ان دنوں ہندوستانی اور عالمی
میڈیا میں پاکستانی ہندو خاندانوں کی ہندوستان روانگی اور واپس ناں آنے کے
اعلان کا بہت چرچا ہے.ہندوستانی حکومت اور میڈیا پاکستان پر یہ الزام عائد
کرتے ہیں کہ پاکستان میں ہندو برادری کے ساتھ بہت ظلم و ستم ھو رہے
ہیں.پاکستانی ہندو بے یار و مددگار ہونے کی بناء پر اپنی زندگیوں کے بچاؤ
کی خاطر ہندوستان کا رخ کر رہے ہیں.
یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان میں کبھی کسی ہندو کے ساتھ کوئی زیادتی
نہیں ہوئی.کسی بھی مملکت یا ریاست میں ہمیشہ جرائم بھی ہوتے ہیں اور مجرموں
کی سرکوبی کے لے ہمیشہ انتظامیہ بھی سرگرم رہتی ہے.یہاں سوال یہ اٹھتا ہے
کہ کیا ہندوستان میں کبھی کسی مسلمان کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی.ہندوستان
میں تو سانحہ گجرات جیسا وہ المناک واقعہ رونما ھو چکا ہے کہ جس میں ہزاروں
مسلمانوں کو انتہائی بیدردی سے ہلاک کیا گیا.مسلمان عورتوں کی عزتوں کو
پامال کیا گیا.ایسی ظلم و بربریت کی مثال جہاں بھر میں کہیں نہیں ملتی.اگر
پاکستان میں کوئی جنونی مذہبی گروپ کسی مندر کو مسمار کرتا ہے تو پاکستانی
حکومت اور عوام نے ہمیشہ اس عمل کی مذمّت اور مخالفت کی ہے. لیکن کیا
ہندوستان میں کبھی کسی مسجد کو شہید نہیں کیا گیا.
اگر کچھ باتوں کا باریکی سے بلترتیب مشاہدہ کیا جاتے تو بخوبی اندازہ لگایا
جا سکتا ہے کہ حقیقت کیا ہے.کچھ عرصہ قبل ہندوستان کے صوبہ گجرات کی مذہبی
انتہا پسندی کے طور پر پہچانے جانی والی حکومت نے مرکز سے مطالبہ کیا کے ان
٩٠٠ پاکستانی شہریت رکھنے والے ہندوؤں کو ہندوستانی شہریت دی جاتے جو گجرات
میں مقیم ہیں.یہ لوگ ١٩٦٠ سے ٢٠٠٥ تک مختلف اوقات میں پاکستان سے ہندوستان
آئے اور وہیں آباد ھو گئے.گجرات حکومت کے اس مطالبے سے ایک تو یہ راز افشاء
ہوتا ہے کہ پاکستانی ہندو پچھلے ٤٠ سال سے ہندوستان میں آباد هونے کی خوائش
رکھتے ہیں.ان کی ہندوستان روانگی کی وجہ پاکستان کے مجودہ حالات نہیں بلکہ
اپنے ہم مذہب لوگوں میں بسنے کی خواہش ہے. اور اس بات کا دوسرا پہلو یہ ہے
کہ گجرات حکومت کا یہ مطالبہ دار اصل پاکستانی ہندوؤں کو پاکستان چھوڑ کر
بھارت آنے کا دعوت نامہ بھی تھا.
اس مطالبے کے کچھ عرصہ بعد ہی صوبہ راجھستان کی حکومت نے بتایا کے پاکستان
سے آئے ھوئے ٦٠ خاندان واپس پاکستان جاتے سے انکار کر رہے ہیں.اس بات کو
انٹرنیشنل میڈیا پر انتہائی گریہ زر حالت میں پیش کیا گیا.پاکستانی ہندوؤں
نے رو رو کر عالمی میڈیا کو بتایا کہ ہم پاکستان میں انتہائی مشکل زندگی
بسر کر رہے ہیں اور وہاں واپس نہیں جانا چاہتے.اس کے بعد پاک و ہند کی
مختلف سرحدوں سے پاکستانی ہندوؤں کی انڈیا روانگی شروع ھو گئی.ہندوستانی
حکومت کے اس پراپگنڈہ کی وجہ سے صدر پاکستان کی جانب سے پاکستانی ہندوؤں کو
درپیش مسائل کے حل کے لیے اک کمیٹی بھی بنائی گئی.
سکھ کونسل کے چیئرمین رمیش سنگھ جو کے ان دنوں بھارت میں ھی مقیم ہیں.انھوں
نے بھارتی میڈیا سے بات کرتے ھوئے یہ اعلان کیا کہ پاکستانی ہندوؤں کے سب
الزامات جھوٹ پر مبنی ہے.پاکستان میں موجود ہندو اور سکھ مذھب کے لوگ اپنی
مذہبی اور سیاسی آزادی سے محضوض ھو رہے ہیں.اور ان کو کوئی مشکل درپیش
نہیں.
اس تجزیے سے یہ ثابت ہوتا ھے کہ جس طرح بھارت پاکستان کو نقصان پہچانے کے
نت نئے طریقے نکالتارہتا ہے.کبھی پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر واقعہ
اپنے قونصل خانوں کے ذریعے دہشت گردوں کی امداد کر کے اور کبھی بلوچستان
میں حالات خراب کرنے کے لیے انتہا پسندوں کی سرپرستی کر کے.اسی طرح
پاکستانی ہندؤں کی ہندوستان روانگی ان کو در پیش نام نہاد مسائل کی وجہ سے
نہیں. بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے عالمی میڈیا میں پاکستان کے
وقار کو مجروح کرنے کی اک سازش ہے. |