کسی ریاست میں شہریوں کی جان و
ما ل کا تحفظ، امن و امان کی بحالی، عدل و انصاف کی فراہمی اور بنیادی حقوق
کی پاسداری وغیرہ معاشرتی نظم و ضبط کے زمرے میں آتے ہیں۔ ریاست میں جس
قدران عوامل کی صورتِ حال بہتر یا ابتر ہوتی ہے اتنا ہی معاشرتی نظم و ضبط
معیاری یا غیر معیاری تصور کیا جاتا ہے۔ یعنی کسی ریاست کی کارکردگی کا
انحصار اس کے قائم کردہ نظم و ضبط پر ہوتا ہے کیونکہ معاشرتی نظم کے ذریعے
ہی وہ عدل و انصاف فراہم کرتی ہے۔شہریوں کے جان ومال اورعزت و آبرو کی
حفاظت کرتی ہے۔بہتر منصوبہ کرتی ہے، افراد کو تعلیم و صحت کی بہتر سہولتیں
فراہم کرتی ہے۔معاشی ترقی کا انتظام کرتی ہے۔نیز اچھے معاشرتی نظم وضبط کی
موجودگی میں آزادی، مساوات، رواداری جیسی جمہوری روایات فروغ پاتی ہیں۔
بدعنوانی اور جرائم میں کمی آتی ہے۔بہتر نظم و ضبط کی بنیاد پر تشدد و دہشت
گردی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ تمام افراد کو ترقی کے یکساں مواقع مہیا کئے
جاسکتے ہیں۔افراد کا معیار زندگی بلند کیا جاسکتا ہے انہیں تمام بنیادی
حقوق مہیا کئے جاسکتے ہیں۔جبکہ معقول معاشرتی نظم و ضبط کے مفقود ہونے پر
افراد کی جان ومال غیر محفوظ رہتی ہے۔ان کا آرام و سکون تباہ ہو جاتا ہے۔
وہ دلجمعی سے اپنی سرگرمیاں اور ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتے۔ ملک کا امن و
امان برباد ہو جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ معاشرے میں انتشار کی کیفیت
پیدا ہو جاتی ہے۔پاکستان میں معاشرتی نظم و ضبط کے فقدان کی بدولت اس وقت
جس قسم کی کیفیت موجودہے وہ بہت تکلیف دہ امرہے اس معاشرتی انتشار کی تاریخ
پرانی ہے۔ ہماری گزشتہ حکومتیں معاشرتی نظم وضبط اور امن و امان قائم کرنے
والے اداروں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر تی رہی ہیں جس کی وجہ سے ان
اداروں کی کارکردگی متاثر ہونا شروع ہوئی۔رفتہ رفتہ یہ ادارے اپنی اصل ذمہ
داری سے دور ہوتے گئے۔ ان کے اندر بدعنوانی اور لاپرواہی کا عنصرترویج
پاتاگیا۔بالآخر انکی ناقص کارکردگی کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال ابتر
ہوتی گئی۔ سماج دشمن عناصر کی غیر قانونی سرگرمیاں بڑھتی گئیں۔ لاقانونیت
میں اضافہ ہوتا گیا۔حتیٰ کہ موجودہ دور میں معاشرتی انتشار روزِروشن کی طرح
عیاں ہے۔پاکستان میںبین الصوبائی اور صوبوں کے اندر علاقائی اختلاف اور
تعصبات موجود ہیں۔ پاکستانی معاشرہ مختلف نسلوں اور گروہوں میں بٹا ہوا
ہے۔افراد کے معیار ِزندگی میں تفادت پایا جاتا ہے۔عدم شرکت کے احساس نے
لوگوں کو قومی معاملات سے لاتعلق بنا رکھا ہے۔یہاں ایک مستقل مراعات یافتہ
طبقہ موجود ہے جبکہ دیگر طبقات کے لوگ اپنے آپ کو محروم تصور کرتے ہیں۔ذات
برادری کا سسٹم بدستور قائم ہے۔جو معاشرے کے اندر انتشار میں مزید اضافہ کر
رہا ہے۔علاقائی اور سیاسی جماعتیں معاشرے میں قربت کی بجائے تفریق پیدا
کررہی ہیں۔چند مفاد پرست عناصر اسلام کے نام پر فرقہ واریت کو فروغ دے رہے
ہیں۔ذرائع ابلاغ کے کئی ادارے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر ایسا منفی
کردار ادا کر رہے ہیںجو علاقائی اور گروہی سوچ کو ابھارتا ہے،بے حیائی اور
لاقانونیت کوپھیلاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں دن بدن لاقانونیت اور
بدعنوانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ریاست کے بعض حصوں میں ملکی قانون پر
عملدرآمد اور غٰیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام دشوار ہوتی جا رہی ہے۔قتل و
غارت، چوری، ڈاکے، اغواءاور سمگلنگ جیسے معاشرتی جرائم کی شرح میں اضافہ ہو
رہا ہے۔ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ بڑی گھمبیر صورت اختیار کر گیا ہے۔ملک
دشمن عناصر عوام میں بے چینی اور خوف پیدا کرنے کے لئے مختلف کاروائیاں
کرتے رہتے ہیں۔ وہ خودکش حملے کرتے ہیں، بم دھماکے کرواتے ہیں۔ریلوے
لائنوں،پلوں اور قومی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس تما م انتشاری نوعیت
کے اقدامات کو روکنے اور معاشرتی نظم و ضبط قائم کرنے میں انتظامیہ اور
متعلقہ ایجنسیاں بے بس نظر آتی ہیں۔ حالانکہ پاکستا ن کو ایک اسلامی فلاحی
ریاست قرار دیا جاتا ہے اور اسلامی فلاحی ریاست کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے
کہ وہ انصاف اور معاشرتی نظم کے قیام کا معقول بندوبست کرے۔ اس بارے میں آپﷺ
نے فرمایا کہ ”حکومت اس کی سرپرست ہے جس کا کوئی سرپرست نہ ہو“حضرت شاہ ولی
اﷲ کا فرمان ہے کہ ”عمدہ امن کی اساس بہتر نظام عدل ہے۔ چنانچہ قیام عدل ہی
ریاست کا بنیادی فرض ہے“عدل وانصاف کے قیام۔ قانون کی حاکمیت اور معاشرتی
نظم وضبط کا ایک عمدہ نمونہ خلافتِ راشدہ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے
اسی طرح موجود دور میں امریکہ اور یورپ کی جمہوری فلاحی ریاستیں اپنی یہ
ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہی ہیں مگر ہم کسی جانب سے بھی راہنمائی
حاصل کرنے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتے۔ لہذا بہتر معاشرتی نظم وضبط قائم
کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ |