14 اگست 1947 جب پاکستان بنا اور
16 دسمبر 1971 جب پاکستان ٹوٹا ،مغربی پاکستان پاکستان رہ گیا اور مشرقی
پاکستان بنگلہ دیش بن گیا یعنی ایک آزاد ملک نے آزادی حاصل کی، بنگالیوں نے
1947 میں آزاد ہوکر 1971 میں دوبارہ آزادی حاصل کی۔ معاملات یہاں تک پہنچنے
کی کئی وجوہات تھیں،حقوق و فرائض کی جنگ بھی اور اختیارات اور نظراندازی کا
تنازعہ بھی ۔ جس کی بنیاد دانستگی یا نادانستگی میں رکھ دی گئی تھی لیکن اس
معاملے کو کچھ یوں ہوا دی گئی کہ اُس نے نفرت کی شکل اختیار کرلی اور نفرت
کو اس حد تک ہوا دی گئی کہ ملک دولخت ہو گیا یا کر لیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں
کو جب ہوش آیا تو تب تک معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے بلکہ حکمرانی کی جنگ
اس دوران بھی جاری رہی اور حسب معمول سانحے کے بعد تحقیقات بھی ہوئیں رپورٹ
بھی مرتب ہوئی اور بس۔ گناہ گار کو کوئی سزانہ ملی اور تلافی تو خیر ممکن
ہی نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان میں دشمن اندرونی بھی تھے لیکن بیرونی عناصر نے
ان اندرونی عناصر کو بیرونی کمک اور امداد فراہم کی بلکہ ان کو اپنا آلہ کا
بنایا گیا اور اِن سے دوہرا کام لیا گیا اِن ہی کے ذریعے ملک توڑا گیا اور
اِن ہی کے ذریعے پاکستان کو بدنام بھی کیا گیا۔ اُس وقت جو حالات تھے اُن
میں یہ کہنا کہ صرف گناہ گار ہی مارے گئے ہو نگے بھی خلاف حقیقت ہے لیکن
بیرونی ذرائع سے جو تعداد اور چنگیزیت بتائی جا رہی ہے وہ توحقیقت کے قریب
بھی نہیں۔ تین لاکھ ہلاک شد گان کو غیر جانبدار محقق شرمیلا بوس نے پچاس
ہزار بتایا ہے یہ تعداد بھی کم نہیں اسے بھی نہیںہونا چاہیے تھا لیکن جس بے
دردی سے بنگالیوں نے مغربی پاکستانیوں کا قتل عام کیا اُس کے بہت سے چشم
دید گواہ بلکہ متاثرین آج بھی زندہ ہیں اور بہاری تو آج بھی بنگلہ دیش میں
رنج والم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش آج جب یہ بات کرتا ہے کہ
پاکستان اُس سے معافی مانگے تو وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان
پاکستانیوں کے خون کا حساب بھی ضروری سمجھے جن کے قتل عام کو کسی میڈیا نے
کوریج نہ دی لیکن مکنی باہنی اور رانے اُنکے خون کو بہانا کارِ ثواب جانا۔
را نے اپنے قیام کا مقصد بڑی تندہی سے پورا کیا اور وہ ملک جس کے وجودکو
بھارت نے پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا تھا اُسے توڑ کر ہی چھوڑا ۔ جس کا
سب سے بڑا ثبوت وہ ایوارڈ ہے جو اس جُرم کو کرنے والی بھارتی وزیراعظم
اندراگاندھی کو بنگلہ دیش نے دیا ۔ بنگلہ دیشی حکومت نے اپنے 150 بیرونی
دوستوں کو بنگلہ دیش کے قیام کے سلسلے میں ان کی خدمات کے صلے میں ایوارڈ
دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے پہلے ہی مرحلے پر پہلا ایوارڈ اندراگاندھی کو
دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ دراصل وہ ہی بنگلہ دیش کی بانی ہے اور بنگلہ
بندھو شیخ مجیب الرحمن اس کا ایک کارندہ۔ وہ جس مدد کے بہانے وہ اپنی افواج
کو مشرقی پاکستان میں لائی تھی اسی مدد کی آڑ میں رانے بنگالی، پنجابی،
پٹھان اور بلوچیوں کا قتل عام کیا ۔ شیخ مجیب الرحمن کو جس طرح شہہ دی گئی
وہ بھی راجیسی مکار ایجنسی کے لیے ہی ممکن تھا اُس کے اِس کام کو ہماری
حکومت اور سیاستدانوں نے بھی آسان کیا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ آج بھی حالات
کچھ زیادہ مختلف نہیں ،ہم آج بھی قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دے رہے
ہیں ۔ را، مکتی باہنی، بھارتی حکومت ،بنگلہ دیش کے فارن فرینڈز جن میں کچھ
پاکستانیوں کا نام بھی لیا جا رہا ہے سب اس سانحے کے ذمہ دار ہو نگے لیکن
اس سے سبق سیکھنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ آج جب پاکستان کو ہر طرح سے کمزور
کرنے کے لیے ہر طرح کی طاقتیں بر سرپیکار ہیں کبھی پاکستان کے بارے میں
منفی اور شرانگیز رپورٹیں شائع کی جارہی ہیں اور کبھی خدانخواستہ اس کا
شیرازہ بکھر جانے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں، بلوچستان میں بھارت اور را
آج بھی سرگرم عمل ہے اور قبائلی علاقوں میں سی آئی اے اور امریکہ محوِفساد
ہے اور یہ طاقتیں ایک دوسرے کی دست و بازوبنی ہوئی ہیں، طالبان کے نام سے
بھی معلوم نہیں کون کونسی طاقتیں دہشت گردی میں مصروف ہیں، لیکن ہم پھر بھی
علاقیت اور فرقہ واریت کے فتنوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ علاقے کے نام پر، مذہب
کے نام پر، فرقے کے نام پر قتل عام روز کا معمول ہے۔ پنجابی، پٹھان سندھی
اور بلوچی اب موجود ہیں اور بہ زور و شور مصروف عمل بھی ہیں تو آج بھی اچھی
توقع کیسے رکھی جائے۔
16 دسمبر ہماری تاریخ کا یوم سیاہ تو ہے ہی لیکن اگر اس دن کو ہم بجائے یوم
سیاہ کے بطور یوم احتساب منالیں سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ
لیں، ایک زبان دوسری زبان کو اور ایک صوبہ دوسرے صوبے کو حقیر نہ جانے ،وسائل
بھی سانجھے ہوں ،دکھ اور درد بھی مشترک تو پھر ہی ہم دشمن کے وارسے خود کو
محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس دن اگر ہم یہی کر لیں کہ اپنے اندر موجود دشمنوں کی
پہچان بھی کر لیں اور بیرونی دشمنوں سے بچائو کی تدبیر بھی تو پھر ہم کہہ
سکتے ہیں کہ ہم نے 16 دسمبر 1971 کی سیاہ تاریخ سے سبق حاصل کی لیا ہے اور
آئندہ ایسے سانحات و حادثات سے قوم کو کبھی نہیں گزر نا پڑے گا۔ اللہ
پاکستان کی حفاظت کرے،آمین۔ |