اقوامِ متحدہ کے ایک سروے کے
مطابق معذور افراد کی تعدار ہماری کل آبادی کے 10%کے برابر ہے۔ معذور افراد
کی بحالی اور معذور بچوں کی تعلیم و تربیت ہماری معاشرتی، اخلاقی ،قومی اور
مذہبی ذمہ داری ہے کیونکہ ہمار ا مذہب اسلام معذور افراد کے ساتھ اچھا سلوک
روا رکھنے کی تلقین کرتا ہے ۔ تاہم پچھلی تین دہائیوں سے معذور افراد کی
بحالی خصوصاً معذور بچوں کی تعلیم و تربیت نے بین القوامی سطح پر اہمیت
اختیار کر لی تھی۔ اقوام متحدہ نے اّسی(80) کی دہائی(dacade) کو معذور
افراد کی دہائی کے طور پر منایا۔ اگرچہ ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں بعض
فلاحی تنظیموں کے زیرِ انتظام معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کئی ایک
ادراے کام کررہے تھے تاہم مذکورہ بین القوامی تحریک کے زیر اثر پاکستان میں
بھی سرکاری سطح پر معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کئی ایک انقلابی
اقدامات کئے گئے ۔ وفاقی حکومت نے معذور بچوں کی تعلیم تربیت کے لئے وفاقی
سطح پر 1985میں ایک ڈائریکٹریٹ قائم کیا ، جس کے تحت فاٹااور آزاد کشمیر
سمیت ملک بھر میں معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ادارے قائم کئے۔
وفاقی حکومت نے معذور بچوں کے اساتذہ کی تربیت کیے لئے علامہ اقبال اوپن
یونیورسٹی ، جامعہ کراچی اور جامعہ پنجاب میں معذور بچوں کے اساتذہ کی
تربیت کے لئے ماسٹر ڈگری پروگرام کے اجراءکے لئے فنڈز فراہم کئے ۔ وفاقی
حکومت نے تمام چاروں صوبائی حکومتوں کے زیرِ انتظام چلنے والے اداروں کی
حالتِ زار میں بہتری لانے او ر انہیں ترقی دینے کے لئے بھی فنڈز فراہم
کئے۔اس طرح وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کے زیر انتطام چلنے
والے خصوصی تعلیم کے محکموں کی کارکردگی میں بھی نمایا ں تبدیلی رونما ہونے
کے امکانا ت روشن ہوگئے۔ چند سال قبل تک صوبہ پنجاب میں معذور بچوں کی
تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سرکاری سطح پر محکمہ تعلیم کے سپرد تھی۔ ان
معذور بچوں میں گونگے بہرے، نابینا، جسمانی معذور اور ذہنی پسماندہ بچے
شامل ہیں۔ پنجاب بھر میں معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے چند ایک ادارے
سرکاری سطح پر محکمہ تعلیم کے زیر انتظام1955سے ہی کام کر رہے تھے۔ معذور
افراد کی بحالی کی مذکورہ بین القوامی تحریک کے زیرِ اثر پنجاب میں محکمہ
تعلیم کے زیرِ انتظام معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے 1983میں ایک الگ
ڈائریکٹریٹ قائم کیا گیا۔ پنجاب حکومت نے بے شمار تکنیکی اور کئی ایک
انتظامی امور کے پیش نظر یہ جان لیا کہ معذور افراد کی تعلیم و تربیت کے
شعبہ کو محکمہ تعلیم کے زیرِ انتظام نہیں چلایا جا سکتا ، لہٰذا اس کام کے
لئے ایک الگ محکمے کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت
کے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے خصوصی تعلیم کے شعبہ کی اہمیت کے
پیش ِ نظر یکم اکتوبر 2003کو سپیشل ایجوکیشن کا ایک الگ محکمہ قائم کر دیا۔
قدسیہ لودھی صاحبہ کو وزیر اور جناب سہیل مسعو کو اس محکمہ کا سیکرٹری مقرر
کیا۔ الگ محکمہ کا قیام اس لئے ناگزیر تھا کہ خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت
کو ان کی ضروریات کے مطابق جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے ۔ چنانچہ پنجاب
