عنبر مصباحی
آج کے روشن خیالی اورقدامت دشمنی کے ماڈرن سیلاب میں انسان اورانسانیت کی
حفاظت وبقاکافی مشکل ترین امر بنتا جا رہا ہے۔جدت پسندی کی آندھیاں
ہزاروںسالو ںسے قائم اور جھولتے درختوں کی جڑوبیخ اکھاڑنے میں لگی ہوئی
ہیں۔قدیم اصول و قوانین کوفرسودہ اورلغوقرار دینے کی ایک مسابقت چل پڑی ہے۔
عمدہ سے عمدہ اورمتفق علیہ امور کوفرسودہ اورریٹائرڈقراردے کران کے نام
زبردستی پینشن جاری کیاجارہاہے۔فلاح وکامرانی کے ضامن افکار ونظریات
اورکامیاب طرزِمعاشرت کوبھی بنیادپرستی کالیبل لگا کر باعث ننگ
وعارقراردیاجارہاہے۔تخلیق جہاں کے وقت سے چلے آرہے حیات وزیست کے جامع
اخلاق وکردارصرف اس لئے بزم دانش سے نکالے جارہے ہیں کہ وہ کسی ملحدوبے دین
سائنس داں کی ’’منفردعقل‘‘کے خلاف ہے۔اوریہ سب بھی اسی جمہوریت کے دورعروج
میں ہورہاہے جواکثریت کی رائے اوران کے خیالات کی حکومت کی قائل ہے۔ آزادی
ٔرائے اورحقوق کی آزادی کے نعرے اتنی شدت سے بلندکئے جارہے ہیں کہ انسان
تمام دیرینہ اخلاقی اورمعاشرتی زنجیروں کواپنے لئے قیدوبندسمجھ کر انہیں
ٹوڑنے پہ کمربستہ اورمجبور کردیاجارہاہے۔نوبت ایں جارسید کہ ایک روشن خیال
باپ نے اپنے ماڈرن بیٹے کوکسی امرناگوارپہ سرزنش کی تواس نے کہا:
ڈیڈ!زیادہ جمانے کانہیں۔یہ اکیسویں صدی ہے۔آزادی کا دورہے۔ڈیڈی اورممی کے
آخرسے ’’ی‘‘ختم کرکے اکیسویں صدی کے والدین کویہ پیغام دیا گیاہے کہ
’’ی‘‘کے ساتھ ان کے اختیارات بھی ختم کردئے گئے ہیں‘‘۔
یہ ماڈرن ایج کی جدت پسندی اورروشن خیالی ہے کہ اب ہرچیزنئی لاؤ۔اورایک
درزی کے بقول:”پھٹاپینٹ پہننافیشن اورنیواسٹائل ہے جب کہ بے پھٹاپہننا
قدامت پسندی“
اوراب تووہ افکارونظریات جن پرانسانیت کی بقاموقوف ومرکوزہے وہ بے چارے بھی
اکیسویں صدی کے ان اعلیٰ دماغ اور روشن خیالوں کے روشن خیالی کے نشترسے
مجروح ہوتے جارہے ہیں۔جسم فروشی جس کے ایک قبیح اورناقابل قبول فعل ہونے پہ
دنیا ہزاروںسال سے بلاتفریق ملک ومذہب متفق رہی ہے آج اسے آزادی اورروشن
خیالی کے نئے کلیہ سے قانونی جواز (Legalization) مہیاکیاجارہا ہے۔صرف
اسلام ہی نہیں دنیاکے تمام مذاہب سمیت ہرانسان نے حفظ جان کی حکمت
کومدنظررکھتے ہوئے قتل و جراحت کی سزا ’’قصاص‘‘متعین کیاہے۔اس کائنات کے
پھولوں کی خوشبوؤں کوسونگھنے والے ،کانٹوںپہ چلنے والے، ہواؤں کو چیر کر
مہینوں کاسفرپل بھرمیں طے کرنے والے،چاندوسورج کی شعاعوں کوسائنس کی
زنجیروںمیں جکڑکرانسانوں کے لئے کارآمد بنانے والے، ماہتاب پہ کمندیں ڈالنے
والے ،فضاؤں کومسخرکرنے والے، پہاڑوں اورچٹانوں کوبسیرابنانے والے،درختوں
کی پتیوں کو بطور غذااور لباس کام میں لانے والے،زرق برق اورشاہی لباس
پہننے والے اوراس خاکدانِ گیتی کے ذرے ذرے کی سیاحت کرنے والے جمیع انسان’’
جیساجرم ویسی سزا‘‘کے اصول پہ آدم تاایں دم متفق رہے۔یہی وجہ ہے کہ
