آج رہنے دو غریبوں کے لہو کا
سودا
کل خریدو گے تو اور بھی سستا ہوگا
اقوام متحدہ کےمنشور کی تیاری کے وقت، انسانی حقوق کاموضوع مختلف ملکوں کے
نمائندوں کی توجہ کامرکزتھا۔اسی مشترکہ نظریہ کے پیش نظر جنوری انیس
سوسینتالیس میں انسانی حقوق کاکمیشن تشکیل پایاجس کے نتیجے میں انیس
سواڑتالیس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بل منظور ہوا۔اس وقت
انسانی حقوق کااعلامیہ جاری ہوئے64ال کاعرصہ گذرچکا ہے جس کامشترکہ مقصد
ہرانسان کےلئے آزادی اورظلم وناانصافی نیزہرطرح کے امتیازی سلوک سے
پرہیزکرناتھا۔اس کے باوجود ظلم و زیادتی اور جبر و استحصال کرنا ملکوں کے
لیے اور افراد کے لیے اب عام بات ہو گئی ہے۔جہاں ایک جانب ظلم و زیادتی کے
خلاف انسانی حقوق کی ملکی و بین القوامی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں تو وہیں
دوسری طرف اس ظلم و زیادتی میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔اقوام
متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال
مجموعی طور پر دس لاکھ افراد خودکشی کرلیتے ہیں ۔یہ تعداد جنگوں یا دیگر
حادثات و اقعات میں ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔رپورٹ کے
اعداد وشمار کے مطابق اوسطا ہر چالیس سیکنڈ میں ایک شخض اپنے ہاتھوں اپنی
جان لے لیتا ہے۔دنیا بھر مجموعی باشندوں کا پانچ فیصد ایسا ہے جو زندگی میں
ایک بار ضرور اپنے ہاتھوں اپنی ہی جان لینے کی کوشش کرتے ہیں۔اقوام متحدہ
کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مردوں میں خواتین کی نسبت خودکشی کے
رجحانات تین گنا زیادہ ہوتے ہیںاور مردخواتین کے مقابلے میں اپنی جان لینے
میں زیادہ مہلک طرےقے استعمال کرتے ہیں۔عالمی طور پر دستیاب شدہ اعداد و
شمار کے مطابق پندرہ سے انیس سال کی عمر کے نوجوانوں کی اموات کا دوسرا بڑا
سبب خودکشی ہے ۔ رپورٹ کےمطابق ہر سال قریبا ایک لاکھ ٹین یجرز خودکشی
کرلیتے ہیں۔جبکہ بالغوں میں ۵۷ سال اُس سے زائد عمر کے افراد میں خودکشی کی
شرح سب سے زیادہ ہے۔دستاویزی شواہد کےمطابق خودکشی کی شرح میں سب سے زیادہ
اضافہ مشرقی یورپ کے ممالک جیسے لتھوانیا اورروس میں جبکہ سب سے کم شرح
لاطینی امریکہ کے ممالک میں دیکھنے کوملی۔امریکہ ،مغربی یورپ اور ایشا میں
خودکشی کی شرح درمیانی سطح ہے۔ہندوستان کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیور (این سی
آر بی) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں ہر گھنٹے میں کم سے کم
سولہ افراد کی موت خودکشی کے سبب ہوتی ہے۔این سی آر بی کی رپورٹ کےمطابق
گزشتہ سال سنہ دو ہزار گیارہ میں ایک لاکھ پینتیس ہزار لوگوں کی موت خود
کشی کے سبب ہوئی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیادہ تر خودکشیوں کے
اسباب خانگی مسائل، ناجائز حمل اور کیریئر میں ناکامی ہیں۔واضح رہے کہ
ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں لوگ سب سے زیادہ خود کشی کرتے
ہیں۔لندن سے شائع ہونے والے جریدے لانسٹ میں شائع تحقیقی رپورٹ جو عالمی
صحت کی تنظیم ڈبلیو ایچ او نے کی ہے کےمطابق سنہ دو ہزار دس میں بھارت میں
ایک لاکھ نوے ہزار افراد نے خود کشی کی جبکہ عالمی سطح پر ہر سال تقریباً
نو لاکھ افراد خود کشی کرتے ہیں۔تجزیاتی رپورٹ کےمطابق اب تک مہنگائی اور
غربت کی وجہ سے پاکستان میں خودکشی کرنے والے افرادکی تعداد میں بے پنا ہ
اضافہ ہوگیا ہے۔کراچی ، لاہور ، اسلام آباد کیسے شہروں میں ہر روز خودکشیاں
میں غریب افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں
غربت اور بھوک کی وجہ سے ہرروز8سے10افراد خوکشی کرتے ہیں۔مددگار ریسرچ اینڈ
ڈیٹا بیس سینٹر کراچی کی ایک رپورٹ کے مطابق تنظیم نے چھ ماہ تک روزانہ
انگریزی ، اردو ، اور سندھی زبان کے 26مستند اخبارات کا جائزہ لیا اور اس
سے حاصل شدہ نتائج کےمطابق معاشرے میں پھیلنے والی مایوسی ، عدم اعتماد ،غربت
،خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ ،بے روزگاری اور احساس محرومی و برتری خوکشی کی
جانب راغب کرنے والے عوامل میں شامل ہیں۔ سال 2008میں2528افراد نے خودسوزی