بھر میں معذور بچوں کے اداروں کا ایک جال بچھا دیا گیا اور خصوصی تعلیم کے
ادارے جو کہ پہلے صرف بڑے شہروں میں ہی کام کر رہے تھے، اب ان کو تحصیل کی
سطح پر قائم کر دیا گیا۔ اداروں میں بچوں کی بحالی کے لئے نہایت ہی تکنیکی
شعبہ جات قائم کئے گئے۔ ان شعبہ جات میں بیش قیمت طبی وامدادی
آلات(electronic aids) مہیا کرنے کے لئے فنڈز مہیا کئے گئے۔ اس کے علاوہ
معذور بچوں کے والدین کو اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کروانے کی جانب
راغب کرنے کے لیے کئی ایک ترغیبات جیسے مفت یونیفارم، مفت درسی کتب، مفت
بریل کتب،مفت آلاتِ سماعت،مفت وہیل چیئرز، مفت ٹرانسپورٹ سروس، روزانہ مفت
دودھ کا پیکٹ اور ہر طالبعلم کو دو سو(200)روپے ماہانہ وظیفہ پر کثیر رقم
خرچ کی گئی ۔
یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ پنجاب میںخصوصی تعلیم کے الگ محکمہ کے قیام
کے ساتھ ہی اسکا زوال بھی اسی روز سے شروع ہو گیا تھا۔حکومت پنجاب نے شعبہ
خصوصی تعلیم کی تکنیکی حیثیتtechnical status) (کو تسلیم کرتے ہوئے اگرچہ
خصوصی تعلیم کا الگ محکمہ تو قائم کر دیا لیکن محکمے کی باگ ڈور غیر تکنیکی
(non-technical) اور غیر تربیت یافتہ افراد کے حوالے کر دی جنہوں نے اپنی
ناتجربہ کاری کی وجہ سے اس شعبہ کو نہ صرف اپنی مشقِ ستم کا نشانہ بنایا
بلکہ اپنی حوصِ زر کے باعث اسے مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹا۔ منصونہ بندی اور
نااہلی کا عالم یہ ہے کہ الگ محکمہ بننے کے باوجود جنرل ایجوکیشن کے ایسے
غیر تربیت یافتہ اساتذہ جو اپنے محکمے میں گھر کے قریب آسامیاں دستیاب نہ
ہونے کی وجہ سے سفارش پر لاہور سمیت بڑے شہروں میں سپیشل ایجوکیشن کی
پوسٹوںپر براجماں تھے، انہیں اس نئے محکمے نے سپیشل ایجوکیشن کا الگ محکمہ
بننے کے باوجود واپس بھیجنے کی بجائے صرف سفارش کی بنیاد پر اپنے سینے سے
لگائے رکھا ۔ جنرل ایجوکیشن کے ایسے افراد جو غیر قانونی طور پر سپیشل
ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی پوسٹوں پر تعینات تھے ان میں جنڈڈیالہ شیر خان ضلع
شیخورہ کے گرلز کالج کی اسسٹنٹ پروفیسر مسز عفیفہ افتخار بھی شامل تھی جس
نے گورنمنٹ انِ سروس ٹریننگ کالج فار دی ٹیچرز آف ڈس ایبلڈ لاہور کے پرنسپل
کی پوسٹ پر قبضہ جمائے رکھا۔ موصوفہ اسسٹنٹ پروفیسر اور اس کے ساتھی
،بیوروکریسی میں اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے محکمہ کے سیاہ سفید کے مالک بن
گئے اورمحکمہ کے افسران کو معذور بچوں کے تعلیمی امور پر مشورے دینے لگے ۔
ان کے مشوروں نے تو نیم حکیم خطرہ جان کے مصداق معذور بچوں کی تعلیم تربیت
کے منصوبوں کا بیڑہ ہی غرق کردیا۔ غےر تربےت ےافتہ افر د کروڑوں روپے کے
تکنیکی پراجیکٹس کی منصوبہ بندی کرتے رہے جس میں وہ محکمہ میں دستیاب تربیت
یافتہ اساتذہ سے قطعاً کوئی مشاورت نہ کرتے ۔ اس ناقص منصونہ بندی نے معذور
بچوں کو تعلیم میں کسی بہتری کی بجائے اسے مزید تباہی اور بربادی کی دلدل
میں دھکیل دیا۔ چند اقدامات کی جھلک ملاحظہ کیجئے:
i۔سپیشل ایجوکیشن سنٹرز۔مذکوہ نام نہاد ماہرین کے مشورے سے تحصیل کی سطح پر
چاروں معذوریوں(disabilities) کے طلبا و طالبات کی تعلیم و تربیت کا انتظام
ایک ہی سنٹر میں کر دیا گیا۔ اس طرح یہ نام نہاد ماہرین معذور بچوں کے
