر کے آخری زور ضرور لگاتا ہے اور اکثر کامیاب بھی رہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ آخری چانس ہے اسکے بعد اسے یہ موقع کم از کم اس میچ میں تو نہیں مل سکے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس قوم کے پاس بھی خود کو ان خونخوار پنجوں سے نکانے کا وقت آیا ہی جاتا ہے جنھوں نے اس پر ذندگی اور موت دونوں ہی تنگ کر دی کیا اب بھی یہ اپنی تقدیر بدلنے کے اپنا آخری زور لگانے کے لیے تیار ہے یا نہیں ۔۔۔؟
بانسری کا کوئی نغمہ نہ سہی، چیخ سہی
ہر سکوتِ شبِ غم کوئی صدا مانگے ہے

اگرآپکا جواب ہاں میں ھے تو پیشگی مبارکباد قبول کیجے ۔۔۔!۔

کہ چلو ۔۔ دیر آئے درست آئے

اور اگر آپکا ابھی مزید سونے کا اردہ ہے تو بس پھر رونا دھونا چھوڑیے اور خود کو کل آٹے دال اور پانی کی قطاروں کے لیے خود کو تیار کیجے کیونکہ بخدا کہ جو قومیں اپنا مقدر خود بدلنے کی اہلیت نہیں رکھتیں بس پھر وہ اسی طرح کبھی سی این جی کی چھٹی اور موبائل سروس بند ہونےکی ، تو کبھی موٹر سائیکل کی سنگل سواری پر بھی پابندی جیسی خبریں ہی سنا اور سہا کرتیں ہیں ۔
Asra Ghauri
About the Author: Asra Ghauri Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.