امن کے لئے اپنا فرض ادا کریں

مالک کائنات نے ایک مکمل ضابطہ حیات پر مبنی نظام کو ،ترتیب کے ساتھ نظم و ضبط میں پرو کر اس کائنات کو خلق کیا ہے۔آپ دیکھتے ہیں کہ سورج، چاند، ستارے اور یہ گردش لیل و نہار، باقائدہ ایک نظام کے تحت اپنے مدار میں رواں دواںہیں۔ خدانے جانوروں کو بھی عقل اُن کی ضرورت کے مطابق دے رکھا ہے، جو ازل سے ابد تک اپنے اُس سلسلے کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں۔آج سے ہزاروں سال قبل چیونٹی جو کچھ کرتی تھی آج بھی وہی کر رہی ہیں، اسی طرح شہید کی مکھی بھی اُسی تسلسل کے ساتھ اپنا فریضہ ادا کر رہی ہے۔مالک لایزال نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر دیگر تمام مخلوقات سے افضل بنادیا ہے۔اور انسان کو اتنی عقل عطا کیا ہے کہ انسان اگر درست سمت اس عقل سلیم کو استعمال میں لائے تو سمندر سے لے کر آسمان تک انسان مسخر کرسکتا ہے اور کسی حد تک کر بھی چکا ہے۔پھر پروردگار عالم نے تمام ادیان میں سے دین اسلام کو خود پسند فرمایا اور اپنے محبوب ترین بندے سردار انبیاءحضور پرنورﷺ کے ذریعے ہم تک اسلام پہنچا ،تو اسلام میں داخل ہونے کے حوالے سے اور حضور اکرمﷺ کے اُمتی ہونے کے حوالے سے بھی ہم خوش قسمت نکلے۔خدانے آپﷺ کی وساطت سے قرآن حکیم کی تعلیم سے بھی ہمیں روشناس کروادیا ۔تاکہ ہمارے بندے بٹھک نہ جائیں اور جہنم سے خود کو بچائیں۔ مالک کائنات نے ہرطریقے سے اپنے بندوں کو بچا رکھا ہے اور اس ضمن میں خدا ہر لحاظ سے بری الزمہ ہے۔جبکہ ’انسان ، مسلمانوں کو عین اسلامی اصولوں پر چلنے کے تمام راستے اور ساتھ ذمہ داری بھی سونپ رکھی ہے۔اب اگر ان تمام سہولتوں کے باوجود اگر کوئی اپنا فریضہ ادا نہیں کریگا تو انسانی معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگی۔جب بگاڑ اپنے عروج کو پہنچتا ہے تو انسان ذہنی انتشار کا شکار رہتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا ہے کہ میں اچھا کام کر رہا ہوں یا برا.

میں کسی کو اذیت دے رہا ہوں۔ قتل کر رہا ہوں یہ تمام احساسات سے عاری ہوتا ہے تو اس کا ٹھکانہ یقیناً جہنم ہوتا ہے۔ بات ہورہی ہے فرائض کے حوالے سے اب فرائض میں بھی فرق رکھا گیا ہے۔مثال کے طور پر ایک چرواہا اگر اپنے فرض سے غافل رہا تو اپنے مال مویشی میں نقصان اُٹھائے گا،یا گاﺅں کا کوئی زمیندار اپنے فرض میں کوتاہی کرے گا تو اُس کی زمین خشک رہے گی ساتھ اناج کی قلت پیدا ہوگی۔ان کے مقابلے میں گاﺅں کا نمبردار اپنے فرائض کی انجام دہی سے پیچھے ہٹے گا تو اس گاﺅں کے لوگوں میں ترقی اور اتفاق کا فقدان رہے گا جس باعث اجتماعی طور پر وہ نقصان اُٹھائیں گے۔جب کہ ان تمام کے مقابلے میں کسی اسلامی مملکت کے حکمران اور بااثر سیاسی شخصیات اپنا فریضہ ادا نہیں کریں گے تو پورا ملک انارکی کا شکار ہوگا۔ اچھے برے کی تمیز ختم ہوجائے گی پھر اس پر مستزاد یہ کہ غریب، مظلوم طبقہ پس جائے گا اور لاکھوں کروڑو انسانوںپر مشتمل؛ ریاست ،غربت، بےروزگاری اور کرپشن کا شکاری رہے گی جس کی بناءپر ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب گامزن ہوگا۔