اداروں کے قیام پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنے میں تو یقیناً کامیاب ہو
گئے لیکن وقت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک ہی ادارے میں چاروں قسم کی
معذوریوں کے اختلات کی وجہ سے ان تمام ہی بچوں کی معذوری کے مجموعی تاثر
میں اضافہ ہوا ہے۔
ii۔ آڈیالوجی (Audiology) کے شعبہ کی حالت زار ۔ان نام نہاد ماہرین کے
مشورے سے بیورکریسی نے کروڑوں روپوں کے تکنیکی اور طبی آلات اپنی ناقص
منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ سوچے بغیر خرید لئے کہ جب ان آلات کو چلانے کے
لئے محکمہ کے پاس تربیت یافتہ ماہرین موجود ہی نہیں ہیں تو ان آلات سے
استفادہ کیسے کیا جائے گا؟ لہٰذاکروڑوں روپوں کی لاگت سے خریدے گئے یہ
انتہائی حساس آلات (electronic aids) ڈبوں میں بند پڑے ناکارہ ہوگئے۔ ناقص
منصوبہ بندی کا عالم یہ ہے کہ ایک جانب تو حکومت نے گونگے بہرے بچوں کے لئے
کروڑوں روپے کی لاگت سے آلات سماعت (hearing aids)خریدے بلکہ گونکے بہرے
درجنوں بچوں کو فی کس تقریباً بیس(20)لاکھ رروپے کی کثیر رقم خرچ کرکے
بذریعہ آپریشن کاکلیئر امپلانٹ (cochlear implant)بھی کروائے، جبکہ دوسری
جانب سپیشل ایجوکیشن کے اداروں میں آڈیالوجسٹ (Audiologist) کی پینتیس
(35)پوسٹوں کو ختم (Abolish)کردیا۔ افسران کو معلوم ہی نہیں ہے کہ معذور
بچوں کے ادارہ میں صرف آڈیالوجسٹ ہی ایک ایسا ماہر پیشہ ور فرد
(professional) ہوتا ہے جو بچوں کے آلات سماعت اور کوکلیئر امپلانٹ کی
نگرانی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ محکمہ ہذا میں پرنسپل ہیلتھ
افسر کی گریڈ 19کی ایک پوسٹ ہے جس پر سروس رولز کے مطابق ایم بی بی ایس
(MBBS)ڈاکٹر کو تعینات کیا جاتا ہے تاکہ معذور بچوں کی طبی جانچ ، صحت اور
تکنیکی تربیت و بحالی کے پروگرام کو بطر یقِ احسن مانیٹر (monitor)کیا سکے۔
ایسی اہم پوسٹ پر بھی سیکرٹری سپیشل ایجوکیشن پنجاب جناب عبداللہ سنبل نے
خالصتاً سفارش کی بنیا د پر وفاقی حکومت کے ایک سوشل ویلفئر افسر کو تعینات
کر رکھا ہے ۔ ا ٓڈیالوجسٹ کی خدمات اداروں میں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ان
بچوںمیں کسی بہتری کی بجائے ان میں جذباتی اور نفسیاتی مسائل نے جنم لے لیا
ہے ۔ یاد رہے کہ حکومت نے کاکلئیر امپلانٹ پر دس کروڑ روپے سے زائد کی رقم
خرچ کر رکھی ہے ۔ بیس سے زائد طلبہ کے کاکلیئر امپلانٹ ناکارہ ہوچکے ہیں ۔
متاثرہ سماعت طلبہ و طالبات کا کوئی پرسان حال نہیں ہے عدمِ توجہی کی وجہ
سے معاشرے میں ان کی بحالی کی بجائے ان کی معذوری میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اب
ایسے تمام گونگے بہرے بچوں کے والدین، جن کا حکومت نے کاکلیئر امپلانٹ
کروایا تھا وہ جھولیاں اٹھا اٹھا کر میڈیا پر حکومت کو بد دعائیں دیتے
نظرآتے ہیںلیکن ستم ظریفی یہ کہ ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔
iii۔سپیچ تھراپی (Speeh Therapy)۔ متاثرہ سماعت بچوں کی تعلیم و بحالی کا
دارومدار سپیچ تھراپی پر ہوتا ہے ۔ سپیچ تھراپی کا شعبہ خالصتاً طبی نوعیت
کا ہے ۔ پاکستان کی تقریباً تمام میڈیکل یونی ورسٹیاں سپیچ تھراپی میں ایم
بی بی ایس کی طرز پر ایف ایس سی کے بعدچار سالہ بی ایس سی( آنرز) کروا رہی
ہیں ۔ لیکن محکمہ سپیشل ایجوکیشن اپنے اساتذہ کی تربیت کے ایک ادارے گنگ
