آخری فیصلہ

اولاد اچھی ہو چا ہے بُری ہو، خوبصورت ہو یا بدصورت ہو، بے عیب ہو چاہے با عیب ہو الغرض ہر حال میں والدین کیلئے دل کا سکو ن اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ والدین کی ان سے بے شمار امیدیں وابستہ ہوتی ہیں وہ دن رات تگ و دو کر کے اپنے بچوں کیلئے اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہر خوا ہش اور ہر ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کی ضروری و غیر ضروری خواہشات کو پورا کرنے کیلئے والدین کتنی تکا لیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں اس سے شاید ہی کوئی اولاد آگاہ ہو۔

والدین کیلئے اولاد ایک بہت ہی پیارا رشتہ ہوتا ہے۔ جب ہم بات اولاد کی کرتے ہیں تو اس میں بیٹی یا بیٹے کا فرق نہیں ہوتا اور جب یہ فرق ڈالا جاتا ہے تو پھر اولاد صرف اپنے والد کی نسل ہوتی ہے۔ بیٹی یا بیٹے میں فرق کرنے سے مراد یہ ہے کہ انکی پرورش میں فرق کرنا ، انکی آسائش و آرائش میں فرق کرنا، گفتگو میں فرق کرنا اور دوسرے کئی معاملات میں تفریق کرنا۔ اب اسکی مزید وضاحت کر دوں کہ میری مُراد یہ بھی نہیں ہے کہ اگر بیٹے کو موٹر سائیکل لے دی ہے تو بیٹی کو بھی لے دیں، بیٹے کو پینٹ لے دی ہے تو بیٹی کو بھی لے دیں اسی طرح اگر بیٹی کو میک اپ کا سامان لے دیا ہے تو بیٹے کو بھی لے دیں وغیرہ وغیرہ۔

ہم مسلمان ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو برابری کا مستحق قرار دیا ہے اور اسکی تمام حدیں بھی پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہیں۔ اگر ہم زمانہ جاہلیت پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ ان کو منحوس سمجھا جاتا تھا اور ان پر بےشمار ظلم کیے جاتے تھے۔ اور جب ہم موجودہ زمانے کا تجزیہ کرتے ہیں تو بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی اس فرسودہ رسم جا ہلیت کے جرا ثیم باقی ہیں بس یہ اپنی شکل و صورت بدل چکی ہیں یعنی اندازِ جبر تو تبدیل ہوا پر وہی جبرِ قدیم ابھی تک مقیم ہے۔ آج بھی اکثر گھروں میں دیکھا جاتا ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ یہ کسی نہ کسی رنگ میں ہوتی ضرور ہے۔ تعلیم کے معملہ میں ، رہن سہن کے معملہ میں ، جائیداد کے معاملہ میں اور رشتہ کی پسند اور نہ پسند کے معملہ میں یہ ایک واضع فرق محسوس کیا جاتا ہے۔

والدین ایک عرصہ تک اپنے بچوں کے فیصلے کرتے ہیں مثلا تعلیم کا فیصلہ، لباس کس نے کیسا پہنانا ہے؟ کس سے دوستی رکھنی ہے؟ کس کے گھر جانا ہے؟ کیا کھا نا ہے؟ نوکری یا کاروبار کس طرح کا کرنا ہے؟ کس سے بات کرنی ہے کس سے نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ والدین ان تمام باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ہماری اولاد کیلئے کیا اچھا ہے اور کیا بُرا؟ والدین ایک عرصہ تک اپنے بچوں کے فیصلے کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر وہ اپنے بچوں کی زندگی کے فیصلے میں اگر کوئی کو تاہی کر جائیں تو اسکا خمیا زہ تمام عمر اولاد کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات والدین کے اپنے بچوں کی ازدواجی زندگی کے متعلق کئیے گئے فیصلے درست ہوتے تو بعض اوقات اس کے بر عکس ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ والدین کی حتیٰ الامکان یہی کو شش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ہمیشہ خوش دیکھیں اور اسی کاوش کو پورا کرنے کی غرض سے والدین بچوں کی پسند اور نہ پسند کے مذہبی حق کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جس کے سبب بچوں میں نفرت ، احسان فراموشی اور بغاوت کا عنصر جنم لیتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ تاثرات ابھر کر سامنے آجاتے ہیں تو دفعہ اوقات یہ لبِ بام ہی رہتے ہیں۔

یہ ایک اہم، نازک اور ضروری فیصلہ ہوتا ہے۔ اس کیلئے ہر اولاد کو اپنے والدین کی عدالت میں کھڑا ہو کر اس فیصلے کو سننا پڑتا ہے جو کہ انکی زندگی کی خوشی کا ‘‘آخری فیصلہ‘‘ ہوتا ہے جس میں کو تاہی کی کو ئی گنجائش نہیں ہوتی۔ آللہ سب والدین کو بہتر فیصلے کرنے کی تو فیق دے۔ آمین!
Saddam Taj
About the Author: Saddam Taj Read More Articles by Saddam Taj: 9 Articles with 7678 views I am nothing.... View More