تقریبادنیاکی ہرزبان میں’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘،’’Tit For Tat‘‘اور
’’کَمَاتَدَیْنُ تُدَان‘‘کے محاورات مستعمل ہیں۔ مگراب نیادور،نئی امنگیں،
نئے محبوب(ہم جنس)، نئی منزلیں اورنئے مقاصدکادوردورہ ہے۔جب تک دنیاکم ترقی
یافتہ اور’’نیم جاہل نیم عالم ‘‘رہی اس کے دانشوراوراعلیٰ دماغ سمجھے جانے
والوں نے ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘کوملکی آئین ودستور کااہم جزمانا۔جس
کانتیجہ یہ تھاکہ دنیاامن ومحبت ،سلم وسلامتی اور امن وسکون سے بھری
مختصرسی جنت نظرآتی تھی۔ مگرجب سے ترقی نے برق سے رفتارمستعارلی ہے اورعلم
وسائنس کی روشنی تیز ہوگئی ہے تب سے اسلاف بیزاری اور آباواجدادکی
’’تحمیق‘‘ کا طوفان بھی تیزترہو گیاہے۔ نئے دور کے زیادہ علم والے
اورڈھیرساری ترقی یافتہ انسانوں نے قصاص اور سزائے موت کوفرسودہ
اوردورجہالت (The TIme Of Ignorance) کی علامت بتاکرختم ہی کردیا۔ نتیجۃ
َدنیا میں تقریباپانچ ہزارسے زیادہ افرادیومیہ قتل کردیے جاتے ہیں۔ اوریہ
دنیاترقی کی معراج کے باوجودظلم وستم ،حقوق تلفی،دل آزاری، ناانصافی وبے
ایمانی اورچوری ڈکیتی کی آماجگاہ بنتی جارہی ہے اورآج آدم کی اولادیں اسی
سرزمیں پہ جہنم بساناچاہتی ہیں .
اسلام میں حکم قصاص وحدود
سب سے پہلے میں ایک امرکی وضاحت کردینا مناسب سمجھتاہوں کہ میری تحریریں
اورنگارشات غیر جانبداری اورمعروضی مطالعہ پہ مبنی ہوتی ہیں۔اس کے باوجود
اگر کوئی روشن خیال مسلم یا غیرمسلم مجھے صرف اس لیے تعصب کاالزام دے کہ
میں نے معروضی مطالعہ کے وقت ’’اسلامی عقائد‘‘اورشریعت اسلامیہ کے ناقابل
تبدیل اوراٹل افکارو نظریات سے اپنے ذہن وفکرکوخالی نہیں کیاتووہ مجھے شوق
سے ایک ’’متعصب نثرنگار‘‘یاایک ’’جانبدارعالم ‘‘کہہ سکتے ہیں۔ کیوںکہ اگران
کے نزدیک مذہبی قیودوحددوداوراس کے معتقدات سے آزادہوکرتحقیق اورریسرچ کرنے
کوہی معروضی مطالعہ یاغیرجانبدارانہ تحقیق کہتے ہیں تویہ’’ الحادی
تحقیق‘‘ان جیسے محققین کوہی مبارک ہو!۔ہم ایک لمحے کے لیے بھی اپنے دل سے
اسلامی معتقدات اورقرآنی پیغامات کوالگ کرہی نہیں سکتے ہیں۔ہم تو اسلام کے
وہ خادم اورسپاہی ہیں جنہوں نے عصرحاضرکی تلوار’’قلم و قرطاس‘‘کوہی اپنانے
کا فیصلہ کیاہے۔اوراسی سے اشاعت ِاسلام مقصود اورتبلیغِ دین مطلوب ہے۔
اسلام نے نسل انسانی اوراس کے اعضا وجوارح کی حفاظت کے عظیم مقصدکوپیشِ
نظررکھتے ہوئے ان پرکی جانے والی زیادیتیوں کی سزا’’قصاص‘‘یعنی اسی کی مثل
کو متعین کیااورقراردیاہے۔ اللہ رب العزت ارشادفرماتاہے:
’’یٰاَیَّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ
الْقَتْلیٰ‘‘۔
اے مومنو!تم پرمقتولوں کے معاملے میں مثل کوواجب کیا گیا‘‘۔
(سورۃالبقرۃ:۱۷۸)
اوراس کی حکمتوں کوبیان کرتے ہوئے فرماتاہے:
’’وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ ة يٰاوْلِیْ الْاَلْبَاب‘‘