محل میں یہی چار سالہ پروگرام ایک سالہ ڈپلومہ کی صورت میں مکمل کروا رہا
ہے ۔ اداراہ کے پرنسپل شہزاد بھٹہ اور محکمہ کے کئی افسران نے اس ڈپلومہ
میں داخلے کو کمائی کا دھندہ بنا لیا ہے اور سیکرٹری سپیشل ایجوکیشن
عبداللہ سنبل صاحب زائدالعمر امیدواروں کو داخلہ دینے کے لئے اپنے اختیارات
سے تجاوز کرکے عمر کا اوپر والی حد میں چھوٹ (age relaxation)دے رہے ہیں۔
گنگ محل میں سپیچ تھراپی کے ڈپلومہ کا اجراء در اصل ایک بڑی سازش کا حصہ ہے
جس کے تحت اداروں میں سپیچ تھراپست (speech therapist)کی گریڈ 17کی منظور
شدہ پوسٹوں کے سروس رولز میںسال 2009میں اس وقت ایک سالہ ڈپلومہ ان سپیچ
تھراپی(one year diploma in speech therapy) کے الفاظ شامل کروائے گئے جب
نہ ہی گنگ محل میںاس ڈپلومہ کا ابھی اجراءہوا تھا اور نہ ہی پاکستان بھر
میں سپیچ تھراپی میں ایک سالہ ڈپلومہ کا کوئی وجود تھا۔ افسران نے اپنے
عزیز و اقارب کو چور دروازے کے ذریعے گریڈ 17میں بطور سپیچ تھراپست بھرتی
کروانے کے لئے میڈیکل یونیورسٹیوں کی سپیچ تھراپی کی ڈگری کو نظر انداز
کرکے پہلے تو سروس رولز میں 2009میں ایک سالہ ڈپلومہ کوشامل کروایا اورپھر
گورنمنٹ ٹریننگ کالج فار دی ٹیچرز آف ڈیف گلبرگ لاہور میں زبردستی اس کا
اجراءبھی کروایا۔ یاد رہے کہ محکمہ نے اس سے قبل اسلام آباد کے ایک غیر
منظور شدہ ادراے کے سپیچ تھراپی میں ڈیڑھ سالہ ڈپلومہ کے حامل امیدواروں کو
بطورسپیچ تھراپست بھرتی کیا جن کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی جس سے ان
بچوںمیںبول چال کی صلاحیت پیدا ہونے کی بجائے کئی جذباتی اور نفسیاتی مسائل
نے جنم لے لیا ہے۔ اور اب یہ گنگ محل کا ایک سالہ جعلی ڈپلومہ رہی کسر بھی
نکال دے گا۔
iv۔ متاثرہ بصارت بچوں کے لو و ژن(Low Vision) سنٹرز اور بولتی کتابیں
۔حکومت نے متاثرہ بصارت بچوں کے لئے بڑے نابینا بچوں کے چھ(6)اداروں میں لو
وژن سنٹر قائم کئے جن میں لاکھوں روپوں کی لاگت سے متاثرہ بصارت طلبہ کے
لئے سامان خریدا گیا۔ ان اداروں میں گریڈ 17میں کونسلرز بھی بھرتی کئے گئے
۔ ان اداروں کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ متاثرہ بصارت بچے بریل سسٹم
(Braille system)سے ہٹ کر لو وژن آلات اور لارج پرنٹ(large print)کی مدد سے
عام بچو ں کی طرح تعلیم حاصل کرسکیں۔ ناقص منصونہ بندی کی وجہ سے حکومت کا
یہ پراجیکٹ بھی بری طرح ناکام ہوگیا اور متاثرہ سماعت بچے اب بھی نابینا
بچوں کی تعلیم کے روایتی طریقہ کار یعنی بریل سسٹم کے مطابق تعلیم حاصل کر
رہے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے نابینا بچوں کے لئے بولتی کتابیں تیار کرنے
کے لئے ایک پراجیکٹ پر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے، لیکن یہ پراجیکٹ بھی لو
وژن سنٹرز کی طرح بری طرح ناکام ہوگیا۔ نام نہاد ماہرین کی منصوبہ بندی کی
وجہ سے نہ ہی لو وژن سنٹر چلتے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی کوئی بولتی
کتابیں تیا ر ہوتی نظر آتی ہیں ۔ ان پراجیکٹس کا فائدہ صرف اور صرف ان
افسران کو پہنچا جنہوں نے صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لئے ان پراجیکٹس کی
منصوبہ بندی کی اور بے کار میں ان پراجیکٹس کا سامان خریدا ۔
v۔سلو لرنر ز (Slow Learners) کے ادارے ۔گورنمنٹ ان سرو س ٹریننگ کالج فار
