قصہ خوانی کا دکھ

جوماں اپنے بیٹوں کے خون سے لہولہوکردی گئی ہو اس کا دکھ کیا ہوتا ہے کاش تم لوگ سمجھ سکو اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے والودھرتی )ماں( کا دکھ کیا ہوتا ہے اس ماں سے پوچھو جو اپنی ہی بچوں کی خون سے لت پت کردی گئی ہو زمین بھی ماں ہی ہوتی ہے اور ماں کو بچوں کے خون سے رنگین کرنے والا بہت ہی ظالم ہوتا ہے - اے لوگو! اپنے آپ کو انسان کہلوانے والو کیا تم میں احساس نام کی کوئی چیز موجود ہے کہ نہیں -کہنے کو تو مجھے قصہ خوانی کے نام سے پکارا جاتا ہے لیکن اب اتنا خون میرے اطراف میں گر گیا ہے کہ شائد آنیوالی نسلیں قصہ خوانی کے بجائے " خون خوانی" کے نام سے مجھے پکاریں اور یاد کریں -اے اس شہر کے باسیو !تم نے میرا دامن لہو لہو کردیا ہے - تم لوگ کہتے ہوں کہ دھرتی ماں ہوتی ہیں لیکنکون اپنے ماں کو لہو لہان کرتا ہے یہ اعزاز بھی تم لوگوں کو حاصل ہے اپنی نصاب کی کتابوں میں تم لوگوں نے میری اعزاز میں بڑی باتیں لکھی ہیں مجھے و قصہ گو کا بازار کہلواتے اور لکھتے ہو-نصاب میں اس بازار سے متعلق بڑی بڑی تاریخی باتیں لکھی ہیں -

پہلے بھی اس بازار میںدنیا بھر سے تاجر کاروبار کیلئے آتے تھے جو بازار میں واقع سرائے میں رات گزارتے رات کے اندھیرے میں آگ کی روشنی میں بیٹھ کر داستانیں سنتے اور سناتے ان کی محبت بہار مذہب اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہونے کی کہانیاں ہوتی تھی اسی دوران وہ قہوہ بھی پیتے اور انہی کہانیوں کے دوران ان کے تعلقات دوستیاں بنتی اسی رابطوں اور قصوں کی وجہ سے میرا نام یعنی قصہ خوانی بازار کا نام بھی چہار سو پھیل گیا دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس بازار کو دیکھنے کیلئے آتے یہا ں سے جانیوالے دوبارہ یہاں آنے کی دعائیں مانگتے کہ قصہ خوانی بازار میں تھڑے پر بیٹھ کر ایک دوسرے کیساتھ مل بیٹھ کر بات گپ شپ کرینگے قہوہ دوستوں کیساتھ پی لینگے اسی بازار میں تھڑوں پر بیٹھ کر لوگوں نے ایک دوسرے کیساھ رشتہ داریاں بھی کی یہاں پر رہنے والوں کے کاروبار دیانتداری محبت ایمانداریکی مثالیں دی جاتی تھیں ایک عالم میں میرے بازار کا شہرہ تھا -

اے میرے شہر کے رہنے والو! بغداد بصرہ روس سے لیکر چین تک کے لوگ اس شہر کے لوگوں کی محبت بہادری کی داستانیں سناتے تھے تم لوگوں کی پختون ولی مہمانداری کی مثالی دی جاتی تھی اس وقت بازار میں دکانیں بھی کچی مٹی کی بنی ہوتی تھیں اور ساتھ میں کچے گھر بھی اسی طرح کے تھے پیسہ بھی نہیں تھا لیکن ایک دوسرے کیساتھ محبت اخلاص اور رواداری تھی مہمانوں کیساتھ اچھا سلوک ہوتا تھا اے میرے شہر کے لوگو! تم لوگوں کو کیا ہوگیا جب اس زمین پر انگریز کے دورمیں گولیاں برسائیں گئی تو تم لوگ ہندو سکھ اور مسلمان کے چکر میں نہیں پڑے تھے تو کیسے بغیر کسی مذہبی تفریق کے ایک دوسرے کی مدد کیلئے کیسے آگے آئے تھے ہر کوئی اپنے مذہب میں خوش تھا اس دور میں دوسروں کی مذہب مسلک اور رائے کا احترام ہوتا تھا اس وقت تم لوگوں میں اتنی تعلیم نہیں تھی لیکن تم میں شعور تھا ایک دوسرے کو برابر رتبہ دینے کا لیکن!