اے دانش مندو!تمہارے لئے (قتل وجراحات کے معاملے میں) قصاص میں ہی زندگی
ہے‘‘۔(سورۃالبقرۃ:۱۷۹)
لیکن سطح بینوں کوحکم قصاص ایک جابرانہ وظالمانہ اورحقوقِ انسانی مخالف
قانون نظرآتاہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’’موت میں حیات‘‘یہ کیسے ہوسکتاہے…؟؟
مگردانشوری کے سمندرکی غوطہ زنی کرکے صدف نکالنے والے اوران موتیوں کی چمک
سے ساری دنیا کی عقلوںکوخیرہ کردینے والے علمائے اسلام اورمفسرینِ کرام
ارشاد فرماتے ہیں:
’’قصاص ‘‘کے وجودسے ہی نوعِ انساں کی حفاظت وصیانت مربوط ہے۔کیوں کہ جب کسی
شخص کواس امرکاخوف ہوگاکہ کسی دوسرے کی جان لینے کے عوض اسے بھی قتل
کیاجائے گا۔کسی شخصِ آخرکے ہاتھ،پاؤں،کان، ناک،آنکھ وغیرہ اعضا کوضائع کرنے
کی سزامیں اسے بھی ان ہی دردناک سزاؤں کا سامنابہرحال کرنا ہوگاتووہ جوش
وجذبات کی روانی میں بے حس تنکے کی طرح بہنے سے قبل سینکڑوں اور
ہزاروںمرتبہ ’’ترکۂ سلیمانی‘‘کواستعمال کرے گا۔اورکوئی بھی زندہ عقل اسے
جلد مشتعل ہونے نہیں دے گی۔ اوراس طرح قتل وغارت گری، خداکی حسیںمخلوق کے
چہرے پہ تیزاب ڈالنے اورعضوانسانی کوقطع وبرید کرنے کا معاملہ کم ہی نہیں
بلکہ ’’نہیں‘‘کی حدتک پہونچ جائے گااور روئے زمین انسانی خون سے سیرابی کے
باعث بنجراورناقابل کاشت ہونے سے محفوظ ہوجائے گی ۔مگراس کے برخلاف اگر
’’قصاص ‘‘کاحکم نہ ہو اورسرکشی پہ آمادہ شخص کویہ معلوم ہوکہ وہ دوسرے
انسان کی جان لینے کے بعد بھی گلشنِ زیست کی معطرکلیاں(اگرچہ ہلکی خاردارہی
ہوں)چن سکے گا اور ’’ماڈرن انصاف‘ـ‘اس کی زندگی کاضامن ہوگاتوپھراسے معمولی
اور باتوں پہ بھی اپنے ہم نوعوں کوقتل کرنے اوراشتعال کے جذبات میں جھلس
کردوسروں کو آگ میں ڈالنے سے کوئی نہیں روک سکے گا کیوں روکنے والاصرف
قانون ہوتاہے اوروہ بے چارہ تواب بوڑھاہوکروظیفہ خواری کی زندگی گذارنے
یورپ جاچکاہے۔
اسی طرح اسلام نے حفظِ نسل کی خاطرمحصن اور محصنہ (شادی شدہ مرد و عورت)
کوزناکی پاداش میں رجم کرنے کاحکم دیاہے:
’’اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَةُ اِذَازَنَیَافَارْجِمُوْاھُمَا نَکَالًامِنَ
اللھِ‘‘
شادی شدہ مرد و عورت اگرزناکریں توانہیں سنگسار کرویہ سزا (دیگر انسانوں کے
لیے)اللہ کی جانب سے عبرت اورعقال ہوگی ‘‘۔
تاکہ بدکاری کابازاربندرہے تونسلِ انسانی کی صیانت اور مہذب معاشرے کی
تشکیل آسان وسہل تر ہوسکے ۔اسی کے مثل قرآن حکیم نے ملک اورشہریوں کی حفاظت
کی خاطرڈاکوؤں کے قتل اور چوروں کے ہاتھ کاٹنے کاحکم دیاہے جوعقل انسانی
(اورخودبائبل کی روسے درست ہے ۔جیساکہ آگے آرہاہے)کے عین مطابق ہے کیوںکہ
ناقابلِ برداشت سزاؤںکاتصوراوراس کاہمہ وقت خیال ہی مباشرتِ جرم سے روکنے
کاسب سے اہم اورمؤثر ہتھیار ہے۔ عبرت ناک سزاؤں کو دیکھ لینے کے بعدکوئی
