معذور قبائلی طالب علم کا دکھ
(musarrat ullah jan, peshawar)
اس نے نوماہی امتحانات
کیلئے خوب تیاری کی تھی اور آج اس کا دوسرا پیپر تھا صبح جب وہ سکول آرہا
تھا تو اس کی والدہ نے اسے ہدایت کی تھی کہ بیٹا حالات خراب ہے اورخیال سے
سڑک پار کیا کرو اپنے علاقے میں امن و امان کی ابتر صورتحال کی سوچ لئے
تیرہ سالہ طالب علم نے پیپر جلدی جلدی مکمل کیا اس کے ذہن میں تھا کہ آج
میں گھر جا کر اپنی بے بے کو بتا دونگا کہ بے بے تمھارا بیٹا کتنا لائق ہے
کہ وقت سے پہلے ہی پیپر مکمل کرکے گھر واپس آیااپنے استاد کو امتحانی پیپر
دینے کے بعد اس نے اپنے ساتھ والے دوست کو ہاتھ سے مسکرا کر اشارہ کیا کہ
میں نے تمام سوالات کے جوابات لکھ کر دیدئیے ہیں اور اب گھر جارہا ہوں دوست
نے اسے اشارہ میں بتا دیا کہ باہر جا کر رک جائو ساتھ ہی جائیں گے لیکن اس
کے ذہن میں گھر جا کر فٹ بال کھیلنے کا شوق تھا اور اسی شوق کی خاطراس نے
اپنے ساتھی کا انتظار نہیں کیا اور روڈ پر آکر گاڑی کا انتظار کرنے لگا کہ
اس دوران دھماکہ ہوگیا جس کے بعد اسے کچھ ہوش نہ رہا-
ہوش آیا تو درد کی لہریں اس معصوم کے دونوں پائوں سے اٹھ رہی تھی اسے ایسا
لگ رہا تھا جیسے اس کی پائوں کو کاٹا گیا ہوں اس نے اپنے پائوں کو حرکت
دینے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا اس نے سرہانے اپنے بڑے چچا زاد
ہدایت اللہ کو دیکھا جو اسے غور سے دیکھ رہا تھا لیکن اس کی نظریں پڑتے ہی
ہدایت اللہ نے آنکھیں چرالیں جس کی وجہ سے اس معصوم کی حیرانی ہوئی کہ کیا
ہوا ہے اس نے بات کرنے کی کوشش کی لیکن بیڈ کیساتھ کھڑی نرس نے اسے اشارہ
کیا کہ نہ تو بات کرو اور نہ ہی اپنے جسم کو حرکت دو -جس کے بعد اس نے بیڈ
پر پڑے اپنے جسم کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن کفن کی طرح سفید چادر اس کے جسم
پر پڑا تھا اور اس کے ہاتھوں میں اتنا دم نہیں تھا کہ اپنے جسم سے یہ سفید
چادر ہٹا کر دیکھ لیں کہ اس کے پائوں کو کیا ہوا لیکن اس نے کوشش کرکے ہاتھ
سے اپنے جسم پر پڑے چادر کو ہٹایا تو اپنے پائوں کو دیکھ کر وہ ایک مرتبہ
پھر بے ہوش ہوگیا-
یہ کہانی تیرہ سالہ اس معصوم طالب علم کی ہیں جو جمرود بازار میں ہونیوالے
کار بم دھماکے کا نشانہ بنا گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول نمبر 1 جمرود کا
چھٹی جماعت کا طالب علم حضرت اللہ پرچہ دیکر سکول سے گھر جانے کیلئے نکلا
وہ جمرود بازار کے بس سٹاپ پرپہنچا اور بس کا انتظار کرنے لگا بس تو نہ آئی
لیکن بم دھماکے نے ایک لمحے میں حضرت اللہ کے خواب چھین لئے بم دھماکے کا
نشانہ بننے کے بعد اسے ہسپتال پہنچادیا گیا اور اب ہسپتال میں اس کے علاج
پر تعینات ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کا دایاں پائوں مکمل طور پر ناکارہ ہو
چکا ہے جس کی بنیادی وجہ بارودی مواد میں پڑے شیل نے اس کے پائوں کے نچلے
حصے کو نشانہ بنایا جانا ہے- تیرہ سالہ حضرت اللہ کو فٹ بال کھیلنے کا جنون
ہے اس کے چچا زاد ہدایت اللہ کے مطابق وہ سکول سے واپس آنے کے بعد سارا وقت
فٹ بال کھیلتا رہتا تھا اور اب ہسپتال کے بستر پر نیم بے ہوشی کی حالت میں
پڑے حضرت اللہ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اب وہ کبھی فٹ بال نہیں
کھیل سکے گا - حضرت اللہ کے والدہ کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا پڑھ لکھ لے
گا تو اس کے معصوم بچے کی زندگی اچھی ہو جایئگی انتہائی غربت میں تعلیم
دینے والے اس خاندان کے لوگوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اس طرح کا
