ماسٹر اور منسٹر کو ہم مرتبہ کرنے کا جاپانی تعلیمی ماڈل

پاکستان میں سب سے زیادہ اہمیت اور توجہ طلب معاملہ پرائمری تعلیم ہے لیکن سب سے بُری حالت پرائمری تعلیم کی ہے حتیٰ کہ پرائمری سے میٹرک تک سرکاری سکولوں میں سیاسی و سفارشی بھرتیوں کے کلچر نے دیہاتی علاقوں میں تو تعلیم کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ معیار تعلیم اور معیاری تعلیم کا لفظ تو محض سننے کےلئے رہ گیا ہے۔ دیکھنے کے لئے یہ نایاب معیار اور معیاری اساتذہ نہیں ملتے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کا شعبہ زیادہ تر وہ لوگ اختیار کر تے ہیں جن کو کوئی اور نوکری نہیں ملتی۔ اس کے نتیجے میں تعلیم جو پیشہ پیغمبری ہے محض چھوٹے درجے کی نوکری چاکری رہ گئی ہے جس کی بنیادی وجہ استاد کو بھی وہ مقام و مرتبہ نہ دینا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ جاپان میں پی ایچ ڈی کے حامل اساتذہ پرائمری تعلیم کے پاسبان و نگہبان ہوتے ہیں کیونکہ بچوں کی ستر فیصد شخصیات پرائمری تعلیم کے دوران بن یا بگڑ چکی ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برباد اور تباہ حال جاپان کے ماہرین حکمت عملی نے نئی جاپانی قوم تشکیل کےلئے اساتذہ کو حقیقی مقام و مرتبہ دینے کا فیصلہ کیا جس کے تحت ماسٹر اور منسٹر کو ہم مرتبہ کر دیا گیا جس کے نتیجے میں جاپان دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی عظیم اقتصادی طاقت بن گیا جبکہ ہمارے ہاں سیاسی جلسوں میں اساتذہ کی شرکت یقینی بنانے کے لئے ان کی حاضریاں بھی لگائی جاتی ہیں۔ منسٹر ماسٹر کو چھوٹے درجے کا ملازم سمجھتے ہیں۔ اس لئے اس سوال کا جواب کوئی مشکل نہیں ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام اور تعلیمی معیار ترقی کے بجائے تنزل کا شکار کیوں ہے؟ پاکستانی بچوں کی بھاری اکثریت 65 سال بعد بھی مناسب تعلیمی سہولتوں سے کن وجوہ کی بناءپر محروم ہے؟ اساتذہ پڑھانے اور طلبہ پڑھنے میں ماضی کی طرح دلچسپی کیوں نہیں لیتے؟ اتنی طویل مدت میں گزرجانے کے باوجود ہمارے ملک میں شرح خواندگی وشرمناک حد تک کم کیوں ہے؟ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ علم ہی قوموں اور معاشروں کی ترقی اور زندگی کے ہر میدان میں مسابقت کی کنجی ہے۔ اس لیے پاکستان میں معیار تعلیم اور نظام تعلیم کی جلد از جلد بہتری کے لیے اقدامات ہماری بقا اور سلامتی کا ناگزیر تقاضا ہیں۔ اس کے لیے سب سے بنیادی ضرورت حکومتی سطح پر حقیقی عزم اور ارادہ ہے۔ اسی ملک میں ایک وقت وہ تھا جب سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار نہایت بلند ہوتا تھا ۔ مشنری اسکولوں اور کالجوں وغیرہ کی شکل میں مہنگی فیسوں والے کچھ نجی تعلیمی ادارے بھی موجود تھے لیکن پوزیشنیں عام طور پر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے طالب علم ہی حاصل کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ابھی جنرل مشرف کے دور آمریت ، بہت سی خرابیوں کے باوجود تعلیمی میدان میں حکومت کی کارکردگی بہت بہتر تھی۔ ڈاکٹر عطاالرحمن نے وفاقی وزیر تعلیم کی حیثیت سے اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور اس کے معیار کی بہتری کے لیے بہت کم وقت میں ایسے موثر اقدامات کیے تھے جن کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جاتا تھا۔ ذمہ داران حکومت کا یہ کہنا کہ تعلیمی میدان میں بہتری کے لیے تنہا حکومت کی کوششوں سے کچھ نہیں ہوسکتا جب تک معاشرہ بھی اپنا بھرپور کردار ادا نہ کرے، ایک حد تک درست ہوسکتا ہے مگر معاشرہ حکومت کے کسی اقدام کیلئے اسی وقت اپنا بھرپور تعاون پیش کرتا ہے جب اسے حکومت اپنے اقدامات میں پر عزم اور مخلص نظر آتی ہے اور اس کی کوششوں کے کچھ محسوس نتائج بھی نظر آرہے ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم سمیت کسی بھی معاملے میں عام طور پر یہ صورت نہیں ہے۔ ہمارا حکومتی نظام بالعموم کرپشن کی دلدل میں اس طرح دھنسا ہوا ہے کہ عوامی بہتری کے لیے حکومتی کوششوں کے بھاری بھرکم دعوے عوام کی نگاہ میں قطعی معتبر نہیں رہ گئے ہیں۔اسلئے اگر حکومتی سطح پر معیار تعلیم اور نظام تعلیم کو بہتر بنانے اور تعلیم کو فروغ دینے کا واقعی کوئی احساس پایا جاتا ہے تو اس سلسلے میں مناسب غور و فکر کے بعد کچھ بنیادی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بیک وقت کئی تعلیمی نظاموں کا جاری رہنا قومی سطح پر تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔ امراءاور اعلیٰ متوسط طبقے کیلئے لاکھوں روپے سالانہ فیس لینے والے تعلیمی ادارے ہیں جبکہ عام آدمی کے بچے ان سرکاری اسکولوں میں جانے پر مجبور ہیں جہاں تعلیمی سہولتوں کا مکمل فقدان ہے۔ اشرافیہ کی اولادیں کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی اب عام طلبہ کے ساتھ یکجا نہیں ہوتیں۔ اندرون ملک یا بیرون ملک مہنگے تعلیمی ادارے ان کا انتخاب ہوتے ہیں۔ اس طرح سماجی خلیج مسلسل وسیع ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا حکومت کی جانب سے دانش اسکولوں وغیرہ جیسے تجربات سے زیادہ توجہ روایتی سرکاری اسکولوں کی مکمل بحالی پر دی جانی چاہیے اور معاشرے کے تمام طبقوں کے لیے یکساں نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنانا چاہے۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 14 Articles with 9294 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.