ٹیچرز آف ڈس ایبلڈ لاہور کی پرنسپل مسز عفیفہ صاحبہ کے مشورے سے پنجاب بھر
میںنام نہاد سلو لرنر بچوں کے35 ادارے قائم کئے گئے ۔ان اداروں کے لئے ہر
سنٹر کے لئے ایک سو یعنی کل تین ہزار پانچ سو ڈی وی ڈی (DVD) ستر لاکھ روپے
سے زائد کی لاگت سے خریدے گئے۔بعد میں ان اداروں کے لئے سلیبس اور امتحانی
مسائل نے ثابت کیا کہ سلو لرنز کے اداروں کا قیام ایک ڈرامہ تھا لہٰذا
حکومت نے اس منصوبے کو رول بیک کرنے کے لئے اساتذہ کی منظور شدہ تعداد جو
کہ پہلے دس تھی اسے بعد میں پانچ کر دیا ۔ جنرل ایجوکیشن کے اداروں کے بچے
ان خصوصی اداروں میں داخل کرنے کے بعد یہ پالیسی بنا دی گئی کہ یہ بچے سلو
لرنز کے اداروں میںرہتے ہوئے جنرل ایجوکیشن کا سلیبس پڑھنے کے بعدجنرل
ایجوکیشن کے پنجاب ایجوکیشن کمیشن کا امتحان دیں گے ۔چونکہ یہ بچے اس کمشن
کا امتحان کا پاس کرنے کے قا بل نہیں ہوتے اس لئے امتحان میں فیل ہو جاتے
ہیں۔ اس طرح یہ بچے تعلیمی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور جذباتی مسائل کا
شکار بھی ہو چکے ہیں۔
vi۔شاملاتی تعلیم (Inclusive Education)کے برعکس اقدامات۔ایک جانب تو محکمہ
کے افسرا ن مذکورہ بالا نام نہاد ماہرین خصوصی تعلیم کے مشورے سے شاملاتی
تعلیم (inclusive education)کا ڈھنڈوا پیٹے رہتے ہیں کہ معذور بچوں کو
لازمی طور پر عام سکولوں میں عام بچوں کے ساتھ ہی تعلیم حاصل کرنی چا ہیئے
اور اس نظریئے کی تشہیر کے لئے بین القوامی تنظیموں کے اشتراک سے
سیمنار(seminar) بھی کرواتے پھرتے ہیں ، جبکہ دوسری جانب محکمہ میں یہ لوگ
نابینا بچوں کے لو وژ ن(low vision)سنٹرز اور نارمل سکولوں کے پڑھائی میں
کمزور بچوں کے لئے سلو لرنرز سنٹرز جیسے نت نئے ایسے پراجیکٹ بناتے ہیں جو
ان معذور بچوں کو شاملاتی تعلیم سے کوسوں دور کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ
ڈیپارٹمنٹ نے اپنے سپیشل ایجوکیشن سنٹر ز کو پرائمری سے مڈل کرتے ہوئے ایسے
جسمانی معذور اور نابینا بچوں کی کلاسوں کو بھی اپ گریڈ کردیا جو بڑی آسانی
سے عام بچوں کے سکولوں میں اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکتے تھے۔
vii۔ معذور بچوں کے جنسی و معاشرتی مسائل کی جانب عدمِ توجہی ۔یہ بات
اظہرمن الشمس ہے کہ بچوں اور بچیوں کا ایک ہی کلاس میں اکٹھا پڑھنا ان گنت
جنسی اور معاشرتی مسائل کو جنم دیتا ہے اور ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں
کہ عام بچوں کی نسبت سپیشل بچوں کے جنسی اور معاشرتی مسائل کی نوعیت زیادہ
سنگین ہوتی ہے۔ سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے منصوبہ سازوں کی کم عقلی
دیکھئے کہ انہوں نے معذور بچوں کے ادروں میں مخلوط تعلیم (co-education)کو
رواج دے رکھا ہے۔ بچوں اور بچیوں کے آزادانہ اختلاط کی وجہ سے سپیشل سکولوں
میں درجنوں نازیبا واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کو محکمہ کے افسران اور
ہیڈ ماسٹر صاحبان اپنی سروس کو بچانے کے لئے دبا لیتے ہیں۔ افسران کی نا
اہلی کا عالم یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجا ب کی منظوری سے سپیشل ایجوکیشن
ڈیپارٹمنٹ نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کر رکھا ہے کہ جب بھی معذور بچوں کا کوئی
ادارہ مڈل سے ہائی میں اَپ گریڈ (upgrade)ہو گا تو ایسی صورت میں اس ادارے
