ماحولیات میں بہتری لانے کیلئے
امیر ممالک نے غریب ممالک کو امداد دینے کے وعدے کئے لیکن تازہ ترین رپورٹس
کے مطابق یہ وعدے مکمل طور پر پورے نہیں کئے گئے۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار
انوائرمنٹل اینڈ ڈویلپمنٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امیر ممالک
ماحولیات میں بہتری کے حوالے سے آٹھ بنیادی وعدے پورا کرنے میں ناکام رہے۔
یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب رواں ہفتے دوہا میں ماحولیاتی
تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے حوالے سے دنیا کے ممالک کے مابین مذاکرات شروع
ہو رہے ہیں۔ امیر ممالک نے 2009ءمیں وعدہ کیا تھا کہ وہ 2012ءکے اواخر تک
ترقی پذیر ممالک کو 30 ارب ڈالر فراہم کرینگے اور یہ بھی کہا تھا کہ یہ نئی
اور اضافی امداد ہو گی۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک نے یہ ضمانت
بھی دی تھی کہ وہ پسماندہ ممالک کو بہتر گورننس، شفافیت کیلئے فوری امداد
دینگے لیکن 30 ارب ڈالر میں سے ابھی تک صرف 236 ارب ڈالر کے وعدے پورے کئے
گئے جبکہ اس میں سے صرف 20 فیصد رقم پسماندہ ترین ممالک کیلئے رکھی گئی
تاکہ یہ ممالک ماحولیات تبدیلیوں کے اثرات سے اپنے آپ کو اور دنیا کو محفوظ
کر سکیں۔ اس 20 فیصد میں نے آدھی رقم امداد کی شکل میں ہے جبکہ بقیہ رقم
قرضہ جات کی شکل میں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ غریب اور پسماندہ ممالک یہ رقم
سود کے ساتھ واپس کرینگے جس کو انہوں نے پوری دنیا کو محفوظ کرنے کیلئے
استعمال کیا اور بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کے باعث پھیلنے والی آلودگی کو
کم کرنے میں خرچ کی کیونکہ دنیا میں زیادہ تر آلودگی ترقی یافتہ ممالک کی
صنعتوں اور گاڑیوں کے باعث ہی پھیل رہی ہے۔ ابھی تک کسی ڈونر ملک نے 67
فیصد سے زیادہ امداد نہیں دی اور 100 فیصد کے ہندسے کو پورا نہیں کیا۔ جب
تک ترقی یافتہ اور امیر اقوام ماحولیاتی بہتری کیلئے رکھی گئی فنانس کے ہدف
کو پورا نہیں کرتے اس وقت تک ترقی پذیر ممالک اس حوالے سے اپنے آپ کو بے
یارو مددگار ہی پائیں گی۔ امریکا کی براؤن یونیورسٹی کے ٹائمز رابرٹس نے
کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو ادھورے منصوبوں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا ہے۔
ناکافی امداد کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے یہ ممالک اپنے منصوبے
مکمل نہیں کر سکیں گے۔ براؤن یونیورسٹی ہی کے ڈیوڈ ڈسپلٹ نے کہا ہے کہ دس
میں سے صرف 2 ڈونر ماحولیات کے حوالے سے پوری امداد دے رہے ہیں جبکہ باقی
اس کو پورا نہیں کر رہے۔ اس حوالے سے ناروے سب سے آگے ہے جس نے پانچ دفعہ
امداد فراہم کی جبکہ امریکا اور آئس لینڈ سب سے پیچھے ہیں جنہوں نے اپنے
حصے میں سے آدھے سے بھی کم امداد دی ہے۔ امداد کے وعدے پورے نہ ہونے سے
ترقی پذیر ممالک کے لئے انتہائی مشکل ہو جائے گا کہ وہ ماحولیات میں بہتری
کے حوالے سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کر سکیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 26
نومبر سے 7 دسمبر تک دوہا میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے اجلاس میں امیر
ممالک کیا کہتے ہیں۔ اس کا ایک راستہ یہ ہے کہ امیر ممالک اقوام متحدہ کے
ماحولیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن کے ذریعے سے ماحولیاتی امداد فراہم کر
دیں۔ دوسری صورت میں یہ بہت مشکل نظر آتا ہے کہ اس سال کے اختتام تک امیر
ممالک 30 ارب ڈالر کی امداد دینے کے وعدے پورے کر سکیں۔ اقوام متحدہ کے اس
کنونشن میں یہ بھی یقین دہانی کرائی جائے کہ یہ امداد بروقت ادا کی جائے گی۔
اسی طرح 2010ءمیں تمام اسے ممالک نے ماحولیات میں بہتری کے حوالے سے امداد
دینے کیلئے اتفاق کیا تھا لیکن اس میں سے صرف 7 فیصد امداد یونیسکو کے
ذریعے سے دی گئی۔ امداد دینے کے حوالے سے امیر ممالک کا وعدوں پر عملدرآمد
کا ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں ہے اور اس بات نے تشویش پیدا کر دی ہے۔ اس لئے
امیر ممالک نے 2020ءتک غریب ممالک کو ہر سال 100 ارب ڈالر رہنے کا جو بڑا
وعدہ کیا ہے۔ اس سے بھی پھر جانے کا ڈر ہے کیونکہ ان ممالک نے گزشتہ برسوں
میں کئے جانے والے امداد کے وعدے پورے نہیں کئے ہیں اور اب 2020ءتک 100 ارب
ڈالر کے وعدے کیسے پورے کریں گے۔ آئی آئی ای ڈی کے سلیم الحق کہتے ہیں کہ
ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کم سے کم وقت میں عالمی ریسپانس اور وعدوں کو
پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے تحت مذاکرات میں ضرورت ہے کہ اس
ساکھ کو بحال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ امیر ممالک کو گزشتہ عرصہ کے دوران
کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے اور غریب ممالک پر ثابت کرنا چاہئے کہ وہ
ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور یہ کہ اس
عالمی چیلنج سے نمٹنے کیلئے وہ ترقی پذیر ممالک کے نشانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ |