دنیا بھرمیں عشرہ محرم الحرام
پوری عقیدت و احترام کیساتھ منایا گیا اور شہدائے کربلا کی خدمت میں نذرانہ
عقیدت پیش کیا گیااگرچہ اس اہم موقع پر ہرملک میںسیکیورٹی کے خصوصی
انتظامات کئے جاتے ہیں لیکن اس بار یہ عشرہ جس طرح پاکستان میں گزرااورجس
طرح سیکیورٹی کے نام پر پورے ملک کو سیل کرکے رکھ دیاگیا اس صورتحال نے
ہمیں دنیا میں ایک بار پھر تماشا بنا کے رکھ دیا پاکستانیوں کی اکثریت نے
اس صورتحال کا ذمہ دار رحمٰن ملک کو قراردیتے ہوئے انہیںخوب آڑے ہاتھوں لیا
جس کا اظہار سوشل میڈیا پر بخوبی دیکھاجاسکتا ہے جہاں رحمٰن ملک کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے یہ لطیفہ بارہا گردش کرتا رہاجس کا خلاصہ یوں ہے کہ ''ایک
گاؤں کے لوگ ایک شیر سے بہت عاجز تھے جو ہرروز شام کو آکر انہیں جانی نقصان
پہنچا یا کرتا تھا اور حکومت بھی اس جانب توجہ نہیں دے رہی تھی آخر ایک دن
گاؤں والوں کی سنی گئی اور ایک نئے آنے وزیر صاحب نے گاؤں کا دورہ کیا اور
تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے گاؤں والوں سے اس مسئلے کو
ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کا وعدہ کیا اور اس وقت گاؤں والوں کی خوشی کی
کوئی انتہانہ رہی جب دو تین روز بعد ہی یہ وزیر باتدبیر اپنے ساتھ ایک بڑا
سا پنجرہ لئے گاؤں پہنچ گئے اب گاؤں والے دل ہی دل میںنئے وزیر کی ذہانت
پرانہیں داد دے رہے تھے کہ انہوں نے لازماََ یہ پنجرہ شیر کو پکڑنے کیلئے
تیارکروایا ہے لیکن اس وقت سب لوگوں کی سِٹی گم ہوگئی جب وزیر صاحب نے گاؤں
والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ'' حکومت کو عوام کی جان سب سے زیادہ عزیز ہے
اور یہ پنجرہ بھی اسی مشن کی تکمیل کیلئے بنایا گیا ہے آپ سب حضرات سے اپیل
ہے کہ آج کے بعد آپ سب لوگ اس پنجرے میں رہاکریں تاکہ شیر آپ کو کوئی نقصان
نہ پہنچا سکے '' خیر یہ تو ایک لطیفہ تھا جو اتفاق سے رحمٰن ملک صاحب کی
جانب سے سیکیورٹی کے نام پر انچاس شہروں میں موبائل سروس بند کرنے جیسے
اقدام پر مجھے یاد آیا لیکن اس کے ساتھ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو رحمان ملک
کے اس اقدام کی اس لئے حمائت کررہا ہے کہ اس کے نتیجے میں اس بارعاشورہ
محرم میں امن و امان کی صورتحال خاصی بہتر رہی فرض کریں اگر اس بات کو درست
مان بھی لیا جائے کہ اس موقع پر موبائل سروس بند کرنے کا فیصلہ درست تھا تو
بھی یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیااب ہم اپنی پالیسیاں دہشتگروں کے خوف
کے سائے میں بنائیں گے اور ان مٹھی پر دہشتگردوں کو پکڑنے کی بجائے پورے
ملک کے عوام کو''پنجرے''میں بند کرتے رہیں گے ؟وہ قارئین جو میرے کالمز
باقاعدگی سے پڑھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ کرپشن و
بدعنوانی کو ملک کی سب سے بڑی لعنت قراردیا ہے اور میرے خیال یہ بھی کرپشن
ہی کی ایک صورت ہے کہ عہدے نااہل لوگوں کو دے دئیے جائیں اور اس نااہلی کے
مظاہرے اکثراوقات ہمارے ملک میں دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں اور اس کی تازہ
ترین مثال پاکستان میں آٹھ،نو اور دس محرم کے دنوں کی صورتحال ہے جب
دہشتگردوں کی جانب سے امن و امان تباہ کرنے کی دھمکیوں کے بعد حکومت نے ملک