ان کے مقابلے میں اگر مذہبی علماء، یا ذمہ داران، اسلامی ، اپنے فرائض کو پس پشت پر ڈال کر اپنامن پسند مروج شدہ نظام کوچلانے کی کوشش کریں گے تو سادہ لوح مسلمانوں کے اذہان میں بھی وہ نقلی نظام مرتب ہوگا تو اس نظام کے بانی جو کچھ فرمائیں گے اس پر یہ حضرات عمل پیرا رہیں گے خواہ انہیں اپنے مسلمان بھائیوں کو تہ تیغ کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس نظام کو دجال کا نظام کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان ممکنہ وجوہات کے پیش نظر اسلام میں صریحتاً کہا گیا ہے کہ جو کچھ حکم دین اسلام دیتا ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔احکام اسلام میں اپناخیال، میرے مطابق، شاید، اس طرح ،یا اُس طرح کی قیاس آرائی کی کوئی گنجائش نہیں،یعنی احکام اسلام کو بلا چوں چرا ماننا اور اس پر عمل کرنا ہماری ڈیوٹی ہے، اگر ہم اس فریضے کو ماننے کے بجائے اپنے طور پر یا اپنے خیالات کو بھی احکام اسلام کا حصہ بنانے لگیں تو یہ اپنے اصل فرض سے دوری اور ملاوٹ کے زمرے میں آتی ہے۔بس یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ کسی بھی اصل چیز میں ملاوٹ کیا جائے تو خرابی کی ابتداءوہاں سے شروع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جہاں جس کو جو ذمہ داری سونپی گئی ہے اُسے قانون و آئین سے خود کو بالاتر نہیں سمجھنا چاہئے خواہ وہ اسمبلی ہو یا عدلیہ یا کوئی اور ادارہ۔ ہم بحیثیت قوم بھی عجیب مخلوق ہیں وہ اس طرح کہ اگر کوئی سہولت ہمیں سرکار کی جانب سے میئسر ہو یا پروردگار کی طرف سے عطا ہو ہر سہولت کو ہمmiss use کرنے کے عادی ہیں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ نہ صرف ان مادی سہولتوں کو غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ اللہ کی پسندیدہ دین اسلام کو بھی اپنی خواہش کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں اس باعث ہم رو بہ زوال ہورہے ہیں۔جیساکہ بات ہورہی تھی کہ اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نہ نبھانے کی وجہ سے ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ساتھ ہم ذہنی طور پر اتنے مفلوج ہوئے ہیں کہ جانوروں سے بھی بد تر نکلے ہیں۔وہ اس طرح کہ اگر چوپائے کسی جنگل میں آپس میں لڑ پڑتے ہیں جب اس دوران کسی وحشی درندے کی آواز سنتے ہیں یا وہ درندہ ان پر حملہ آور ہوتا ہے تو یہ سارے جانور ایک جھرمٹ کی شکل میں بیٹھ جاتے ہیں یہ جانوروں کی حکمت عملی ہے اس طرح نقصان کا اندیشہ بھی کم ہوتا ہے۔ آپ نے جغرافک چینل میں ضرور دیکھا ہوگا کہ اگر کوئی جانور اپنے جھرمٹ سے ہٹتا ہے تو وہ بہد جلد درندوں کا شکار ہوتا ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہم آئے روز ہر قسم کے انسان نما درندوں کا شکار در شکار ہوتے ہوئے بھی آپس میں مل بیٹھنے کو ہرگز تیار نہیں اور ایک ایک ہوکر شکار ہوتے جارہے ہیں۔ خواہ ہم معاشی شکار، سیاسی شکار، تعلیمی شکار، بے انصافی کا شکار، نا اتفاقی کا شکار، یا اپنی جان کا شکار۔جبکہ چند دہشت گرد ایک پوری ریل گاڑی،یا بس میں سوار درجنوں افراد، کسی عبادت خانے یا محفل میں بیٹھے سینکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ متحد ہیں ان کے اندر منفی امور پر بھی ایکا ہے۔