کی۔جن میں ایک ہزار 725مر اور 803خواتین شامل ہیں۔ جبکہ عالمی بنک کے رپورٹ
کےمطابق مجموعی خودکشی کی تعداد7000سے زائدتھی۔سال 2009میں ملک بھر میں
1800غریب سرکاری ملازمیں نے مہنگائی سے تنگ آکر خودکشیاں کیں جبکہ
3491افراد نے خوکشی کی۔ مددگار تنظیم کی جاری رپورٹ کے مطابق جنوری2000ءسے
جون 2009ءتک 31ہزار349افراد نے مختلف وجوہات کی بنا ءپر اپنی زندگیوں کا
خاتمہ کیا جبکہ 2010کے اختتام تک یہ تعداد35ہزار سے تجاویز کرچکی ہے۔ جبکہ
جنوری تا اکتوبر2011 میں 16000افراد خودکشی کرچکے ہیںاور800افراد نے ناکام
کوشش کی۔۔پاکستان میں خودکشی کی بڑھتی شرح ملکی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم
ہے جس کی وجہ سے سرمایہ داری نظام میں مکروہ بدعنوانیاں عروج پر ہیں ۔پاکستان
میں پالیسی ساز اداروں میں غریب طبقے کے مفاد کے بجائے مراعات یافتہ طبقے
کی بہتری کے لئے پالیسی بنائی جاتی ہے۔غربت اور امارت کے بڑے فرق کی وجہ سے
سماجی معاشرہ تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔خودکشیوں کے یہ اعداد وشمار پاکستان اور
ہندوستان میں جمہوری نظام کے تحت غریب افراد کیجانب سے وسائل کی غیر
منصفانہ تقسیم کا نوشتہ دیوار ہے۔بدترین مہنگائی کے باعث زندگی غریب انسان
کےلئے عفری بن چکا ہے۔اسوقت جب ملک میں اربوں روپے کرپشن کی بازگشت اپنے
عروج پر ہے اور حکمران جماعتیں عوام کو ریلیف دینے میں مکملناکام ہوچکیں
ہیں تو ایسی کون سی قیادت ابھرے جو مہنگائی کے ہاتھوں ہند وپاک کے عوام کو
بھوک و افلاس کے عذاب سے نجات دلاسکے۔ پاکستان میں تو یہ جواز پیدا کیا
جاتا رہا ہے کہ جمہوری نظام کو پنپنے نہیں دیا گیا اور سابقہ حکومتین ان
حالات کی ذمے دار ہیں۔لیکن بھارت تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہے وہاں ہر
گھنٹے میں کم سے کم سولہ افراد کی موت خودکشی سے ہونے کے سبب اور دنیا بھر
میں ہر چالیس سیکنڈ میں ایک شخض اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لینا انسانی تاریخ
کا سب سے بڑا المیہ ہے۔انسان کی جان و مال کے تحفظ کےلئے بنیادی ذمے داری
حکومت کی ہے اگر حکومت اپنی پالیسوں میں اسعنصر کو نمایاں رکھے تو حساس
انسانوںمیں اپنی جان اپنے ہاتھوںلینے کے واقعات میں کمی پیدا کی جاسکتی ہے۔
ایک جانب جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں غریب عوام کی جان محفوظ نہیں ہے تو
دوسری جانب حکومت کی نا اہلی اور لاتعلقی کی بنا ءپر معاشرے میں پر تشدد
عمل کو فروغ مل رہا ہے ۔ عوامی احتجاج سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے اور
نہ ہی انسانی جانوں کے اس قدر ضائع ہونے پر معاشی ماہرین کی بے حسی ختم
ہونے کو نہیں آرہی اور غریب غریب سے غریب تر ، نفسیاتی الجھنوں اور معاشرے
میں جاری نا انصافیوں کی بنا ءقدرت کے قیمتی عطیہ کو کھو دینے کے بڑھتے
رجحان پر اپیل ہی کی جاسکتی ہے تاکہ ارباب اختیار اپنی ذمے داریاں پوری
کرسکے ۔حکومت چاہے کسی بھی نظام کے تحت آئے ۔ لیکن ہمیشہ غریب کو نظر انداز
کردیا جاتا ہے ،بھارت کی مستحکم جمہوریہ ہو یا پاکستان کی غیر مستحکم
حکومتیں ، ثابت یہی کرتی ہیں کہ معاشی نظام پر جو قوت قابض ہے ایسے عوام کی
ضروریات اور مشکلات کا ادراک نہیں ہے ۔ قصور کسی نظام کا نہیں بلکہ نظام کی
بھاگ دوڑ سنبھالنے والوں کا ہے ۔اگر عوام اس بات پر متفق ہوجائیں کہ لوٹ
کھوسٹ ، کرپشن اور اقربا پروری کی سیاست کرنے والوں مورثی حکمرانوں سے نجات
حاصل کرکے نظام حکومت ایسے شفاف افراد لوگوں کی ہاتھوں میں سونپ دیں جو
معاشرے میں اس بگاڑ کا کوئی سدباب کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں تو پھر بھارت کی
مستحکم جمہوریہ ، یا پاکستان کی معلق غیر مستحکم جمہوریہ میں غربت کے
ہاتھوں قیمتی جانوں کے بے پناہ نقصانات سے بچنے کی امید پیدا ہوسکتی ہے ۔
یہ صرف عوام کے قوت فیصلہ پر مبنی ہے کہ وہ کیسے منتخب کرتے ہیں ؟۔ نااہل
ہاتھوں میں قوم کا مستقبل دینے کا نتیجہ اس سے بھی بھیانک نکلے گا اور پھر
سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں بچے گا۔ |