واقعہ ان کے بچے کیساتھ پیش آسکتا ہے -
ہسپتال میں اس کے رشتہ داروں کو اب یہ غم کھایا جارہا ہے کہ کہنے کو تو
مریضوں کو مفت سہولیات دی جاتی ہیں لیکن گذشتہ دو دنوں میں ہسپتال انتظامیہ
نے دوائیوں کے چٹ لکھ لکھ کر انہیں جس ذہنی تنائو کا شکار کردیا وہ انہیں
پتہ ہے کیونکہ حضرت اللہ کو لگائے جانیوالے ڈرپ مارکیٹ سے لائے جارہے ہیں
جس کی ادائیگی بھی اس کے رشتہ دار کررہے ہیں یہی سلسلہ صرف حضرت اللہ
کیساتھ نہیں بلکہ جمرود بم دھماکے میں زخمی ہونیوالے ہر قبائلی کیساتھ
ہورہا ہے ہسپتال کی انتظامیہ انہیں اس ہدایت کیساتھ کہ ہسپتال کے سامنے
فلاں میڈیسن کی دکان سے یہ دوائی لے کر آجائواور یہ معصوم لوگ کبھی اپنی
جیب کو دیکھتے ہیں اور کبھی اپنے مریض کو لیکن مریض کی حالت کو دیکھ کر سب
کچھ بھول کردوستوں رشتہ داروں کو فون کرکے قرض پیسے منگواتے ہیں کہ ان کے
پیارے ہسپتال میں پڑے ہیں اور ان کے علاج کیلئے پیسے درکار ہیںاورروٹی کپڑا
اور مکان کا نعرہ دینے والے لوگوں سمیت اپنی زمین پر اپنی بدمعاشی کے نعرے
دینے والوں نے تو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کا وعدہ نہیں کیا تھا اس
لئے یہ سہولت انہیں نہیں مل رہی - زبانی جمع خرچ کے مصداق یہاں پر ہر کوئی
قبائلیوں کو اسلامی فلاحی عوامی اور جمہوری مملکت پاکستان کے بغیر تنخواہ
کے سپاہی کہتے ہوئے تھکتے نہیں لیکن ان کیلئے آج تک کیا ہوا آغاز میں ان کے
مخصوص ملکان کو پگڑیاں پہنا کر جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے قبائلی
عوام کوترقی کے عمل سے روکا گیااور انپر "چوری کرے مونچھ والا اور پکڑا
جائے داڑھی والا"قانون لاگو کیا گیا اور ابھی تک یہ لوگ ایف سی آر کے کالے
قانون کے تحت زندگی گزار رہے ہیں-
دکھ اس بات کا نہیں کہ انہیں تعلیم و ترقی کے مواقع نہیں دئیے جارہے بلکہ
دکھ اس بات کا ہے کہ آج بھی ان کیساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے
اور ان پر احسان بھی جتایا جارہا ہے آج اگر ایک حضرت اللہ اپنے پائوں سے
محروم ہوگیا تو اس کا ذمہ دار کون ہے یہ وہ سوال ہے کہ جو حضرت اللہ اور اس
جیسے لاکھوں قبائلی کرنا چاہتے ہیں پہلے ان کو قومی مفاد کے نام پر جہاد کے
نام پرمروایا گیا جب ان قبائلیوں میں دم خم نہ رہا تو پھر باہرسے اس وقت کی
حکمرانوں نے جہاد کیلئے امریکی ڈالروں کے زور پر کرائے پر جہادی منگوا لئے
جب ہ سرخ ریچھ کے خلاف لڑ رہے تھے تو اس وقت جہاد تھا لیکن آج ا گریہی لوگ
ان کے خلاف ہوگئے ہیں تو پھر یہ لوگ "دہشت گرد" بن گئے قبائل کا صرف جرم
اتنا تھا کہ ملک صاحبان کے ہوتے ہوئے انہوں نے اس وقت بھی کچھ نہیں کہا تھا
اور آج بھی کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں پہلے بھی ان کی اوقات نہیں تھی اور
آج بھی نہیں ہے اگر آج بھی یہ آواز اٹھاتے ہیں تو پھر بھی یہ لوگ دہشت گرد
قرار دئیے جاتے ہیں قبائلی دھماکوں میں مر رہے ہیں یا پھر اپنی جسمانی
اعضاء کھو رہے ہیں لیکن فائدہ اس وقت بھی حکمرانوں کو تھا اور آج بھی
حکمرانوں کو ہے -
حضرت اللہ کے معذوری کا ذمہ دار کون ہے جہادی دہشت گرد یا حکمران اس کا
سوال حضرت اللہ کے خاندان کو کون دے سکتا ہے اگر آج حضرت اللہ کی ماں رو
رہی ہے تو یقینا کل بہت ساروں کی مائیں روئیں گی ان میں ایسوں کے رشتہ دار
بھی روئیں گے جن کے جہازہوا میں اڑ گئے تھے اور پھر ان کی قبروں میں کسی کی
ہاتھ اور کسی کا پائوں رکھ کر جنازہ کرنا پڑ ا اگر ہم اس دکھ کو سمجھ لیں
تو شائد ہمارے بہت سارے دکھ ختم ہونگے- |
|