کو دو حصوں میں تقسیم کرکے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے دو الگ الگ ادارے بنا
دیئے جائیں گے۔ لیکن حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد بھی جتنے اداروں
کو مڈل سے ہائی میں اَپ گریڈ کیا، ان تمام اداروں کو مخلوط تعلیم
(co-education) کے اداروں کی صورت میں ہی اَپ گریڈ کیا جو کہ سراسر غیر
قانونی عمل ہے۔
viii۔ محکمہ میں مذہبی اور اخلاقی اقدار کی پامالی۔ سیکرٹری سپیشل ایجوکیشن
جناب عبداللہ سنبل نے تبادلوں اور تقریوں میں لبرل (liberal)پالیسی کے نام
پر مذہبی اور اخلاقی اقدار کا دیوالیہ نکال دیا ہے وہ نا معلوم وجوہات کی
بناہ پر کلیدی آسامیوں پر قادیانی افسروں کی تعیناتی کوترجیح دے رہے ہیں۔
انہوں نے حال ہی میں گریڈ 18کے سینئر موسٹ پرنسپل محمد فاروق کو ہٹا کر
گریڈ 17کی ایک قادیانی کنٹریکٹ ٹیچر ماریہ امیر کو گونمنٹ سیکنڈری سکول فار
ڈیف بوائز گلبرگ لاہور تعینات کر دیا ہے ۔ یاد رہے کہ سروس رولز کے مطابق
گورنمنٹ سیکنڈری سکول فار ڈیف بوائز لاہور میں صرف اور صرف مرد (male)
پرنسپل ہی تعینات کیا جا سکتا ہے ۔ اب ادارے کے ملازمین اور ٹیچرز یہ کہتے
ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہم اپنی اچھی اے سی آر لکھوائیں یا پھر اپنے ایمان
کی خیر منائیں۔ سیکرٹری صاحب نے ایک اور قادیانی لاءافسر(law officer) جناب
ملک آصف منیر کو ان کے اصل کام کے علاوہ تمام محکمہ کے افسران اور ملازمین
کی انکوائریوں کا کام دے رکھا ہے جس سے انہیں پشیمان حال ملازمین کو اپنی
مرضی کے مطابق ڈیل کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ انہیں اپنے دام محبت میں
گرفتا ر کرنے کا ایسا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔
ix۔تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی کا مسئلہ۔ تربیت یافتہ اساتذہ معذور بچوں کی
تعلیم و تربیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ گونگے بہرے، نابینا،
جسمانی معذور اور ذہنی پسماندہ ہر قسم کی معذوری کے لئے یو نیورسٹیوںمیں نہ
صرف الگ الگ تربیت دی جاتی ہے بلکہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ان معذوریوں
کے لئے الگ الگ اساتذہ بھرتی کئے جاتے ہیں۔ یعنی نظریاتی اور قانونی دونوں
ہی پہلوﺅں سے ایک معذوری کا ماہر استاد دوسری معذوری کے بچوں کو پڑھانے کا
اہل نہیں ہوتا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ معذور بچوں کی کلاسوں میں پڑھانے کے
لئے طالبعلوںکی تعداد جنرل ایجوکیشن میں بچوں کی تعداد کے مقابلے میں کہیں
کم ہوتی ہے۔محکمہ خصوصی تعلیم پنجاب کے نوٹیفیکیشن نمبر
SO(B&D)10-33/2005(A) بتاریخ 6اکتوبر 2009کے مطابق سپیشل ایجوکیشن کے سنٹرز
اور پرائمری اداروں میں دس(10) گونگے بہرے بچوں کے لئے ایک،چار(4) نابینا
بچوں کے لئے ایک، دس(10) جسمانی معذور بچوں کے لئے ایک اور چار(4)ذہنی
پسماندہ بچوں کے لئے ایک ٹیچرہو گا۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ سپیشل
ایجوکیشن کے سنٹرز یا پرائمری اداروں میں ہر معذوری کی لازماًسات(7)کلاسیں
تو ہوتی ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ ایک کلاس کے لئے کم از کم ایک ٹیچر کی
ضرورت تو ہوتی ہے۔ اس طرح ا یک سپیشل ایجوکیشن سنٹر یا پرائمری سکول میں
ایک معذوری کے لئے کم از کم سات ٹیچرز درکار ہیں۔ معذور بچوں کے بیوروکریسی
