امید کی کرن

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جو قوم اپنے نظام تعلیم کو مضبوط اور بلند رکھتی ہے وہی قوم دنیا کی قیادت اور سیادت کی حقدار سمجھی جاتی ہے۔مضبوط نظام تعلیم ہی مضبوط اور روشن مستقبل کا ضامن ہوتا ہے۔امت مسلمہ نے اپنا عروج اسی تعلیم کی وجہ سے حاصل کیا تھا اور اپنے زوال کے دن بھی اس میدان کو خالی چھوڑنے کی وجہ سے کاٹ رہی ہے۔اس بات کی شھادت لارڈ میکالے کی وہ رپورٹ دیتی ہے جو اس نے1935میں برٹش گورنمنٹ کے سامنے پیش کی گئی تھی۔جس میں تحریر ہے،میں نے پورے ہندوستان کا سفر کیا ،اس سفر کے دوران کئی حیرت انگیز انکشافات ہوئے ،میں نے ایک بھی بھکاری نہیں دیکھا ،چوری ڈاکے کا تصور نہیں ہے،یہ علاقہ دولت سے لبالب بھرا پڑا ہے،مسلمانوں میں اعلٰی اخلاقی اقدار ہیں ،وسیع الظرف ہیں ،یہاں کے لوگ ذہین اور قابل ہیں، برصغیر میں شرح خواندگی تقریبا92%ہے،بڑوں کا ادب واحترام ہے،اپنے مذہب سے گہری وابستگی ہے، اپنے کلچر پر مضبوطی سے عمل پیرا ہیں،غلامی کو سب سے بڑی لعنت سمجھتے ہیں،میرا خیال نہیں کہ ہم ان لوگوں کو رام کر سکیں گے،لارڈ میکالے نے برٹش گورنمنٹ کو ایک تجویز دیتے ہوئے کہا کہ برٹش گورنمنٹ فوری طور پر مسلمانوں کا ایجوکیشن سسٹم تبدیل کرے،اس سے خود بخود ان کا کلچر تبدیل ہو جائے گا ،مسلمانوں کی اپنے مذہب سے گہری وابستگی ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جدید کلچر کو فروغ دیا جائے، غیر محسوس طریقے سے ایسے اقدامات کیے جائیں کہ مسلمان سمجھنے لگیں کہ ان کا مذہب ،کلچر اور ثقافت پسماندہ ہے اوروہ انگریز ی طرز معاشرت پر فخر کرنے لگیں۔اس کا یہ منصوبہ برٹش حکومت کو پسند آیا،اس کو عملی صورت دینے کی ذمہ داری بھی اس کے ہی سپرد کی گئی ۔اس موقع پر لارڈ میکالے نے کہا کہ میں ہندوستان کے لیے ایسا نظام تعلیم بناؤں گا جس کو پڑھنے کے بعد مسلما ن بچے اگر عیسائی اور یہودی نہ بنے تو مسلمان بھی نہیں رہیں گے۔

لارڈ میکالے کا ولایتی درآمد شدہ نظام تعلیم اپنے تمام اثرات کے ساتھ آج بھی ہمارے نظام کا حصہ ہے۔ انگریزی سامراج کے جانے باوجود ہم طبقاتی تفریقات میں بٹے ہوئے ہیں،ملاں اور مسٹر کی تفریق اسی نظام کااثر ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا نوجوان اپنے تابناک ماضی سے کوسوں ،دور مغرب کی ظاہری چمک کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔طبقاتی نظام تعلیم نے امت کو مزیدتقسیم اورکمزور کیا۔مملکت خداد پاکستان کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ ذہنی انتشار اورکشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں،کیونکہ وہ تو دو انتہاؤں کے مسافر ہوتے ہیں۔ہر ایک کا آئیڈیل جدا جدا ہے،ہر ایک کا طرز معاشرت الگ ہے،سوچ اور فکر کا زاویہ ہی علیحدہ ہے۔

اتنا بڑا تفاوت، فاصلہ اورخلیج،لارڈ میکالے کے اس منصوبے کی تکمیل ہے کہ اگر مسلمان بچے اس تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمارے نہ ہوئے تو ان کے بھی نہیں رہیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے میں قائم اس خلیج کو ختم کرنا ہو گا ،ملاں اور مسٹر کی تفریق کو ختم کرکے نوجوان نسل کو کیک پلیٹ فارم پے لا کر قوم و ملت کی خدمت کے لیے تیار کرنا ہوگا۔امت مسلمہ کی تنزلی کاواحد حل کتاب اللہ اور اتحاد میں ہی ہے۔اگر ہم نے اتحاد اور تعلیمات اسلامیہ کی مدد سے سامراجی نظام تعلیم کے حصار کو ریزہ ریزہ نہ کیا تو مستقبل کا منظر نامہ اس سے بھی ابتر ہوگا۔

اس سوچ وفکر کے حامل محب وطن ،بیدارمغز، پرعزم ،علامہ محمد اقبال کے تخیل کو حقیقت کا روپ دینے والے نوجوانوں نے آج سے ایک دھائی پہلے اپنے اس سفر کا آغازکیا،ملک پاکستان میں اٹھنے والی یہ آواز ،اپنے منفرد اور جامع نصب العین کی وجہ سے طلبہ میںبہت جلد مقبولیت عامہ پاگئی۔غلبہ اسلام اور استحکام پاکستان کے نظریہ کی حامل تنظیم مسلم سٹوڈنٹس اورگنائزیشن پاکستان بلاشبہ ملکی سطح کی ایک بڑی طلبہ تنظیم کا روپ دھار چکی ہے،جو ملاں اور مسٹرکو ایک پلیٹ فارم پے لا کر ملک وملت کی تعمیر و ترقی کے لیے اہم کردار ادا کررہی ہے،یہ وقت کی پکار بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی۔MSOطلبہ کے لیے امید کی کرن ہے جو عشروں سے قائم قرابتوں کو رفاقتوں میں بدل رہی ہے،فاصلوں کو کم کرکے محبت والفت ،اتفاق واتحاد کادرس دے رہی ہے۔اگر مسلم نوجوان اپنے تابناک ماضی سے رشتہ جوڑ کر،جدید علوم سے آراستہ ہوکر موجودہ دور کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لے تو ہم بہت جلد اپنے کھوئے ہوئے مقام کو پا لیں گے۔
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 250779 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More