بھی ان چیزوںکی طرف اضطرارکے بغیرہرگزمائل نہ ہوگا(جیساکہ آگے خود بائبل کے
الفاظ میںآرہاہے۔)برخلاف اس کے اگرقانون ’’تارِعنکبوت‘‘ سے بنایاگیاہویااس
کی گرفت ڈھیلی ہوتوپھر ’’لاقانونیت‘‘کاہی قانون چلے گااورانہیں کے متحدہ
الائنس کواقتدارکی زریں کرسی نصیب ہوگی جیسے آج کل کے ’’’ماڈرن اورترقی
یافتہ دور‘‘میں ہورہاہے کہ عملاً صدر اور وزیراعظم سے زیادہ اختیارات
’’لاقانونیت‘‘ اور ان کے رضاعی ماں باپ(جرائم پیشہ سیاست دانوں) کوحاصل
ہیں۔
اسلامی حدودوقصاص بائبل کی نظرمیں
روشن خیالی ،اسلاف بیزاری اورجدت پسندی کی مسموم ہواؤں سے سارے جہاں کے
موسم کی بہاروں کوجلا کر’’نمرودی خزاں‘‘کے ’’نادرجلوے ‘‘دکھانے والی اور
قصاص کی وجہ سے (صرف قصاص ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ اوربہت سی چیزوں میں
اسلام کی بے جامخالفت میں دن ورات کے چین وسکوں ختم کردینے والی اور)اسلام
پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم،قرآن و حدیث اور اللہ عزوجل کی ’’احمقانہ
دشمنی ‘‘ خریدکربلاعوض ’’فروخت‘‘ کرنے والی قوم عیسائیوں کی کتابِ مقدس
بائبل بھی ’’حکم قصاص و سزائے موت‘‘سمیت دیگر حدود میں اسلام اورشریعتِ
اسلامیہ کی موافقت کرتی اور عالمگیرآفاقی پیغام قرآن حکیم کے شانہ بشانہ
اوراس کے قدم سے قدم ملاکرچلتی ہوئی نظرآتی ہے۔
عضوکاقصاص عضو اورجلانے کاقصاص جلاناہے
قصاص کے متعلق بائبل میںمعززنبی موسیٰ علیہ السلام کاقولِ صادق(بائبل
میںتین طرح کی آیات ہیں۔ [1]جن کے بطلان میں کوئی شبہ نہیںجیسے ہارون علیہ
السلام کی طرف بت پرستی اورلوط علیہ السلام کی طرف اپنی بیٹیوںسے بدکاری کی
نسبت ،معاذاللہ، صد معاذاللہ ![2]جن کے حق ہونے میںکوئی ریب نہیںجیسے فرعون
سے نجات اوراس کے لشکرسمیت ڈوبنے کاواقعہ۔[3]جن کی حقانیت وبطلان کے متعلق
سکوت ہی اولیٰ ومناسب ہے جیسے حضرت سلیمان علیہ وعلی نبینا الصلوٰۃ والسلام
کے ازواج کی تعداد) ان الفاظ میںمذکور ہے:
The payment will be life for life, eye for eye, tooth for tooth, head
for head, foot for foot, burn for burn, cut for cut, and bruise for
bruise.(Exodus 21/25, published by American Bible Society New york)
جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت، ہاتھ کے بدلے
ہاتھ،پاؤںکے بدلے پاؤں،کاٹنے کے بدلے کاٹنا،زخم کے بدلے زخم اور جلانے
کاقصاص جلانا۔ کیا بائبل کی یہ آیت قرآن حکیم کے مندرجہ ذیل آیت کا ترجمہ
نہیں ہے؟
وَکَتَبْنَاعَلَیْہِمْ فِیْہَااَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ، وَالْعَیْنَ
بِالْعَیْنِ، وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ، وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ،
وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ، وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ.
’’ہم نے بنی اسرائیل پہ تورات میںیہ بات فرض کی ہے کہ جان کے بدلے جان،
آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت
اورزخموںکے قصاص بھی انہیںکے مثل ہیں‘‘(یہ احکام اسلام میںبھی باقی ہیں)۔
(سورۃالمائدۃ:۴۵)
جب بائبل اورقرآن میںحدودوقصاص یکساں ہیںتوپھرکس طرح قرآن دہشت گردی کاداعی
اور بائبل امن کا پیامبربن گیا؟؟
بائبل پہ ایمان رکھنے والے ذرایہ بتائیں کہ انسانوں کو جلانا کیساہے؟کیایہ
حقوقِ انسانی کی محافظت ہے؟ ایک طرف انصاف پسندی اورروشن خیالی کا نعرہ
لگاکرغریب اورپسماندہ ممالک سمیت ترقی پذیرسلطنتوں کوبھی ذہنی اورمعاشی
غلام بنانے کی تگ ودو میں رہتے ہیں اوردوسری طرف اسی بائبل کاترجمہ دنیاکی
ہر زبان میں کرواکے مفت اوررعایتی قیمتوںمیںتقسیم کیاجاتااوراسے نجات دہندہ
بناکرپیش کیا جاتاہے جس میںیہ وحشیانہ احکام ہیں۔یہ دوغلی پالیسی کب تک؟
کیابائبل کی طرح قرآن حکیم میں بھی آدم کی اولادکوزندہ یامردہ جلانے کاحکم
ہے؟
ماں اوربیٹی اگرایک ہی مردسے شادی کریں توتینوںسنگسار کئے جائیں
اگرکسی شخص نے ایک عورت اوراس کی بیٹی دونوں سے نکاح کرلیاتواس کی سزابائبل
میںان الفاظ میں مذکور ہے:
It is not natural for a man to marry both a mother & her daughter, and
so all three of them will be burnt to death.(Leviticus 20/14, Published
by ABS New york)
یہ فطرت کے خلاف ہے کہ کوئی شخص ایک عورت اوراس کی بیٹی دونوںسے نکاح کرے
،(اگرایساہوتاہے تو) ان تینوں کومرنے تک آگ میں ڈالے رکھو‘‘۔
اسلام نے بھی ایسی شادی کوحرام قراردیاہے ۔اللہ عزو جل کاواضح
ارشادہے:’’وَرَبَائِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ‘‘
اورتم پہ تمہاری بیویوں کی بیٹیاںحرام ہیں۔(سورۃ النسا: ۲۳)
لیکن اسلام نے ایسے شخص کے لیےجلانے جیسا سنگدلانہ اور’’دہشت گردانہ‘‘حکم
نہیں دیاہے ۔
زناکی سزاقتل
اورزانیوں کی سزاکاذکرکرتے ہوئے موسیٰ علیہ السلام سرکش قوم بنی اسرائیل
کوحکمِ خداسناتے ہیں:
Take them both to town gate & stone them to death you must get rid of
the evil they brought into your community.Deuteronomy 22/24, Published
by ABS New York
زناکرنے والے مردوعورت کوشہرکے دروازے پہ لاکر پتھر مارتے رہویہاںتک وہ
مرجائیں،تم اسی طرح اپنی سوسائٹی سے اس غلاظت کودورکروجوان دونوں کی وجہ سے
درآئی ہے۔
کیایہ اسلام کے مندرجہ ذیل حکم کے ہم معنیٰ نہیں ہے؟
’’اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَازَنَیَافَارْجِمُوْاھُمَا نَکَالًامِنَ
اللھِ‘‘۔
جب شادی شدہ مردوعورت زناکریںتوانہیں سنگسار کرو،یہ سزااللہ کی جانب
سے(دوسروں کے لیے) عبرت ہے‘‘۔
زنا کی سزاآگ
بائبل میں زناکی ایک عجیب وغریب سزاکابھی ذکر ملتا ہے۔ بنی اسرائیل کے
بادشاہ وپیغمبریہوداہ کویہ خبردی گئی کہ :
Your daughter in law Tamar has behaved like a prostitute & now she is
pregnant, "Drag her out of town & burn her to death" Judha
shouted.(Genesis 38/24, Published by ABS New York)
تمہاری بہونے طوائف ساکام کیاہے اوراب وہ حاملہ ہے،یہ سن کریہوداہ انتہائی
غصے میںچیخ پڑے:’’اسے شہرکے باہر لے جاؤاورجلاکرخاکسترکردو‘‘۔(یہ اوربات ہے
کہ وہ حمل اسی’’مقدس اور پاکباز‘‘ کاتھا۔سفرالتکوین: ۳۸/۱۸۔۳۰،بائبل
کااردوترجمہ بنام’’کتاب مقدس‘‘ مطبوعہ دی بائبل سوسائٹی آف انڈیا،بنگلور۔)
اسلام نے صر ف زانیوں کے لیےیہ حکم دیاکہ:
