15نومبر 2012کی حسین دوپہر کو
میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن لوئر مال کیمپس، لاہورمیں ایم اے انگلش کے نئے
آنے والے طلباءکے لئے سنیئر طلباءکی جانب سے ایک ویلکم پارٹی میں شریک تھا۔
وہ کیا دن تھا جب ہر کوئی اپنے موڈ میں نظر آرہا تھا۔ ایک عجیب سماں تھا،
شور شرابا تھا۔ لڑکے تو ایک طرف لڑکیاں بھی سج سنور کر بیٹھی تھیں۔ پروگرام
کا آغاز روایتی طریقے سے تلاوت قرآن پاک سے ہوا جبکہ اساتذہ کرام کے مزاحیہ
تعارف کے بعد ایک ڈانس کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔یونیورسٹی کے رنگیلے
طلباءوطالبات نے "شیلا کی جوانی" نامی گانے میں اپنے فن کا اظہار کیا۔ میری
آنکھیں زندگی میں پہلی بار ایسا منظر دیکھ رہی تھیں کہ والدین کتنے شوق و
ذوق سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجتے ہونگے، مگر یہاں تو ماحول ہی تبدیل
تھا۔ لڑکوں کے ساتھ ساتھ ایک موٹی سی لڑکی بھی برابر میں ڈانس کر رہی تھی۔
اتنے میں ایک حافظ صاحب ماشاءاللہ داڑھی چہرے پر سجائے ڈانس میں شرکت کرنے
آتے ہیں۔ اور یہیں بس نہیں ہوتی ساتھ ہی ایک برقعہ پوش نوجوان اپنے آپ کو
شیلا ظاہر کرتے ہوئے ڈانس میں حصہ لیتا ہے۔ مجھے اس پر کوئی دکھ نہیں کہ وہ
ڈانس کیوں کر رہا ہے،،، دکھ تو اس بات پر ہے کہ اس نے شریف عورتوں کے برقع
یعنی حجاب کو بدنام کیوں کیا ہے۔۔۔
""سیکولرزم سے حاجیوں نمازیوں کی تک""
چلئیے اب ذرا جدید حاجیوں نمازیوں کی طرف بھی رخ کرتے ہیں جنھوں نے اسلام
کا حقیقی تصور ہی بدل ڈالا۔۔۔۔ 6دسمبر 2012کو یویورسٹی میں حسن قراءت و نعت
پروگرام کا اہتمام کیا گیا ۔ ہر کوئی شلوار قمیض میں ملبوس سر پر ٹوپیاں
سجائے نظر آرہا تھا۔ حتٰی کہ وہ لڑکیاں جو کل ڈانس کر رہیں تھیں آج سکارف
اوڑھے نظر آرہی تھیں۔ اسی موقعہ پر مجھے انگلش ادب کے مشہور شاعر جیفری
چوسر ےاد آگئے، جو چودھویں صدی عیسویں کے اپنے زمانے کی بڑے ہی معتدلانہ
انداز میں منظر کشی کرتے ہیں۔ اس زمانے میں چرچ کلچر عام تھا اور چرچ اپنی
کرپشن کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ اس زمانے میں پادری لوگوں کے گناہ رشوت لے
کر معاف کر دیتے تھے گویا کہ اپنی مرضی کا دین بنایا ہوا تھا۔۔۔ بالکل اسی
طرح ہماری قوم بھی شاید یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ ایک دین محفل نعت میں بڑے ہی
شریف اور معصوم بن کر بیٹھنا ہمارے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا۔ کیا ہمارا
دین صرف ایک دن کا محتاج ہے؟؟ ایسا ہرگز بھی نہیں ہے ہمیں اپنے آپ کو قران
وسنت کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے نہ کہ سیاسی مولویوں کی طرح صرف اسلام کا
نام اپنے فائدے کی خاطر استعمال کرنے کی۔
اگر یونیورسٹی میں ہر کوئی میچور ہوتا ہے تو پھر آئے روز نئے چاند کیوں
نکلتے ہیں؟ آئے روز جنسی زیادتی کی خبریں اخباروں کی زینت کیوں بنتی ہیں۔
حقیقت ایک ہی ہے جب آپ مخلوط تعلیمی ماحول فراہم کریں گے اور اس میں ڈانس
بھی کروائیں گے تو پھر نتیجہ یہی نکلے گا،،، پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ
نوجوان نسل برباد ہوتی جا رہی ہے؟؟
آخر میں ذکر کرتا چلوں ایک خوبصورت پردہ نشیں خاتون کا جس نے حسن قراءت و
نعت پروگرام میں کمپیئرنگ کے فرائض سر انجام دئیے۔محترمہ سیدہ انعم نے حجاب
اوڑھ کر سٹیج ہوسٹنگ کی اور کمال کر دیا۔۔ ثابت کر دیا کہ ضروری نہیں کہ
چہروں کی نمائش کر کے ہی پروگراموں میں حصہ لے کر ملک و قوم کی خدمت کی جا
سکتی ہے بلکہ حجاب اوڑھ کر بھی جدید تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔
کچھ لوگ اسلام کو ایک تنگ دین سمجھتے ہیں۔ دراصل اسلام ایک معیار کا نام ہے۔
اخلاق سے گری حرکتوں کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتا۔ سیدہ انعم نے برقعہ پوش
عورتوں کے لئے بھی ایک پیغام چھوڑا ہے، کہ ضروری نہیں کہ ترقی کی منازل صرف
جسموں کی نمائش کرکے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ بلکہ اسلامی حجاب اوڑھ کر بھی
اسلام کے مطابق جدید تقاضوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔
والسلام حافظ حفیظ الرحمٰن |