10سالہ تاج محمد کی عظمت کو سلام

سرد ہوائیں اس کی جسم کو چھو کر گزر رہی تھی اور ان ہوائوں کی وجہ سے اس کا جسم کپکپا کر رہ جاتا پھر بھی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تھال جس میں)ڈونیٹ (پڑے ہوئے تھے کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اس کی آنکھیں سڑک پر تھی اور اپنے بوجھ کو بھی دیکھ رہی تھی اس کے چہرے پر عزم تھا جو اس کے خوبصورت چہرے اور کھلے پیشانی سے جھلک رہا تھا -دسمبر کی سخت سردی میں اس کے پائوں میں جراب بھی نہیں تھی اس کے کپڑے بھی پھٹے ہوئے تھے -سردی کا مقابلہ کرنے کیلئے اس نے لنڈے کی جیکٹ پہنی تھی لیکن وہ بھی سردی کو کم کرنے کا باعث نہیں بن ر ہی تھی -سرد ہوائوں کی وجہ سے اس کی ناک سر سر کررہی تھی-یہ سارا احوال 10سالہ تاج محمد کا ہے جسے راقم نے صبح سویرے ہاتھوں میں )ڈونیٹ(کی تھال اٹھائے روڈ پر کھڑے دیکھا-

دسمبر کی پہلے ہفتے میں صبح سات بجے راقم دفتر جانے کیلئے روڈ کنارے مسافر گاڑی کا انتظار کررہا تھا کہ ایک معصوم بچہ جس کی سر پر )ڈونیٹ (کا تھال تھا روڈ کنارے کھڑا تھا مسافروں کو لے جانے کیلئے ایک سوزوکی آئی اس سے سواریاں اتر گئیں اور خالی ہوگئیں جب اس بچے نے سوزوکی میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اس نے اپنا تھال آگے کردیا کہ کوئی اس کے تھال کو پکڑے تاکہ اسے آسانی سے اوپر آنے کا موقع ملے لیکن سوزوکی میں پانچ چھ بیٹھے مسافر وں میں کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ اس معصوم بچے سے تھال لیتے اور اسے اوپر آنے دے اسی دوران پھر کنڈیکٹر نے آواز لگائی -جانے دے استاد اور سوزوکی روانہ ہوگئی-وہ معصوم بچہ تھال لئے ایسے ہی کھڑا رہا اور دوسری گاڑی کا انتظار کرنے لگا کہ پھر کوئی گاڑی آئیگی اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کا موقع ملے اس سوزوکی کے بعد ایک اور گاڑی بھی آئی لیکن کسی نے اس معصوم کو جس کے کندھوں پر اس سے وزن سے زیادہ بوجھ پڑاتھا کی مدد کرنے کی کوشش نہیں کی-کچھ دیر بعد چنگ چی آئی راقم بھی اس میں سوار ہوگیا تاہم وہ بچہ کھڑا رہامیں نے اسے آواز دی کہ بیٹے ادھر آجائو لیکن وہ کھڑا رہا میں نے دوبارہ اسے آواز دی اور کہا کہ بیٹے آجائو میں کرایہ دے دونگا تو وہ آگیا اور راقم نے اس کے ہاتھ سے تھال لیا اور اسے بیٹھنے کیلئے کہا بعد میں اس کے بیٹھنے کے بعد تھال واپس کردی تاہم اس تھال سے )ڈونیٹ (کے شیرے نے راقم کے ہاتھوں کو گندا کردیا جومعصوم تاج محمد نے دیکھ لیا اور اس نے آنکھیں شرمندگی سے نیچے کرلی لیکن راقم نے اسے کہا کہ اس کو چھوڑو کچھ نہیں ہوا او ر وہ آرام سے بیٹھ گیا -چونکہ سفر زیادہ تھا اوروہ معصوم بچہ اور راقم اکیلے بیٹھے تھے اس لئے راقم نے اس سے گپ شپ شروع کی -