ہر نوعیت کی مافیا آپس میںمتحد ہونے کی بنا پر اپنے مکرو عزائم میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔آپ نے شہروں میں دیکھا ہوگا گلی کوچوںفٹ پاتھوں میں جو نشئی لوگ ہیں وہ بھی ایک دوسرے کے دکھ درد میں خلوص کے ساتھ شریک رہتے ہیں ایک روٹی میں، کسی کا دیا ہوا کھانا بھی پانچ چھ نشئی لوگ مل کر کھاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہم اپنے آپ کو کیا کہیہں گے؟ اور ہمارا شمار کس درجے میں ہوگا؟جب ہم اپنے کردار پر غور کرتے ہیں تو واقعی خدا کی رحمت پر یقین مذید پختہ ہوجاتا ہے کہ اللہ کتنا مہربان ہے پھر بھی ہمارے عیبوں کو پوشیدہ رکھا ہے،پھر بھی کچھ مصائب و آلام سے ہمیں بچا رکھا ہے۔جبکہ بعض اہل فکر کا یہی کہنا کہ خدا نے اپنی رسی بہت زیادہ ہی ڈھیلی چھوڑ رکھا ہے ہمیں بہت خوف محسوس ہورہا ہے کہ خدا نخواستہ ،اگر خدا نے اپنی چھوڑی ہوئی رسی کواپنی جانب کھینچنا شروع کیا تو ہمارا کیا حال ہوگا؟ قرائن سے پتہ لگتا ہے کہ ہم ہی وہی لوگ ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ اُ ٹھانے والوں میں سے ہونگئے۔آپ آئے روز دیکھتے ہیں بڑے شہروں میں جو دل ہلادینے والے مناظر، نظر آرہے ہیں۔ حال ہی میں کراچی بلدیہ ٹاﺅں میں آگ سے 300کے قریب جیتے جاگتے انسان دنیا میں ہی جل کر راکھ ہوچکے۔ یہ قدرت کے اشارے ہیں، یہ سیلاب کی بربادی، بارش کی وجہ سے یا کہیں سے پانی چھوڑنے کی وجہ سے یا پانی کی کمی کی وجہ سے یا گرمی کی بناءپر، زلزلوں سے تباہی ،یا ڈینگی یا اُس طرح کی بیماریوں کی وجہ سے آج انسان جن مشکلات کا شکار ہے عبرت حاصل کرنے کا مقام ہے۔ مانا کہ ان مشکلات کا انسان سائنسی بنیادوں پر دفاع بھی کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر نادان انسان یہ نہیں سوچتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے عذاب ہے ہماری نافرمانیوں، اور ہماری ہٹ دھرمی کا خمیازہ ہے ۔ ہم اپنے رب کو نہ صرف بھول جاتے ہیں بلکہ سینہ تان کر وہی کچھ کرتے ہیں جن کے متعلق خدا نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اب بھی کچھ وقت باقی ہے سورج سِوا نیزے پر آنے سے قبل ہمیں اپنے اعمال کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور صدق دل سے توبہ کرنے میں ہی ہماری نجات ہے۔ جہاں تک گلگت بلتستان کے حالات کا تعلق ہے تو یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر یہی سلسلہ باقی رہا تو یہاں دونوں فریقین کو زندہ رہنے کی گنجائش نہیں ہوگی بلکہ کوئی اور مخلوق کا یہاں پر راج ہوگا، جن کو دونوں فریقین نہیں چاہیں گے، مگر سَوائے ذلت کی زندگی گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔ ہم دانستہ یا نادانستہ طاغوت کی ھی خدمت کر کے خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی یا اپنے مسلک کی خدمت کی ہے۔ خدا ہم سب کو اپنا فریضہ ادا کرنے کی اورآپس میں شیرو شکر جبکہ دشمنان اسلام کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہونے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 26000 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More