کے ہاتھو ں استحصال کی حد دیکھئے کہ ان بچوں کے پرائمری سنٹرز میں ہر
معذوری کے لئے صرف ایک ٹیچر کی پوسٹ کی منظوری دی گئی ہے او ر بیوروکریسی
کی نااہلی کی وجہ سے منظور شدہ آسامیوں میں سے بھی تقریباً چالیس فیصد
آسامیا ں ابھی تک خالی پڑی ہیں۔ شومئی قسمت دیکھئے کہ ان ساٹھ فیصد آسامیوں
پر جو ٹیچرز بھرتی کئے گئے ہیں اُن سب کا جھمگٹا لاہور سمیت بڑے شہروں میں
لگا دیا گیا ہے اور دور دراز کے چھوٹے شہروں کے معذوربچے اپنی قسمت پر ماتم
کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
گڈگورننس(Good Governance)۔ پورے ڈیپارٹمنٹ میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر آپ
کو ٹرانسفر یا تقرری کروانی ہے تو پھر سیکرٹری صاحب کی بجائے آپ ڈائریکٹ
ایس او ایسٹیبلشمنٹ اختر بخاری صاحب سے طے کر لیں، آپ کا کام ہو جائے گا۔
اس بات کی تصدیق کسی بھی غیر جانبدار ذریعے سے کی جا سکتی ہے اور سیانے
کہتے ہیں کہ دھواں وہیں سے اُٹھتا ہے جہا ں آگ لگی ہوئی ہو۔ موصوف سیکشن
افسر صاحب کے ٹھاٹھ باٹھ ہی نرالے ہیں ، موصوف دراصل گریڈ 16میں ایڈیشنل
سیکرٹری صاحب کے پی اے ہیں جسے انہی کی سفارش پر سیکرٹری صاحب نے عارضی طور
پر سیکشن افسر لگا رکھا ہے۔ وہ دفتر اپنی ذاتی ہینڈا سوک (honda civic)کار
پر تشریف لاتے ہیں۔ وہ اتنے محنتی ہیں کہ رات دیر گئے تک دفتر میں کام کرتے
ہیں اور ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے آرڈر دفتری اوقات میں جاری کرنے کا ان کے
پاس وقت ہی نہیں ہوتا، وہ ایسے آرڈرز عموماً رات کے دس بجے نکالتے ہیں۔
انہوں نے حال ہی میں اپنے حقیقی بیٹے کو بطور سٹور کیپر کنٹریکٹ پر لاہور
سے دور دراز کسی شہرمیں بھرتی کروایا تاہم چند ہی ہفتوںکے بعد اس کا تبادلہ
گورنمنٹ ان سروس ٹریننگ کالج فار دی ٹیچرز آف ڈس ایبلڈلاہور میںہوسٹل وارڈن
کی پوسٹ پر کروالیا۔یہ بھی سیکشن آفیسر اختر بخاری صاحب کا ہی کمال ہے کہ
ان کی اپنی حقیقی بیٹی شازیہ اگرچہ بلائنڈ سکول شیرانوالہ گیٹ لاہور میںایک
ماتحت پوسٹ پر بطور کونسلر تعینات ہے لیکن انہوں نے اسے ضلع شیخوپورہ میں
گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سنٹر شرقپور کی ہیڈ مسٹریس کا ایڈیشنل چارج
(additional charge) دے رکھا ہے ۔سنا ہے کہ لاہور کی معروف EMEسکیم میں ان
کا ایک ذاتی ریسٹورنٹ بھی ہے۔
غیر قانونی تقرر و تبادلے۔تقرریوں او ر تبادلوں میں رشوت، سفارش اور اقربا
پروری کا عالم یہ ہے کہ نوکریوں کے حقدار صرف وہ لوگ قرار پاتے ہیں جو یا
تو محکمہ کے افسران اور ملازمین کے رشتہ دار ہوں یا انہوں نے افسروں کی جیب
گرم کی ہو۔ اس محکمے میں تبادلے کے لئے بھی یا تو رشوت یا پھر سفارش چاہئے۔
اگر کسی کے پاس رشوت میں دینے کے لئے رقم ہے یا اس کے پاس کوئی بڑی سفارش
ہے تو پھر اس کے لئے نہ کوئی قانون ہے اور نہ کوئی ضابطہ۔ گونگے بہرے بچو ں
کو پڑھانے کے لئے نہ صرف نابینابچوں کے استاد کو تعینات کر دیا جاتا ہے
بلکہ کبھی کبھی نابینا استاد کو بھی تعینات کر دیا جاتا ہے۔اسی طرح گونگے
بہرے اور نابینا بچوں کے استادوں کو ذہنی معذور کو پڑھانے کے لئے تعینات
کردیا جاتا ہے۔ کوئی تخصیص نہیں ،کوئی لحاظ نہیں، مقصد ایک ہی ہے کہ معذور
بچوں کی خدمت کا عہد لے کر نوکری کرنے والے اساتذہ کو ان کی مرضی کی جگہ پر
