کراچی ایکسپو سنٹر میں دی پاکستا
ن پبلیشر بک سیلر اسوسی ایشن نے نیشنل بک فائڈیشن پاکستان کے تعاون سے کتا
ب میلہ کا انعقاد کیا گیا۔ گزشتہ سات سالوں سے یہ میلہ منعقد کیا جاتا رہا
ہے اور انتظامیہ آنے والے سالوں میں ایسے میلے منعقد کرنے کا ارادہ بھی
رکھتی ہیں یہ بہت ہی قابل تعریف بات ہے اس میں ملک اور ملک سے باہر کی
کتابوں کے پرنٹرز اور سوداگر اپنی کتابیں اپنے اپنے اسٹالوں پر سجاتے ہیں
شائقین ان کتا بوں کو شوق سے دیکھنے اور خریدنے کے لیے جوق در جوق اس کتاب
میلے میں آتے ہیں اور اپنی اپنی پسند کی کتابیں خریدتے ہیں اس میں ہر طرح
کی کتابیں مثلاً مذہب ،تاریخ، ادب کیمپوٹر،میڈیکل ،ناول، نصابی اور بچوں
وغیرہ کی کتابیں رکھی جاتی ہیں۔ اس سال بھی یہی کیفیت تھی۔عمارت کے اندر ۳
حال بنائے گئے تھے ۔داخل ہوتے ہی استقبالیہ کائنٹربنایا گیا تھاسیدھے ہاتھ
حال نمبر[۳] اُلٹے ہاتھ حال نمبر[(۱]اُور سامنے حال نمبر[۲] بنا یا گیا تھا۔
عوام کے لیے داخلہ یونیورسٹی روڈ اور اسٹیڈیم روڈ سے رکھا تھا۔ شائقین کے
کھانے پینے کے لیے ہوٹل کا بھی انتظام تھا۔خواتین اور مردوں کے لیے علیحدہ
علیحدہ وا ش رومز کا انتظام بھی تھا۔ ہمیں بھی کتابوں سے پیار ہے اس لیے ہم
بھی گذشتہ سال کی طرح دوسرے دن کتاب میلے میں پہنچ گئے۔وہاں کچھ جاننے
والوں سے ملاقات بھی ہو گئی اور کئی اسٹالوں میں کھومنے پھرنے کے بعد کچھ
پسند کی کتابیں بھی خریدیں۔عموماً کہا جاتا ہے کہ الیکٹرنک میڈیا،فیس بک،
ٹیوٹر، یو ٹیوب کی وجہ سے لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا رجان کم ہو گیا ہے
جانے یہ بات کہاں تک ٹھیک ہے اس میں تو شک نہیں کہ معاشی دو ڑدھوپ میں
لوگوں کو مطالعے کا وقت کم ملتا ہے اور خاص کر کراچی جیسے شہر میں تو بسوں
کے ہلاک کر دینے والے سفر میں وقت کی توالت اور کتابوں کے مہنگے ہونے کی
اور آمدنیوں میں کمی کی اور ٹی وی شو دیکھنے کی اور شہر میں خوف وحراص کی
وجہ سے کتابوں کے پڑھنے کا شوق یقیناً کم ہوا ہو گا مگر ہم یہ دیکھ کر
حیران راہ گئے کہ ایک طرف یونیورسٹی روڈ سے لیکر داخلے کے دروازے تک لمبی
قطار لگی ہوئی ہے بوڑھے ،بچے، جوان، عورتیں قطار میں کھڑے ہیں اور قطار ہے
کہ چیونٹی چال چل رہی ہے دوسری طرف سٹیڈیم روڈ کی طرف پارکنگ سے لیکر داخلے
کے دروازے تک قطار میں وہی پہلے والی قطار کی کیفیت ہے ۔عوام ہیں کہ کتابوں
کے تھیلے اسی قطار جیسی کیفیت میں باہر جانے کے لیے ایکسپو سنٹر سے نکل رہے
ہیں ایک عید اور واقعی میلے جیسا سماں ہے جیسے دیکھ کر ہمیں محسوس ہوا کون