راقم کیلئے دس سالہ بچے کی اتنی صبح سویرے سڑک پرآمداور بازار میں آنا باعث حیرت تھا کیونکہ ایک توسخت سردی تھی اور دوسری اتنی صبح ایک معصوم بچے کو سڑک پر دیکھنا حالانکہ اس کے عمر کے بچے سکول جارہے تھے - سردی کی وجہ سے راقم نے تو اپنے آپ کومکمل کور کیا ہوا تھا اور سخت سردی کی وجہ سے ہر کسی نے اپنے آپ کو گرم کپڑوں چادر سے چھپایا ہوا تھا تاہم اس معصوم بچے کی جسم پر کچھ نہیں تھا بقول اس معصوم محنت کش بچے کی کہ وہ پشاور کے نواحی علاقے خزانہ کا رہائشی ہے اور روزانہ صبح پونے چھ بجے وہاں سے نکل کر پشاور آتا ہے اس کی والدہ اسے جگاتی ہیں معصوم تاج محمد نے بتایا کہ اگر آنکھ جلدی کھل گئی تو میں چائے بھی پی لیتا ہوں ورنہ منہ دھو نے کے بعد پشاور اپنے فیکٹری میں جلدی پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں معصوم تاج محمد کے بقول روزانہ وہ صبح سات بجے سے شام چار بجے تک شہر کے مختلف بازاروں میں جا کر )ڈونیٹ(فروخت کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور اس کے مجھے ایک سو روپے دیہاڑی ملتی ہے -سردی سے ٹھٹھرنے والے اس معصوم بچے نے مزید بتایا کہ چھ ماہ قبل اس کے والد جو کہ سڑک کنارے چھابڑی فروش کیساتھ مزدوری کرتے تھے کو ایک ٹوڈی والے نے سڑک کراس کرتے ہوئے پیچھے سے زخمی کردیا اوروالد کے دونوں پائوں ٹوٹ گئے اور چھ ماہ سے اپنے گھر کا میں خرچہ کرنے کیلئے بازار میں یہی کام کررہا ہوں ڈیڑھ ہزار روپے کے کرائے کے مکان میں رہائش رکھنے والے معصوم محنت کش تاج محمد کا ایک اور بھائی بھی ہے تاہم وہ چھوٹا ہے اور اپنے زخمی والد ماںاور چھوٹے بھائی کی ذمہ داری اس کی ہے اس لئے وہ صبح سویرے سردی میںگھر سے نکل کر آتا ہے اور شام چار بجے تک مزدوری کے بعد گھرجانے کے بعدعلاقے میں واقع مدرسے میں پڑھتا بھی ہے چنگ چی کے مقابلے میں سوزوکی پر بیٹھنے کی وجہ بتاتے ہوئے اس معصوم بچے کا کہنا تھا کہ سوزوکی کا کرایہ پانچ روپے ہوتا ہے جبکہ چنگ چی کا کرایہ دس روپے اس لئے وہ پیسے بچانے کی خاطر سوزوکی میں بیٹھتا ہے معصوم بچے اور راقم میں باتیں ہورہی تھی کہ اس محنت کش بچے کا سٹاپ آگیا اور وہ اپنا بوجھ اٹھائے اتر گیا اور راقم کو سوچوں میں چھوڑ کر چلا گیا-

یہ صرف ایک معصوم بچے تاج محمد کی کہانی ہے پتہ نہیں ہمارے ارد گرد کتنے تاج محمد اپنے معصوم ہاتھوں میں اپنے وزن سے زیادہ بوجھ اٹھائے مزدوری کررہے ہیںکیا ہم لوگ درد صرف اپنے بچوں کیلئے رکھتے ہیں تاج محمد جیسے بچے ہمارے خاندان سے نہیں لیکن یہ اس قوم کے بچے ہیں جس سے ہم سب کا مستقبل وابستہ ہیں کیا ہم اپنے بچوں کو اسی طرح سڑکوں پر مزدوری کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں نہیں لیکن شائد وہ پشتو مثل کہ کہ اگر بے غیرتی پر کسی کے سینگ نکلتے تو آج پتہ نہیں ہمارے سروں پر بے غیرتی کے کتنے سینگ ہوتے کیا اس معصوم بچے کے محلے میں کسی کو توفیق نہیں کہ اس معصوم کے خاندا ن کی کفالت کرے اپنے ارد گرد دیکھ لیں ہمارے محلوں میں کتنے ایسے بچے ہیں اگر ہم اپنے بچوں کیلئے ہزاروں روپے خرچ کرسکتے ہیں تو ان معصوم بچوں کیلئے سینکڑوں روپے خرچ نہیں کرسکتے-ویسے تو ہم سب لوگ پانچ وقت زمین پر مرغ کی طرح جھٹکے مارکرنماز بھی پڑھ لیتے ہیںلیکن ہمیں ان نمازوں سے فائدہ بھی نہیں کیونکہ ہم اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر پڑھ رہے ہیں -کیا ہمیں اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ حقوق العبادپر زیادہ توجہ دینا ہے اللہ تعالی اپنے حقوق کو معاف کرسکتا ہے لیکن اپنے بندوں کے حقوق معاف نہیں کرتا-کیا اسلام میں بچوں کے حقوق نہیں - سچی بات یہ ہے کہ ہم سب منافق ہیں اسلام کے لبادہ اوڑھے ہوئے منافق جنہیں صرف اپنا آپ نظر آتا ہے- خدا کو حاضر وہ ناظر سمجھ کرہر کوئی سوچ لے کہ اگر اس طرح اس کے اپنے بچے سخت سردی میں مزدوری کرے اور وہ خود گھر میں زخمی پڑے ہوں تو کیسا محسوس کرینگے شائد اس طرح ہم لوگوں کی خمیر میں پڑی ذرا سی "غیرت اور انسانیت" جاگ اٹھے-

صوبہ پختون خوار میں اگرواقعی "دودھ اور شہد کی نہریں" بہہ رہی ہوتی تو معصوم تاج محمد جیسے بچے ان نہروں سے اپنے خاندان والوں کیلئے کچھ نہ کچھ رزق تو آسانی سے کما لیتے لیکن "اندھوں کے شہر میں ریوڑھیاں بانٹنے کا کوئی فائدہ نہیں" یہاں قومیت کی بنیادپر "سیاسی دکان داری "کرنے والی "لالٹین والی سرکار" دعوے تو بہت کرتی ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498113 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More