اے میرے شہر کے لوگو آج تمھیں کیا ہوگیا آج اس بازار میں بلکہ شہر میں روشنیاں تو بہت ہیں لیکن تم لوگوں کے دلوں میں اندھیرا ہے آج تو تم لوگوں نے بازار میں شہداء کی یاد میں یادگاریں بھی بنا دی ہیں لیکن جو خون تم لوگ ابھی بو رہے ہو اس کی یادگاریں کیا تمھاری آنیوالی نسلیں بنائیں گہ کیسے اس دور کے رہنے والوں نے ایک دوسرے کی گلے کاٹے کیا تم لوگ محبت کا آفاقی پیغام بھول گئے ہو کیا تم لوگ اسلام کا وہ راستہ بھول گئے ہو جس کی روشنی میں سارے پختون مسلمان ہوئے تھے مجھ سمجھ نہیں آرہا تھی تم لوگوں کو خون کی کونسی بیماری لگ گئی ہیں تم لوگ آئے روز میرے ہی اس بازار کو خون میں نہلاتے ہو اور یہ صرف میرا نہیں بلکہ پورے شہر صوبے میں خون گرانے کا یہی سلسلہ جاری و ساری ہے تم لوگوں کی دشمنیوں کے بھی کوئی اصول ہوتے تھے لیکن آج تم نہ جانے کس جرم کی سزا اپنے آپ کو دے رہے ہویا یہ سزا مجھے دے رہے ہو کہ اس شہرمیں ہر جگہ خون کا بازار گرم ہے کیا یہ کسی انسان کا خون نہیں جس کے بارے میں کہا گیا کہ جس کسی نے ایک بے گناہ نسان کو قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا کیا تم لوگ اللہ کے احکا م بھی بھول گئے ہو -

اے میرے شہر کے لوگو !دنیا کتنی خوبصورت ہے اس کا مزہ کیا ہے تم لوگوں کی بھی آنکھیں ہیں لیکن تم نے اپنے آپ مفاد کیلئے اندھا کردیا ہے اور اس اندھے پن میں تمھیں دنیا کی خوبصورتی کا اندازہ نہیں ہورہا - دنیا کے مزے اور خوبصورتی کا پتہ اس شخص سے پوچھ لو جو قریب المرگ ہو اور اس نے بھرپور زندگی گزاری ہو میرے اس شہر میں رہنے والا ہر کوئی زندہ رہنا چاہتا ہے اسکے مزے اور اس خوبصورتی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اے اس شہر کے لوگو تم لوگ میرے لئے بچوں کے برابر ہو کیونکہ میں نے اپنی زمین تم لوگوں کیلئے کھول دی ہیں میری ایک بات سن لو یہاں ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دوسرا شخص مرے گا اور میں بچ جائوں گا لیکن دنیا کا چکر گول ہے جو بھی اس چکر میں آیا ہے اسی چکر میں گھومتے ہوئے اپنی زندگی کا وقت پورا کرکے چلا گیااور سپرد خاک ہوگیا-تو وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے تم دوسرے کا خون بہانے پر لگے ہو اور ایک دوسرے کو گولیوں بموں چھریوں کے وار سے مار رہے ہوں کیا تم لوگ ایک دوسرے کے حصے کا رزق لینے کی چکر میں ہو وہ رزق جس کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا ہے طاقت پیسے اور اپنے نام کیلئے کیسے اللہ تعالی کی مخلوق کا خون بہا رہے ہو اپنی من مانیاں کرنے کیلئے دوسروں کو کتنادکھ دیتے ہو -

اے میرے شہر کے لوگو اور میرے بچو اپنے ارد گرد دیکھ لوکتنی بے سکونی ہے اس شہر میں ہر کوئی اپنی حیثیت پر قانع نہیں دوسروں کا حق مار کرسکون تو ملنے سے رہا خدا کیلئے ایک دوسرے سے محبت بڑھائو ایک دوسرے کا گلہ مت کاٹو ابھی بھی تم لوگوں کا دنیا بھر میں مذاق اڑایا جارہا ہے کہ کس طرح ایک دوسرے کو کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں اب سنبھل جائو کہ بھائی اپنے بھائی کو بموں سے نہیں اڑاتا-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 649 Articles with 507933 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More