کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہرکے
نام سے جانا جاتا تھا ۔۔۔آجکل تاریکیوں کا راج ہے ۔۔۔تاریکی کبھی تنہا نہیں
ہوتی ۔۔۔اپنے اندر خوف ،وحشت ،موت اور اس طرح کی ہر شے اپنے اندر سمائے چلی
آتی ہے۔۔۔آپ بھاگتے رہیے یہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔۔۔یہاں تک کہ ہر طرف
مایوسی اور افسردگی کا راج نہ ہوجائے۔۔۔گھر سے نکلتے ہیں تو گھر والوں کو
حسرت سے تکتے ہوئے ۔۔۔کیا پتہ آج شام ہونے سے پہلے ہماری زندگی کی شام نہ
ہوجائے۔۔۔ہمارے گھر والے تو ہمارا چہرہ دیکھ لینگے مگر ہمیں دیکھنا شائد
نصیب نہ ہو۔۔۔ہر آدمی مشکوک ہے ۔۔۔ہم سب ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں۔۔۔ایک
دوسرے سے بچ کے گزرنا چاہتے ہیں۔۔۔ہانپ جاتے ہیں جب کسی بازار یا رونق والی
جگہ سے گزرتے ہیں۔۔۔ٹریفک جو ہمارے شہر کراچی کا ایک اور سنگین مسلہ ہے ۔۔۔اس
میں پھنس جائیں توسمجھیں جان ہتھیلی پر لئے بیٹھے ہیں۔۔۔نہ جانے کب کہاں سے
کوئی آجائے اور آپ سے سب کچھ لے جائے ۔۔۔یہ بھی اسکے رحم و کرم پر ہے کے آپ
کو چھوڑ دے یا ایک دو گولیاں مار دے۔۔۔آپکے مر جانے یا زندہ رہنے سے اسے
کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔سچ جانئے یہ اتنی ہی عام سی بات ہے ، جتنی آپ کو
پڑھنے میں لگ رہی ہے۔۔۔آپ ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں ۔۔۔کہیں سے کسی دھماکے
کے منتظر ہیں۔۔۔یا اس طرح کے دیگر واقعات آپکے منزلِ مقصودپر پہنچنے
تک۔۔۔آپ کے دل و دماغ کو گرما تے رہنگے۔۔۔اس قدر مایوس چہرے نظرآتے ہیں کہ
آپ کے عزم کو گہنہ دیتے ہیں۔۔۔بھوک سے روتے بلکتے بچے اپنی ماؤ ں کی گود
میں ۔۔۔جنکے لئے وہ بھیک مانگ کر گزارا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔۔۔
کہتے ہیں پاکستان ایک گھر کی مانند ہے۔۔۔اگر پاکستان گھر کی مانند ہے تو اس
کے رکھوالے کون ہیں، اس کی حفاظت کی ذمہ داری کس کی ہے اور یہ پاکستان کس
کا ہے ؟۔۔۔آخر کب تک یہ خونی جنگل نما شہراسی طرح انسانی جانوں سے اپنی
پیاس بجھاتا رہے گا ۔۔۔کیا کہانیوں میں بسنے والا کوئی ٹارزن آکر ہمارا
نجات دہندہ بنے گا۔۔۔جو اکیلا ان سب خون کی ہولی کھیلنے والے درندہ صفت
انسانوں سے ہمیں چھٹکارا دلائے گا۔۔۔
میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں ۔۔۔دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی کارٹون بہت شوق سے
دیکھتے ہیں مگر یہ شوق مجھے بھی ہے اور جب بھی وقت اجازت دیتا ہے انکے شوق
سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہوں ۔۔۔ بین ٹین(Benten) انکے پسندیدہ ترین کارٹون
ہیں۔۔۔مختصراً یہ کہ ہمارے چھوٹے صاحب زادے بین کے کچھ بھی کرنے سے پہلے ہی
اعلان کر دیتے ہیں کہ وہ کون سی آرما ٹرک سے اس مصیبت سے نمٹے گا۔۔۔یوں تو
مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے اور اچھا بھی لگتا ہے۔۔۔مگر میرے ذہن میں
ایک خیال آتا ہے کہ کیا یہ بچے جب آگے بڑھینگے تو یہ سوال کرینگے کہ بابا
یہاں ایک بین ٹین ہونا چاہئے ۔۔۔جو اپنی آرما ٹرک سے سب کچھ سہی کرنے کی
صلاحیت رکھتا ہے۔۔۔وہ قاتلوں ، دہشتگردوں،بھتہ خوروں اور بھوک سے نمٹ لے
گا۔۔۔جی ہاں ایسے کردار ماضی میں بھی تھے ۔۔۔مگر انکی ایسی ضرورت کبھی نہیں
پڑی ۔۔۔
آج وہ وقت ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے خود محفوظ نہیں ہیں۔۔۔تو
بھلا وہ ہماری حفاظت کے کیا سدِباب کرینگے۔۔۔آخر پھر ہماری مدد کون کرے
گا؟۔۔۔بات تو اب ہماری عبادتوں اور خدا کو منانے سے آگے نکلتی نظر آتی
ہے۔۔۔اگر میں اپنے بچوں سے پوچھوں تو مجھے یقین ہے وہ بین کو بلانے کی بات
کرینگے۔۔۔مگر دل کہتا ہے ہماری مدد کوئی نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ ہم ہی ہیں
جو خود کو اس چنگل سے نجات دلا سکتے ہیں ۔۔۔وہ ہم ہی ہیں جو اپنے خوف کو
شکست دے سکتے ہیں۔۔۔ہمیں اپنی صفوں میں پیدا ہوئے خلا کو ختم کرنا
ہوگا۔۔۔ہمارے بیچ جو ہمارے دشمن ہیں انہیں نکالنا ہوگا۔۔۔ہمیں ایک دوسرے کی
دادرسی کرنی ہوگی۔۔۔ہمیں ایک دوسرے کی پہلے سے کہیں گنا بڑھ کے خیال رکھنا
ہوگا۔۔۔اپنے درمیان آنے والے کسی بھی غیر مانوس فرد سے اس کی شناخت کرانی
ہوگی ۔۔۔یقین جانئیے ہمیں یہ سب کرنا پڑے گا ورنہ ہمارے درمیان یونہی ایسے
واقعات ہوتے رہینگے ۔۔۔اور کل ہم بھی اسکا نشانہ بن سکتے ہیں ۔۔۔اٹھ باندھ
کمر کیا ڈرتا ہے۔۔۔پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔۔۔ابھی وقت ہے اور فیصلہ بھی
ہمیں خود کرنا ہے۔۔۔ |