کہتا ہے کہ لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق کم ہو گیا ہے نہیں صاحب ہم نے جو
دیکھا تو ہمیں جیو ٹی وی پر پڑھا لکھا پاکستان کا بار بار واویلا’’ پاکستان
کا مطلب کیا‘‘ کاروبا ر سے زیادہ کچھ نہ لگا یا بلکہ کچھ خاص ایجنڈہ ہی لگا
ورنہ اگر جیو ٹی وی والے ان لوگوں کا شوق دیکھ رہے ہوتے تو پھر سیدھا سادہ
اور صحیح واویلا کرتے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الہّ اﷲ۔ اگرکچھ
لوگوں کو قائد ؒ کا یہ نعرہ بھول بھی گیا ہوتا تو پھر سے ازبر ہو جاتا اور
اس میں جیو ٹی وی والوں کی طرف سے کچھ پاکستان کی خدمت بھی ہوتی ورنہ وہ تو
اس کی شکل صورت بگاڑنے میں دن دوگنے رات چو گنی ترقی کر رہے ہیں۔ایک بات
منتظمین سے بھی کرنی ہے اتنی لمبی قطاروں کی تکلیف دے کر لوگوں کی خوشیوں
کو دھندلہ کر دیا گیا ۔صرف ایک واک اوور گیٹ بنا کر بہت ہی کم حوصلہ کا
مظاہرہ کیا گیا ہے دو کروڑ سے زائد کی آبادی کے شہر کے لو گوں کو ایسے اچھے
کتاب میلے میں آنے کی دعوت دے کر اتنے کم انتظامات کرنامناسب نہیں لگتا۔ اس
کے ساتھ ساتھ جگہ کی کمی بھی محسوس کی گئی اندر حالوں میں لوگوں کی بھیڑ
دیکھ کر گھبراہٹ ہونے لگتی تھی آگے نکلنے کا راستہ مشکل سے ملتا
تھا۔اسٹالوں کے درمیان جو لوگوں کے چلنے کی جگہ بنائی گی تھی بہت ہی کم تھی
خواتین بچوں اور مردوں کو آنے جانے میں بھیڑ کی وجہ سے خاصی تکلیف ہو رہی
تھی ایک جگہ انتظامیہ کے لوگوں کے بیٹھنے اور مسائل حل کرنے کے لیے بھی
بنائی گئی تھی وہاں ایک صاحب کھڑے ہوئے کسی کی رہنماہی بھی کر رہے تھے ہم
نے بھی سوچا ان خرابیوں سے ان کو آگاہ کریں مگر وہ صاحب دوسرے صاحبان کے
ساتھ دوسری طرف چلے گئے ہم وہاں پر بیٹھے کچھ اور لوگوں سے بات کرنی چاہی
مگر معلوم ہوتا تھا کہ وہ انتظامیہ والوں کے مہمان ہیں جو کچھ زیادہ تھک
گئے تھے اور آرام کر رہے ہم نے تو اپنی تھکاوٹ اپنی ہی اسلامک ریسرچ اکیڈمی
کے اسٹال پر بیٹھ کر نکالی۔ لہٰذا ہماری منتظمین سے گذارش ہے کہ آئندہ سال
انتظامات کے معاملے میں زیادہ سوچ بچار کر کے اس کو درست کرنے کی کوشش کریں۔
قارئین ہمیں تو معلوم نہیں [دی پاکستا ن پبلیشر بک سیلر اسوسی ایشن؍ نیشنل
بک فائڈیشن پاکستان] کہ ایسے کتاب میلے لاہور،پشاور،کوئٹہ اور اسلام آباد
میں بھی منعقد ہوتے ہیں کہ نہیں اگر نہیں تو پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں
میں ایسے کتاب میلے منعقد ہونے چائیں۔ ویسے ایک اچھی کاوش کے کتاب میلے کے
عمومی طور پرانتظامات اچھے تھے۔ |