’’اَلزَّانیةوَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْاکُلَّ وَاحِدٍمِّنْہُمَامِأةجلدة‘‘
زناکرنے والے مردوعورت کوسوسوکوڑے لگائے جائیں‘‘۔ (سورۃالنور:۲)
تواس پر ساری دنیاے عیسائیت چیخ پڑی کہ انسانوں کوکوڑے لگانا انسانیت کے
خلاف اورایک بہیمانہ اقدام ہے مگر یہاں ایک زندہ اورحاملہ عورت کوجلانے
کاحکم دیاگیامگرپھر بھی انسانیت پہ آنچ نہیں آئی۔ علاوہ ازیںقصوراورگناہ اس
زانیہ عورت کا ہے نہ کہ اس کے پیٹ میںپل رہے اس ننھی سی کلی کاجس نے دنیا
دیکھا ہی نہیں۔ جسے یہ بھی معلوم نہیںہے کہ نیکی وبدی کیاہوتی ہے۔ پھر
آخراس بچے کا کیا قصور ہے جواسے کائنات اوراس کے ظالم وشقی باشندوںکودیکھنے
سے قبل ہی آتش نمرودکے حوالے کیا جارہاہے؟کیایہی انسانیت ہے؟ کیایہی انسانی
حقوق کی حفاظت ہے؟
ایک طرف بائبل کے اس اقتباس کوذہن میں رکھیے اور دوسری طرف احادیث وسِیَرکی
کتابوںمیں محفوظ اس واقعہ کومدنظررکھیے اور پھر اپنے زندہ ضمیرپہ ہاتھ رکھ
کر پوچھئے کہ حقوق انسانی کا محافظ کون ہے :
امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں ایک زانیہ عورت
پیش ہوئی ۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس سے زنا کاصدورہواہے توامیرالمؤمنین نے
اسے سنگسارکرنے کاحکم دیا۔ امیر المؤمنین کے ذریعے رجم کاحکم سنادئے جانے
کے بعدحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس عورت کومجلس سے الگ لے گئے اوراس سے
کچھ گفتگوکی۔ واپس آئے اورحضرت عمرسے کہا:امیرالمؤمنین! اس عورت کی سنگساری
کی سزاکچھ مہینوں کے لیے موخرکردی جائے۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
سبب دریافت کیاتوعلی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جواب دیا:یہ عورت حاملہ ہے
۔اورچوں کہ گناہ اس سے سرزد ہواہے نہ کہ اس کے جنین سے لہٰذاسزا
کوموخرکردیا جائے تاکہ سزا صرف اسی کوملے اوروہ جنین اس سے محفوظ رہے۔ یہ
سن کرحضرت عمر نے جوجواب دیاوہ حقوق انسانی کے محافظوں کے لیے ایک مشعل راہ
ہے جس کی روشنی میںانہیں ہدایت ہی ملے گی:
’’لولا على لھلك عمر‘‘۔
آج اگرعلی نہ ہوتے تو(ایک بے قصورکوقتل کراکے) عمر ہلاک ہوجاتے‘‘۔
کیاان تمام امورکے ہوتے ہوئے یہ کہناصحیح ہوگا کہ اسلام کے حدود تعزیرات
انسانیت شکن اور حقوق بشری مخالف ہیں…؟؟
والدین کی نافرمانی کی سزاسنگساری
اورباربارتنبیہ کے باوجودنافرمانی وسرکشی سے بازنہ آنے والے بیٹوںکے متعلق
بائبل نے موسیٰ علیہ السلام کی زبانی حکمِ الہی کوان الفاظ میں نقل کیاہے:
The men of the town will stone that son to death.(Deuteronomy 21/21,
Published by ABS New York)
اہلیانِ شہراس سرکش بیٹے کوپتھروںسے مارمارکرقتل کردیں‘‘۔
اغواکی سزاقتل
اوراغواکاروں کی حدکاذکرکرتے ہوئے بیان فرمایا:
If you are guilty of kidnaping Israelites & forcing them into slavery
you will be put to death to remove this evil from the
community.(Deuteronomy 24/7, Exodus 21/16, Published by ABS New York)
اگرتم اسرائیل کے کسی فردکے اغوا یاانہیںغلام بنانے کے جرم میںملوث پائے
گئے توتم قتل کردئے جاؤگے تاکہ اس برائی سے معاشرہ کی صفائی ہوسکے‘‘۔
مجرموں کی سزاصرف قتل ہے
جرائم پیشہ افراد کے لیےموسیٰ علیہ السلام کی زبانی یہ پیغام دیاگیا:
If a crimnal put to death, and you hang the dead body on a tree, you
must not let it hang tree overnight bury it same day because the dead
