دعوتِ رسوائی

ایک زما نہ تھا جب ٹی وی پر کوئی ٹاک شو لگا ھو تا تو سننے کا بہت ہی لطف آتا تھا۔ میزبان اور مہمان دونوں سے عوام بے شمار معلومات سے مستفید ہوتے تھے۔ میں بزاتِ خود تو اسی زمانے کا نہیں البتہ ٹیکنالوجی کے اس دور نے ماضی میں جھانکنا آسان کر دیا ہے جیسے کہ مختلف ویب سائیٹ ھیں جس میں ماضی کی تقریبا تمام وڈیو مل جاتی ہیں۔ میں نے ایسی ایک ویب سایٹ میں بے شمار پرانے اور نئے اینکرز پرسن دیکھے انکے پروگرام اندازِ گفتگو، شائستگی، مزاح و فنِ کلام کو پرکھا اسکے بعد میں نے جو نتیجہ اخز کیا وہ یقینا موجودہ اینکرز کے حق میں تو نہیں ہے البتہ میں نے جو محسوس کیا اسے بیان کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔

کچھ دن پہلے میں نے رات کے کھانے کے دوران جب ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ایک ٹا ک شو لگا ہوا تھا۔ کافی گرما گرمی ہو رہی تھی۔ پہلے تو مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میزبان کون ہے اور مہمان کون؟ خیر چند ہی لمحوں میں میں ان میں فرق کرنے میں کامیاب ہو گیا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ جو اونچی اونچی آواز میں اور بڑے تلخ لہجے میں بات کر رہا ہوگا وہ میزبان ہوگا اور جو خوف میں مبتلا ہوگا وہ مہمان ہی ہوگا۔ اب ماحول کچھ اسطرح کا محسوس ہر رہا تھا کہ صا حبِ میزبان ، میزبان نہیں بلکہ کسی اسمبلی حال میں بیٹھ کر اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کر رہا ہو! اب مسئلہ صرف میزبان کے حسنِ سلوک تک محدود نہیں رہا بلکہ جنابِ مہمان بھی کم نہ تھے۔ ایک مہمان تو اپنے ساتھی سے اس اندازِ سے مخاظب تھا جیسے ہماری پولیس مجرموں سے مخاطب ہوتی ہے۔

میں یہ عالم دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوا اور سوچنے لگا کہ آخر یہ لوگ نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ ہر شخص اپنے جھوٹ و فریب کو چھپانے اور خود کو سچا ثابت کرنے کیلئے کوئی بھی حد عبور کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ ہر شخص اپنی پارٹی کو بچانے کیلئے لگا ہوتا ہے۔ حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے کوئی راضی نہیں ہوتا جبکہ حقیقت آشکار بھی بو چکی بوتی ہے۔ بحث برائے بحث ہو رہی ہوتی ہے نہ کہ بحث برائے اصلاح ہو۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی مہمانوں کا ایک دوسرے کا دست و گریباں ہونے کی حد کو چھونے کا معاملہ تو کچھ سمجھ میں آتا ہے لیکن میزبان کا یہ رویہ میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ میرا خیال ہے کہ اینکرز کا تو کام ہوتا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو کر انتہائی سلیقہ سے مہمان سے سوال کرے اور اسکے جواب کو عوام کے سامنے رکھے بس۔ لیکن یہاں پر صورتِ حال تو کچھ اور ہی بوتی ہے۔ لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور انکی تذلیل کی جاتی ہے چاہے وہ سچا ہو یا جھوٹا۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ دور میں وہ اینکر سب سے کامیاب تصور کیا جاتا ہے جو اپنے مہمان کو سب سے زیادہ پشیماں کر سکے۔

اصل با ت کا پتہ نہیں چلتا کہ کون کیا کہہ رہا ہے؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا۔ دکھ ہوتا ہے بہت دکھ ہوتا ہے جب ہمارے رہنما ایک دوسرے کے دستِ گریباں ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ دکھ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی اینکر انکے عہدوں اور عمروں کا لحاظ رکھے بغیر انکی اس قدر رسوائی کرے جیسے کہ وہ اس ملک کہ نہیں بلکہ کسی دشمن ملک کے نمائندے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ قصور وار ہیں اور احتساب کے مستحق ہیں تو ان سے پہلے عوام کا احتساب کیوں نہ کیا جائے؟ جو ان لوگوں کو اس قابل بناتے ہیں۔

میں جانتا ہوں کہ موجودہ دور میں جب تک حکمرانوں کی بازپرس نا ہوگی تب تک یہ اپنے وراثتی اہداف پورا کرنے کے خواب سے بیدار نہیں ہوں گے۔ لیکن۔۔۔۔ لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ جس سے مقصد بھی حاصل ہو جائے اور محسوس بھی نہ ہو؟ میرا خیال ہے کہ حسنِ اخلاق سے نہ صرف حقیقت معلوم کی جا سکتی ہے بلکہ اصلاح بھی کی جا سکتی ہے۔ اور مہمان حضرات بوقتِ شمولیت اس بات کو مقدم رکھیں کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے کی بات غور سے سنیں اور دوسرے کی بات کو ذہن نشین رکھیں۔ اور اپنے اندر نفرت کو نکال دیں تا کہ کسی با مقصد عنوان پر بات کرتے وقت ایک بہترین ما حول قائم رہے۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر اس ‘‘دعوتِ رسوائی‘‘ کو اپنا مقدر سمجھیں۔
Saddam Taj
About the Author: Saddam Taj Read More Articles by Saddam Taj: 9 Articles with 7679 views I am nothing.... View More