کے اہم ترین انچاس شہروں میں موبائل سروس بند کرنے کیساتھ ساتھ کئی شہروں
میں ڈبل سواری پر بھی پابندی لگا دی اور اسی پر بس نہیں کی بلکہ کئی علاقوں
کو حساس قراردیتے ہوئے وہاں دفعہ 144اورکئی میں کرفیو تک لگادیا گیا اس طرح
پورے ملک میں ایک جنگ کی سی فضا قائم کردی گئی جس سے کاروبارِزندگی معطل
ہوکررہ گیا حکومت کی جانب سے عاشورہ کے موقع پر کئے گئے ان احمقانہ اقدامات
کے نتیجے میں عوام کوکمیونیکیشن سمیت بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا
پڑااورعوام ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے نظرآئے کہ دوسرے ممالک میں تو
حکومتیں عوام کے مابین روابط بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرتی رہتی ہیں خصوصاََ
اہم ایام پر تو یہ سہولتیں مزید زیادہ ہونی چاہئیں لیکن ہماری حکومت ان
مواقع پر عوام سے یہ سہولت چھین کر دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ
ہمارے ملک میں دہشتگرد اتنے طاقتور ہیں کہ ہم ان سے بچنے کیلئے پورے ملک کو
سیل کرسکتے ہیں یہ تو ایسے ہی ہوا کہ جیسے ایک بار ایک جیلر نے جیل کادورہ
کیا تو وہاں اسے ایک ایساشخص نظرآیاجو بظاہر ایک شریف آدمی معلوم ہوتا تھا
اوراس بات کی اس وقت تصدیق بھی ہوگئی جب جیلر صاحب نے اس کی پروفائل چیک کی
جس کے مطابق وہ شخص آئین و قانون کا پابند ایک معزز شہری تھا اس پر جیلر نے
پولیس سے پوچھا کہ تم نے اس کو جیل میں کیوں بند کیا ہوا ہے تو اس پر پولیس
افسر نے ''حکمت ''سے بھرا یہ جواب دیا کہ حضور بیشک یہ ایک معزز شہری ہے
لیکن گزشتہ روز اس کو کسی نے جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے اور جب اس نے ہم
سے مدد طلب کی تو ہم نے اپنا فرض اداکرتے ہوئے اس کو جیل میں پناہ دے دی
کیوں کہ باہر ہونے کی صورت میں اس بیچارے کی جان کو کوئی نقصان پہنچ
سکتاتھا '' خیرحکومت کے صرف موبائل سروس بند کرنے کے اقدام کے نتیجے میں
جہاںموبائل کمپنیوں کوتین دنوںمیںتقریباََ پندرہ ارب روپے کا نقصان ہوا
وہیں حکومت بھی ان کمپنیوں سے ٹیکس کی مد میںروزانہ حاصل ہونے والے چالیس
کروڑ روپوں سے محروم رہی ۔لیکن اس ضمن میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس
غریب طبقے کو کرنا پڑا جن کا گزربسر ڈیلی ویجز کی بنیاد پرہوتا ہے اور جو
بیچارے روزانہ دیہاڑی لگا کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ۔قصہ
مختصر یہ کہ حکومت کو موبائل فون یا کرفیو جیسے اقدامات کی بجائے تمام
مسالک کے علما ئے کرام کو ایک جگہ اکٹھا کرنااور اتحاد بین المسلیمین کی
کوششوںکو فروغ دینا ہوگاصرف اسی طرح ہی ہم دہشتگردی اوردہشتگردوں کا مقابلہ
کرسکتے ہیںاسکے ساتھ ساتھ دہشتگردی کے واقعات سے نمٹنے کیلئے عوامی تربیت
بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور عوام کی ذہن سازی کرنا ہوگی کہ قرآن نے
تفرقے اور فرقہ واریت کی بجائے ایک اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم
دیا ہے اور یہ تعلیم دی ہے کہ ''ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل
ہے''آخر میں ہماری یہی دعا ہے کہ اللہ ملک پاکستان کوفرقہ واریت اور
دہشتگردی سے بچا کر ترقی کی راہوں پر چلادے۔ |