body of a crimnal will bring god's curse on the land.(Deuteronomy
21/22,23 Published by ABS New York)
کرمنلوں کوسزاے موت دینے کے بعدان کی لاشوں کوپوری رات درخت پہ جھولتے ہوئے
نہ چھوڑوبلکہ ان کی لاشوں کواسی دن دفن کردو،کیوںکہ ان گناہ گاروں کی نعشوں
کے سبب زمین پرعذابِ الہی نازل ہوتاہے‘‘۔
غلطی کسی کی سزاکسی کو
قرآن حکیم فرماتاہے: ’’لَہَامَاکَسَبَتْ وَعَلَیْہَامَا اکْتَسَبَتْ‘‘
ہرآدمی کوسزاوجزااس کے اپنے اعمال کی بنیادپر دی جائے گی۔(سورۃالبقرۃ: ۲۸۶)
مگربائبل کی دنیامیں سیرکرنے والوں کوایک عجب خار دار اور ’’آدم خورقانون‘‘
نظرآتاہے۔بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا ’’خدا‘‘ فرماتاہے:
If you reject me I will punish your families for three or four
generation.(Exodus 20/5, 34/7 Publishedby ABS New york)
اگرتم میراانکارکروگے تومیں تمہارے خاندان اورگھروالوں کوتین یاچارنسلوں تک
سزادیتارہوںگا‘‘۔
غلطی کسی کی اورسزاکسی اورکو۔شایدکسی شاعرنے اسی طرح کے انصاف کودیکھ کردرج
ذیل مصرعہ کہاتھا:
ع لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
سبت کااحترام نہ کرنے کی سزاقتل
بنی اسرائیل کے لیےسبت کادن نہایت معززومکرم تھا۔ وہ دن اتنامحترم تھاکہ اس
دن مریضوںکاعلاج کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ عیسیٰ علیہ السلام پہ یہودی
ربیوں کے الزامات میںسے ایک الزام یہ بھی تھاکہ وہ سبت کی عظمت کوتوڑتے
ہوئے سبت کے روزبھی لوگوں کوشفارسانی کاکام انجام دیتے ہیں۔ جب سبت کا
معاملہ اتناسخت تویقینااس کی سزابھی اتنی ہی شدیدہوگی۔ ایک مرتبہ ایک ’’بے
چارہ‘‘ سبت کے دن جنگل میںلکڑیاںچنتے ہوئے دیکھاگیا۔ اب آگے کی کہانی خود
بائبل کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
He was taken to Moses, Aron and the rest af the community. but no one
knew what to do with him so he was not allowed to leave, then the Lord
said to Moses: tell the people to take that man outside the camp & stone
him to death. so he was killed just as the Lord had commanded
Moses.(Numbers 15/32-36)
اس شخص کوپکڑکرموسیٰ،ہارون علیہما السلام اورقوم کے بقیہ افراد کی طرف لے
جایاگیا۔ کسی کومعلوم نہیں تھاکہ اس کے ساتھ کس طرح کاسلوک کیاجائے اسی
لیےاسے مقدس جگہ میںرہنے کی اجازت نہیںدی گئی۔ کچھ دیربعدخدانے موسیٰ علیہ
السلام کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا: اس شخص کولے کرخیمہ کے باہرلے جاؤ
اور اس پر پتھر برساتے رہویہاںتک وہ ایںجہانی سے آںجہانی ہوجائے‘‘۔
اس شخص نے صرف لکڑیاںچن لیں اورسبت کے دن اس کام سے بازنہ آیاتواسے
سنگسارکردیامگرپھربھی انسانیت شرمسارنہ ہوئی۔ حقوق انسانی کی حفاظتی
دیوارمنہدم نہ ہوئی جب کہ اس کے اس عمل سے کسی کی بھی جان ومال یاعزت
آبروکوکسی طرح کانقصان نہیں پہنچا مگر اسلام نے حفظ نسل،حفظ مال، حفظ نفس
اور صیانت آبروکے لیےقاتلوں، چوروں،قزاقوںاورزانیوں کے لیےمختلف قسم کی
سزائیں مقررکردیں توان سے حقوق بشری کی پامالی ہوگئی۔ یہ دوہرا معیار کب
تک…؟
سزاؤں کی حکمتیں
اوران تمام سزاؤں کی حکمت وعلت بیان کرتے ہوئے کہاگیا:
Because they must get rid for evil he brought into the community,
everyone in Israel will be afaird when they hear how he was punished.