ان کے گھر کے قریب تعینات کر دیا جائے، اس کے نتیجے میں بے شک پنجاب بھر کے
چھوٹے شہروں کے تمام تعلیمی ادارے خالی ہوجائیں۔ اس سے عام آدمی بھی حیرت
زدہ رہ جاتا ہے۔مسز صباءاشفاق سائیکالوجسٹ ساہیوال کو تبدیل کرکے لاہور میں
آکوپیشنل تھراپست (Occupational Therapist)تعینات کیا گیا۔ نابینا سکول
راوی روڈ لاہور کی ہیڈ مسٹرس مسز ماجدہ بٹ جو کہ خود بھی نابینا ہے اسے
گوجرانوالہ کے گونگے بہرے بچوں کے سکول میں لگا دیا گیا جبکہ گوجرانوالہ کے
گونگے بہرے سکول کے بچوں کے ہیڈ ماسٹر محمد علیم شاہ کو نابینا سکول راوی
روڈ کا ہیڈ ماسٹر تعینات کیا گیا۔ مسز عاصمہ شوکت جو کہ دینہ ضلع جہلم میں
گریڈ 16میں ذہنی معذور بچوں کی ٹیچر تھی اسے نیشنل سپیشل ایجوکیشن سنٹر
جوہر ٹاﺅن لاہور میں گریڈ 17کی سینئر ٹیچر کی پوسٹ پر تعنات کر دیا۔ مسر
سوفیہ مقبول جو کہ سکول کیڈر میں گونگے بہرے بچوں کی ٹیچر ہے اسے کالج کیڈر
میں بلائینڈ کے ٹیچر ٹریننگ کالج میں لیکچرار موبیلیٹی اینڈ اورینٹیشن
(Mobility & Orientation)تعینات کر دیا گیا۔ شیرانوالہ سکول کے ایک نابینا
بریل ٹیچر ملک محمد امین کی جے ایس ای ٹی (jSET)پروموشن کرکے اسے اسی سکول
میں ایک میڈیکل پوسٹ پر اپتھل مالوجسٹ (opthalmologist)لگا دیا۔ سکول کیڈر
کے پرنسپل گریڈ(18) محمد فاروق کو گونمنٹ سیکنڈری سکول فار ڈیف بوائز سکول
لاہور سے تبدیل کرکے کالچ کیڈر میں ٹریننگ کالج فار ٹیچر زآف ڈیف لاہور میں
اسسٹنٹ پروفیسر لگا دیاگیا، یاد رہے کہ محمد شہزاد ہارون بھٹہ جو کہ گریڈ
17میں گونگے بہرے بچوںکے ہیڈ ماسٹر ہیں اسی کالج کی گریڈ 19کی پوسٹ پر بطور
پرنسپل تعینات ہیں۔
نان ٹیکنیکل ڈائرکٹر کی تعیناتی۔ یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ صوبہ پنجاب کے
تمام ٹیکنیکل محکموں میں ڈائریکٹر زجنرل اور ڈائریکڑز کی تعیناتی انہی
محکموں کے سینئر ترین آفیسرز میں سے کی جاتی ہے ، اسپیشل ایجوکیشن کا شعبہ
بھی انتہائی ٹیکنیکل اور حساس ہے، اس کے باوجود ڈائریکٹر ہ سپیشل ایجوکیشن
پنجاب کی پوسٹ پر ہمیشہ نان ٹیکنیکل ڈی ایم جی یا پی سی ایس آفیسر کو تعینا
ت کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے شعبہ ہمیشہ میں غلط منصونہ بندی ہوتی ہے اور
نتیجہً حکومت کے کروڑوں روپے برباد ہوجاتے ہیں ۔ موجودہ ڈائریکٹر جناب رانا
فضل عباس صاحب کی نااہلی نے تو معذور بچوں کی تعلیم کے میعار کا بیڑہ غرق
کردیا ۔ ان کے دور حکمرانی میں کرپشن کی انتہاءکر دی گئی ہے ۔ انہوں نے غیر
قانونی ٹرانسفرز کی بھرمار کردی ہے یہاں تک کہ زیادہ ضرورت مندوں کو تو
لاہور میں بغیر پوسٹ کے ہی اس طرح تعینات کردیاجاتا ہے کہ وہ بغیرکسی کام
کے لاہور میں اپنے گھر میں آرام فرمائیں تاہم تنخواہیں اپنی اصل پوسٹ سے
وصول کرتے رہیں۔ایسے خوش نصیبوں میں زیادہ تر محکمہ کے افسرا ن کے اپنے
قریبی رشتہ دار شامل ہیں۔ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے ٹرانسفر اور بھرتیوں کی
اگر غیر جانبدار انکوائری کروائی جائے تو بڑے گھمبیر اور لرزہ خیز انکشافات
سامنے آنے کی توقع ہے۔
سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی نا اہلی اور بد انتظامی نے معذور بچوں
کی تعلیم و تربیت کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ بچوں کی معذوری قدرت کی مرضی لیکن
اُن کی بربادی بیوروکریسی کا کھیل: کیا کوئی نوٹس لینے والاہے؟ |