گزشتہ دس با رہ سا لوں میں
پاکستان نے جس شعبے میں سب سے زیا دہ ترقی کی ہے ۔وہ میڈیا کا شعبہ ہے۔اس
شعبے میں جوانقلاب آ یا ہے۔وہ بہت ہی خو ش آ یئند ہے اور بلا شبہ یہ کر یڈٹ
سابق صدر جنرل پر ویز مشرف کو جاتاہے۔جس نے نہ صرف یہ کہ مختلف ٹی وی چینلز
کھو لنے کی ا جا زت دی بلکہ انہیں مکمل آ زادی بھی دی میڈیا اب ریا ست کا
چو تھا ستون بن گیا ہے اور آج یہ ستون اتنا طا قتور ہو گیا ہے کہ اقتدار
میں آ نے کے لئے اب اس ستون کا سہارا لینا ضروری ہو گیا ہے۔اس وقت بفضلِ
خدا میڈیا کو مکمل آزادی حا صل ہے۔وہ جو چاہے کرے اور جس سیا ستدان یا جس
شخصیت سے جو چا ہے، سوال پو چھے،کو ئی روک ٹوک نہیں۔ پاکستانی آئین نے
میڈیا کو جو آ زادی دی ہے،وہ بھی اس کی انقلاب آ فریں تر قی میں معاون ثابت
ہو ئی ہے،اس میں جو کشش ہے۔اس کیوجہ سے تعلیم یا فتہ نو جوان گر وہ در گروہ
میڈیا میں داخل ہو رہے ہیں۔میڈیا میں بہت سا ری بر ائیوں کے با وجود اس پر
لو گوں کا اعتبار قائم ہے۔
بہت سے لوگ اب بھی اپنے مسائل کو میڈیا کے ذریعے ار با بِ ا ختیارکے ذریعے
زیرِ غور لا نے کی کو شش کرتے ہیں۔ میڈیا کے فروغ اور ٹی وی چینلوں کی
تعداد میں روز افزوں اضافہ کے سبب چینلوں کے ما بین ز بردست مقابلہ بھی چل
رہا ہے۔اور بر یکنگ نیو ز کے لئے جانے کیسے کیسے پا پڑ بیلنے پڑتے
ہیں۔البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بر یکنگ نیوز کے اس رجحان نے حقیقی بر
یکنگ نیوز کے تصور کو ہی پا ش پاش کر دیا ہے۔یہ رجحان میڈیا کے وقار اور
اعتبار میںگراوٹ کا سبب بن سکتا ہے اس پر نیوز چینلوں کے ذمہ داروں کو غور
کرنا چا ہئے۔اس صورتِ حال نے سنجیدہ صحافت کو بھی نقصان پہنچایاہے۔تاہم
ابھی اتنا نقصان نہیں پہنچا کہ اس پر اعتبار ہی اٹھ جائے۔ آ ج بہت سارے لوگ
نیوز چینلوں کے اس خرابی کا بھی اکثر ذکر کرتے ہیں کہ ایک جیسے بڑے واقعہ
کو جو وقت دیا جاتا ہے اس میں نما یاں فرق ہو تا ہے۔مثلاپشاور یا جمرود میں
بم دھماکہ ہو جائے تو اسے اتنا وقت چینلز نہیں دیتے جتنا وقت اس سے کم نو
عیت کے واقعہ کراچی یا لا ہور میں ہو نے والے واقعے کو دیا جا تا ہے۔
بلا شک و شبہ میڈیا یعنی اخبارات،ریڈیو،ٹی وی،کمپیو ٹر،ہوم ویڈیو اور انٹر
نیٹ وغیرہ کی آ ج پو ری دنیا میں زبردست اہمیت ہے۔ آج کی دنیا بیل کی سینگ
پر نہیں ،میڈیا کے سینگ پر ٹکی ہو ئی ہے۔ میڈ یا ہماری سما جی،
معاشی،تجارتی،تعلیمی،تہذ یبی اور ثقا فتی زندگی پر بری طرح ا ثر انداز ہو
رہی ہے۔انسانی زندگی کا کو ئی بھی شعبہ ایسا نہیںہے جو میڈیا کی دسترس سے
دور ہو۔
اس ٹیکنالوجی نے شاہراہِ ترقی پر اتنی طویل اور اتنی اونچی جست لگائی ہے کہ
انسانی جذ بات و احساسات اور خیالات کو بھی با ا لواسطہ طور پر متا ثر کرنا
شروع کر دیا ہے۔ لیکن یہاں ایک بات جو ہمارے ذہنوں میں کھٹک رہی ہے وہ یہ
ہے کہ بلا شبہ میڈیا کے ذرائع یعنی ٹی وی چینلز، اخبارات وغیرہ تو آج ہماری
زندگی کے تمام تر شعبو ں اور پہلوﺅں پر اثر انداز ہو رہے ہیں، لیکن کیا کو
ئی ایسی چیز بھی ہے جو ذ را ئع ابلاغ پر اثر انداز ہو رہی ہو ؟ میرے خیال
میں جی ہاں ! ایک چیز ایسی ہے جو میڈیا پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔
اور وہ ہے پیسہ، پیسے نے ان ذرائع کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا ہے اور یہ گرفت
جتنی سخت ہوتی جا رہی ہے یہ ذرائع اتنی ہی بلند آ وازمیں پر و پیگنڈا کرتے
ہیں۔
گویا اس طرح میڈیا ، خواہ وہ طباعتی ہو یا نشریاتی، بازار کی شئے بن کر رہ
گئی ہے۔ ٹی وی چینلز ایک ایک دکان لے کر بیٹھ گئے ہیں۔جہاں سے وہ اپنے اپنے
مال کا پرچار اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں ۔الیکٹرانک میڈیا اس وقت زبردست بھا گ
دوڑ میں مبتلا ہو گئی ہے۔وہ اب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں اپنی بقاءکا
راز سمجھتے ہیں ۔ان کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے اور جنگ میں جا ئز یا نا
جائز سب کچھ ر و ا سمجھا جاتاہے۔اس مقا بلہ نے سنسنی خیزی کو بری طرح بڑ ھا
دیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں معیا ر پست ہو نے کا ز بردست خطرہ بھی ہے ۔ سنسنی
پیدا کرنے کے لئے غیر اخلاقی طر یقہ کا ر اپنا نے سے بھی گریز نہیں کیا
جاتا اور مقا بلہ آ رائی کے اس دور میں دا نستہ یا نا دانستہ صحا فیو ں سے
غیر صحافتی جرم بھی سر زد ہو سکتے ہیں۔
آ ج ہما را معا شرہ اس قدر کر پٹ اور بد عنوان ہو گیا ہے اور کر پشن ہما رے
رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی ہے کہ اب کرپشن معیوب بات ہی نہیں رہ گئی
ہے۔ اکثر سیاستدانوں کی ابن ا لوقتی، مو قع پرستی یا پھر بد لتی ہو ئی معا
شی اور معا شرتی حالات کے سبب کر پشن بری طرح پھل پھول رہی ہے اور بری طرح
پھیلتی اس برائی کو اجاگر کرنے کا کام اگر اس وقت صحافی حضرات کرتے ہیں تو
یہ انتہا ئی لا ئق تحسین بات ہے۔ گویا میڈیا میں اس وقت منفی اور مثبت دو
نوں با تیں ایک ساتھ چل رہی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کے افراد
منفی چیزوں سے دامن بچاتے ہو ئے مثبت قد روں کو فروغ دینے میں بھر پو کردار
ادا کر نے کی کو شش کریں ۔۔ |