(Deuteronomy 21/21, Published by ABS New York)
کیوں کہ انہوں نے ان برائیوں کے سبب سماج میں کافی پراگندگی پھیلائی ہے،
(تواس کی تطہیرکاکام بھی انہیں کے خون سے انجام دیاجائے)تاکہ یہ خبرسن
کراور ان کاحشر دیکھ کرتمام اسرائیلی (ان برائیوں کے ارتکاب سے)خوف کھانے
لگے‘‘۔
کیابائبل کایہ اقتباس قرآن حکیم کی اس آیت کامفہوم نہیں ہے:
’’وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حيوةیّٰاُوْلِیْ الْاَلْبَاب‘‘
اے دانشمندو! تمہارے لئے قصاص میں ہی زندگی ہے‘‘۔(سورۃالبقرۃ: ۱۷۹)
اسلامی حدودوقصاص عقل سلیم کی نظرمیں
ساحل پہ بیٹھ کراورظاہرنظرسے دیکھاجائے توحدودوعقوبات عقل مخالف اورہوش
وخردسے بیگانگی پہ دال محسوس ہوتے ہیں۔مرنے والامرچکاہے اب اس کے بدلے میں
قاتل کوقتل کردیاجائے یااسے دس بیس سال کے لیےقیدخانے میںڈال دیا جائے
توبھی وہ زندہ نہیںہوسکے گا۔اب ایسے میںایک انسان کو بلاوجہ قتل کرنا کہاں
کی دانش مندی ہے…؟؟ مگرجب دانشمندی کے سمندر میںاترکرغورکیا جائے تویہ
حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ سطح ساحل سے جوبے کار شے نظرآتی تھی وہ حقیقت میں
سیپ ہے جس میں حفاظت انسانی کے قیمتی موتی پنہاں ہیں۔ اگرقتل و جراحات کی
سزائیں نہ ہوں اورشرارت پسندوں کولوگوں کی عزت وآبراوران کی جان ومال سے
کھیلنے کی چھوٹ دے دی جائے توپھردنیاسے شرافت اورشریف ناپیدہوجائیں گے ۔
اوریہ دنیاصرف امن مخالفوں کا آشیانہ رہ جائے گا۔ آئین وقانون اورصدق
وامانت اورانسانیت و آدمیت نام کی ہر چیزکانام ونشان مٹ جائے گا۔ اوراگرجرم
کی سزا شدیدترین ہوتونظام حکومت بھی چست ہوگااورہرطرف امن امان کا ہی دور
دورہ ہوگا۔
۲۰۰۲ء میں لال کرشن اڈوانی جب ہندوستان کے وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم
دونوں عہدوں پربراجمان تھے ۔ اس وقت دہلی میںعصمت دری کاایک سیلاب سا آگیا۔
پورے ملک میں کافی ہنگامہ برپاتھاتووزیرداخلہ مسٹراڈوانی نے قرآنی حکمتوںکو
سامنے رکھتے ہوئے خواتین کی عصمت پہ ڈاکہ ڈالنے والوں کے لیے حکومت سے
’’سزاے موت‘‘ کاقانون بنانے کی مانگ کی تھی۔
ہندوستان میں گذشتہ تین چار ماہ سے آنرکلنگ یعنی غیرت وحمیت کے نام پرقتل
کامعاملہ کافی زوروںپہ ہے۔سماجی غیرت کے نام پرآئے دن نوجوان جوڑوںکونشانہ
بنایا جارہااوران کاقتل کیا جا رہا ہے۔ ماہ اپریل ۲۰۱۰ء میں پہلے آنر کلنگ
معاملے میں سنوائی کرتے ہوئے ہریانہ کی ایک ذیلی عدالت نے مجرموں کوموت کی
سزا سناتے ہوئے یہ تبصرہ کیا:
اس طرح کے واقعات کوروکنے اورانسانی جانوں کی حفاظت کے لیےاسی طرح کی سخت
سزائیں کارآمدہوسکتی ہیںورنہ ہمارے سماج کے شرپسند عناصر مزیدبے لگام
ہوکرمعاشرے اورملک کا ساراسکون غارت کردیں گے اورقومی نظام درہم برہم کردیں
گے۔
اسلامی آئین وقوانین اورحدود،حکمت، بائبل ،عقل سلیم اور دانش وروں کے عین
مطابق ہیں۔’’اَلْفَضْلُ مَاشَہِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ ‘‘
فضل و کمال وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دیں۔ |