یہ طے کرنا اِنتہائی دشوار ہے کہ
ہم کن کن معاملات میں باقی دنیا سے بہت مختلف ہیں۔ کوئی اگر جائزہ لینے
نکلے تو واپسی کا راستہ نہ پائے گا! اہل وطن نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ جس
طور بھی ہو، زندگی کو زیادہ سے زیادہ دشوار بلکہ ہلاکت خزہ بناتے رہیں گے!
کِسی نے کیا خوب کہا ہے۔
بے چینیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بن سکا تو مِرا دل بنادیا!
ہمارا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ مشکلات بھٹکتی پھرتی ہیں اور جب انہیں کہیں
سَر چُھپانے کی جگہ نہیں ملتی تو ہم گلے لگالیتے ہیں! ہلاکت کے مختلف
طریقوں کی جب کہیں پذیرائی نہیں کی جاتی تو ہم ترس کھاتے ہوئے اُنہیں اپنے
پہلو میں جگہ دیتے ہیں! اب مہمان نوازی کی حد یہ ہے کہ ہم کمپریسڈ نیچرل
گیس گیس یعنی سی این جی کے بھرے ہوئے سلنڈرز کو بھی اپنے پہلو میں بٹھانے
سے گریز نہیں کرتے! ملک بھر مں پبلک ٹرانسپورٹ سی این جی پر آگئی ہے۔
اخراجات کم کرنے کے حوالے سے یہ اچھی بات ہے مگر یہ کیا تماشا ہے کہ ایندھن
کا خرچ گھٹانے کے نام پر ہم خود کو کم کرنے پر تل گئے ہیں!
|
|
رکشہ سے کوچ تک پبلک ٹرانسپورٹ کی ہر گاڑی میں سی این جی اور ایل پی جی
سلنڈرز نصب ہیں۔ جب حالت یہ ہو تو کوئی کیوں یہ نہ سمجھے کہ بم کے پہلو میں،
بلکہ بعض معاملات میں تو بم پر بیٹھ کر سفر ہو رہا ہے! سستی سی این جی کا
حصول یقینی بنانے کے چکر میں ہم نے شاید یہ سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ زندگی
کتنی قیمتی ہے! ٹھیک ہی تو ہے۔ معاشرے میں جس چیز کی وقعت دکھائی نہ دیتی
ہو، محسوس نہ ہوتی ہو اُسے کوئی کیوں اہمیت دے گا؟
قدرتی گیس کو کمپریس کرکے سلنڈرز میں بھرنے اور ان سے گاڑیاں چلانے کا تصور
ہمارے ہاں خاصی دیر سے آیا ہے۔ ہماری پبلک ٹرانسپورٹ میں عوام کو جس طرح
ٹُھونس ٹُھونس کر یعنی کمپریس کرکے بٹھایا اور کھڑا کیا جاتا ہے اُسے
دیکھتے ہوئے تو سی این جی سلنڈرز دو تین عشرے قبل متعارف کرائے جانے چاہیے
تھے! سچ پوچھیے تو ہمیں لگتا ہے کہ مغربی ماہرین کو شاید ہماری بسیں اور
ویگنیں دیکھ کر ہی گیس کمپریس کرکے سلنڈرز مں بھرنے کا آئیڈیا سُوجھا ہوگا!
دُنیا بھر میں حکومتیں اِس بات پر خاص توجہ دیتی ہیں کہ لوگ کام پر محفوظ
اور آرام دہ طریقے سے جائیں اور اُتنے ہی تحفظ اور آرام کے ساتھ گھر واپس
آئیں۔ مگر ہمارے ہاں شاید کِسی اور ہی دُنیا کے اُصولوں پر عمل ہو رہا ہے!
حکومت کو اِس بات کی بظاہر کوئی فکر نہیں کہ لوگ صبح گھر سے نکلتے ہیں تو
کام کے مقام پر کِس طور پہنچتے ہیں۔ اور ظاہر ہے حکومت کو اِس بات سے بھی
کوئی غرض نہیں کہ دن بھر کے کام کاج سے تھکے ہارے لوگ شام کو کِس طرح گھر
پہنچ پاتے ہیں!
پاکستان تقریباً ایک عشرے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دھماکے اِتنے ہوئے
ہیں کہ اب بم ہماری زندگی اور ذہنی ساخت کا حصہ ہوکر رہ گئے ہں۔ ہلاکت کا
خوف اپنی جگہ مگر پاکستانی قوم مجموعی طور پر کسی بھی صورتِ حال کے لیے
تیار رہنے کی عادی سی ہوگئی ہے۔ اگر کوئی ایسی ویسی صورتِ حال بن نہ رہی ہو
تو ہم خود بنالیتے ہیں! ناقص سی این جی سلنڈرز کے پہلو بہ پہلو سفر بھی اب
بم کے ساتھ چلنے ہی کے مترادف ہے! معیاری سلنڈرز کا معاملہ تو سمجھ میں آتا
ہے مگر سال خوردہ اور انتہائی غیر معیاری سلنڈرز کا استعمال کیوں عام ہے؟
اِس کی توجیہہ کوئی نہیں کرسکتا۔ کیا ہمیں زندگی سے محبت نہیں رہی؟ لگتا تو
کچھ ایسا ہی ہے۔ جب سے پبلک ٹرانسپورٹ سی این جی پر کنورٹ ہوئی ہے، عوام کو
ناقص سلنڈرز کے ساتھ یا ان پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑ رہا ہے۔ موت کے امکان کے
ساتھ سفر کرنے کا یہ انوکھا انداز ایسا ہے کہ دُنیا دیکھے تو دانتوں تلے
اُنگلیاں دبالے!
ویگنوں میں سی این جی سلنڈرز پچھلے پہیوں کے ساتھ نصب کئے جا رہے ہیں۔ رکشہ
میں سلنڈر پچھلی نشست کے نیچے ہوتا ہے۔ اضافی سپلائی کے لیے اب بہت سی
ویگنوں میں خواتین کے پورشن میں ڈرائیور کی نشست کے پیچھے فُل سائز سلنڈر
کھڑا کیا جارہا ہے۔ رکشہ میں اِضافی سلنڈرز مسافروں کے قدموں رکھے یا
لِٹائے جارہے ہیں! یہ مناظر ایسے ہیں کہ ذرا سا غور کرنے پر اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے! ویگنوں میں خواتین کے پورشن میں
رکھا فُل سائز سلنڈر، خدا ناخواستہ، پھٹ پڑے تو؟ یہ ایسی روش ہے جسے کِسی
بھی حالت میں اور کِسی بھی قیمت پر برداشت کرنا اپنے آپ سے عداوت اور
غدّاری کے مترادف ہے! لازم ہے کہ حکومت اِس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی طرف
متوجہ ہو اور ناقص سلنڈرز کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ
اِضافی سلنڈرز کی غیر منطقی اور خطرناک، بلکہ ہلاکت خیز تنصیب کی بھی روک
تھام کرے۔
(فوٹو گرافی : ماجد حسین) |