دس دسمبر کوانسانی حقوق کاعالمی
دن قراردیاگیاہے۔اس دن کو انسانی حقوق کے نام سے معین کیاجاناان کوششوں کی
یاد دلاتاہے جوانسانی حقوق کے احترام کے مقاصد سے انجام دی جا رہی ہیں۔ جس
وقت اقوام متحدہ کامنشورتیارکیاجارہا تھا اسی وقت، انسانی حقوق کاموضوع
مختلف ملکوں کے نمائندوں کی توجہ کامرکزتھا۔اسی مشترکہ نظریہ کے پیش نظر
جنوری انیس سوسینتالیس میں انسانی حقوق کاکمیشن تشکیل پایاجس کے نتیجے میں
انیس سواڑتالیس مین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بل منظور ہوا۔اس
وقت انسانی حقوق کااعلامیہ جاری ہوئے ساٹھ سال کاعرصہ گذرچکا ہے جس
کامشترکہ مقصد ہرانسان کے لئے آزادی کی سوغات اورظلم وناانصافی نیزہرطرح کے
امتیازی سلوک سے پرہیزکرناتھا۔اس کے باوجود ظلم و زیادتی اور جبر و استحصال
کرنا ملکوں کے لیے اور افراد کے لیے اب عام بات ہو گئی ہے۔جہاں ایک جانب
ظلم و زیادی کے خلاف انسانی حقوق کی ملکی و بین القوامی تنظیمیں سرگرم عمل
ہیں تو وہیں دوسری طرف اس ظلم و زیادتی میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا
ہے۔ٹھیک اسی ظلم و زیادتی اور انسانی درندگی کا ایک واقعہ راجستھان میں
سامنے آیا ہے۔جس کو سن کر اور پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
پچّیس ہزار دو نہیں تو دونوں ہاتھ:
ریاست راجستھان کے کرولی ضلع کے گاؤں میں ایک شخص پپّو شرما کے مخالفین نے
اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے۔کٹے ہاتھوں کے ساتھ جے پور کے اسپتال کے بستر پر
پڑے پپو کا کہنا ہے کہ گاؤں کے ہی کچھ لوگ جمعہ کو زمین کے تنازعے کے سبب
انہیں گھر سے اٹھا کر لے گئے اور پھر ان کے ہاتھ کاٹ دیے۔ان کا کہنا ہے کہ
انہوں نے اپنے مخالفین کو اپنی بوڑھی ماں اور معصوم بچوں کا واسطہ بھی دیا
لیکن رحم کی اپیل بھی کام نہ آئی۔انہوں نے بتایا کہ میرا آٹھ سال کا بچہ
ہنس راج اداس صورت کے ساتھ مجھے دیکھتا ہے۔ میں کتنا بد قسمت ہوں کہ اپنے
بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیر کر اسے تسلی بھی نہیں دے سکتا۔اسپتال میں پپو کے
پاس بیٹھی ان کی بوڑھی ماں کہتی ہیں"پپو میرا اکلوتا بیٹا ہے، اب مجھے
بڑھاپے میں کون سہارا دے گا؟ اس کے تو ہاتھ نہیں رہے"۔پپو کے مطابق ملزم
انھیں گھر سے بلا کر ہری گوٹھیا کے یہاں لے گئے تھے اور رات بھر یرغمال
بنائے رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اُن لوگوں نے پہلے تو انھیں ادھار لیے گئے
پچیس ہزار روپے واپس دینے کو کہا۔پپّو کے مطابق بعد میں وہ لوگ ان سے جبراً
زمین کے کاغذات پر دستخط کروانے لگے اور کہنے لگے، تو نے ہری کی بیٹی کے
ساتھ برا سلوک کیا ہے۔ پپو کا کہنا تھا کہ جب میں نے کاغذات پر دستخط سے
انکار کیا تو میرے ہاتھ ہی کاٹ دیے گئے۔پپّو شرما کے مطابق ہاتھ کاٹنے کے
بعد اسے دھکا دے کر باہر کر دیا اور وہ جاتے جاتے کٹے ہاتھ اپنے ساتھ لے
گئے"میں گرتے پڑتے گھر پہنچا، مجھے لہولہان دیکھ کر ماں بے ہوش ہوگئی، پھر
کسی نے ایمبولنس بلائی اور مجھے ڈاکٹر کے پاس سپوٹرا لے جایا گیا اور پھر
ڈاکٹر نے مجھے جے پور بھیج دیا"۔پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا
واقعی پپو نے کوئی پیسے ادھار لیے تھے یا اس نے کسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی
تھی یا نہیں۔
ظلم و زیادی کا ایک اور رخ بھی ہے:
ظلم و زیادتی کا دوسرا رخ وہ ہے جب کہ مظلوم و بے سہارا لوگوں کا کوئی
پرسان حال نہیں ہوتا۔ غریب و مظلوم کبھی بے عقیدہ ہونے کی وجہ سے یا کبھی
مسائل میں گرفتار ہونے کی بنا پرخود کشی کر لیتے ہیں۔ہندوستان کے نیشنل
کرائم ریکارڈ بیور (این سی آر بی) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں
ہر گھنٹے میں کم سے کم سولہ افراد کی موت خودکشی کے سبب ہوتی ہے۔این سی آر
بی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سنہ دو ہزار گیارہ میں ایک لاکھ پینتیس
ہزار لوگوں کی موت خود کشی کے سبب ہوئی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ
زیادہ تر خودکشیوں کے اسباب خانگی مسائل، ناجائز حمل اور کیریئر میں ناکامی
ہیں۔سنہ دو ہزار گیارہ میں طلاق کے سبب خودکشیوں میں چوّن فیصد اضافہ ہوا
ہے جبکہ ناجائز حمل کے سبب اموات میں بیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ میں
یہ بھی کہا گیا ہے کہ خودکشی کرنے والوں میں سے ستّر فیصد افراد شادی شدہ
تھے اور اس معاملے میں راجستھان ایسی ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ کنبوں نے
ایک ساتھ خودکشی کی ہے۔واضح رہے کہ ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے
جہاں لوگ سب سے زیادہ خود کشی کرتے ہیں۔لندن سے شائع ہونے والے جریدے لانسٹ
میں شائع تحقیقی رپورٹ جو عالمی صحت کی تنظیم ڈبلیو ایچ او نے کی ہے کے
مطابق سنہ دو ہزار دس میں بھارت میں ایک لاکھ نوے ہزار افراد نے خود کشی کی
جبکہ عالمی سطح پر ہر سال تقریباً نو لاکھ افراد خود کشی کرتے ہیں۔راجستھان
کا ہاتھ کاٹنے کا واقعہ، ہندوستان میں خود کشی کے واقعات اور اسی طرز کے
دیگر واقعات ہندوستانی معاشرہ، اس کے طرز عمل اور عقائد و معاملات پرروشنی
ڈالتے ہیں۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم وزیادتی کے واقعات بڑی تیزی کے ساتھ
ہندوستانی معاشرہ کو برباد کر رہے ہیں۔اس تباہی و بربادی میں جہاں ایک جانب
ہندوستانیوں کے مذہبی معاملات،عقائدو نظریہ حیات کی کمزوری کی عکاسی ہوتی
ہے وہیں دوسری جانب مغربی افکار کی یلغار اور اس میں ملوث طرز حیات بھی وجہ
بن کر سامنے آرہی ہے۔ان حالات میں حقوق انسانی کے علمبرداروں کو چاہیے کہ
اپنے افکار و نظریات میں تبدیلی لائیں۔اور ان تمام طریقوں اور رویوں میں
تبدیلی لائیں جن کی تبدیلی سے مثبت نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔اگر ایسا
نہیں کیا گیا تو ممکن ہے کہ حقوق انسانی کے عالمی دن تو اسی طرح10دسمبر کو
بڑے پیمانے پر منائے جاتے رہیں اور منانے کے درمیان ظلم و زیادیتوں کے خلاف
باتیں اور وعدے بھی ہوں لیکن یہ ممکن نہیں کہ ظلم و زیادیتاں کم ہوں یا ان
پر قابو پایا جا سکے ۔
یوم انسانی حقوق منانے والے ادھر بھی متوجہ ہوں:
ریاست جموں و کشمیر میں سرگرم انسانی حقوق کی دو سرکردہ تنظیموں ایسو سی
ایشن آف پیرنٹ آف ڈس اپیرڈ پرسنس(اے پی ڈی پی) اور انٹر نیشنل پیپلز
ٹربیونل آن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس(آئی پی ٹی کے) نے گزشتہ22برسوں کے دوران
ریاست میں پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں کے ذریعہ کی جانے والی انسانی
حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے متعلق اپنی نوعیت کی پہلی مفصل رپورٹ پچھلے
ہفتہ جاری کی ہے۔جس میں فوج،پولیس اور نیم فوجی دستوں کے پانچ سو افسروں
اور اہلکاروں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا
گیا ہے کہ فرضی جھڑپوں، حراست کے دوران اموات اور جنسی زیادتیوں کے
214معاملات میں مبینہ طور پر 335فوجی اہلکاروں، 123نیم فوجی اہلکاروں،
111مقامی پولیس اہلکاروں اور فوجی اداروں سے وابستہ31سابقہ عسکریت پسندوں
کو ملوث پایا گیا ہے۔رپورٹ میں1990سے سال2011تک سرکاری فورسز کی طرف سے
مبینہ طور پر انجام دئے گئے 469انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات جن
میں124ہلاکتوں65گمشدگیوں59تشدد اور 9عصمت ریزی کے کیسوں کا احاطہ کیا گیا
ہے۔رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 1990میں ریاست میں مسلح جدوجہد شروع
ہونے کے بعد پولیس، فورسز اور فوج کے اہلکارو افسران کے ہاتھوں بڑے پیمانے
پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سرزد ہوئیں۔ جن میں عصمت دری، قتل، اغوا اور
گرفتاری کے بعد قتل کرنے کے واقعات بھی شامل ہیں۔رپورٹ کے مرتبین میں سے
ایک ہیومن رائٹس وکیل مسٹر کارتک ماروکتلا کا کہنا ہے:"ہندوستان کی اولین
ترجیح انصاف فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ کشمیر پر اپنے کنٹرول کو برقرار رکھنا
ہے"۔ہمارے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اول بیشتر کیسوں میں مضحکہ خیز
یا مذاقیہ طور پر تحقیقات عمل میں لائی گئی اور قصورواروں کو بچانے کی کوشش
کی گئی ہے، دوم نچلی عدالتوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالتوں نے حکومتوں کے
کہنے پر کام کیا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کے حوالے سے
اپنا رول ادا کیا"۔مزید کہتے ہیں:"کشمیر میں انسانی حقوق کے خلاف ورزی کے
بعد انصاف فراہم کرنے کی ضرورت کو نقد معاوضہ اور تحقیقات کا نام دیا گیا
ہے جبکہ اصل انصاف قصورواروں کو سزا دینا ہوتا ہے اور گزشتہ بائیس سال کا
ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ہند فوج یا دوسری فورسز کے ملوث اہلکاروں کو
کبھی سزا نہیں دے گی"۔معروف صحافی اور حقوق انسانی کے کارکن گوتم نولکھا کا
کہنا ہے کہ رپورٹ گو کہ ملوث افسروں اور اہلکاروں کی نشاندہی کرتی ہے، لیکن
جموں کشمیر اور ہندوستان میں انصاف فراہم کرنے کے اداروں نے ان افراد کی
پشت پناہی کی ہے"( افتخار گیلانی کے مضمون کا اقتباس)۔مضمون طویل ہے جس میں
رپورٹ کے مزید پہلوﺅں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور رپورٹ مضمون سے بھی زیادہ
طویل ۔ضرورت ہے کہ سب سے پہلے یوم حقوق انسانی منانے والے اور اس کے بعد ہر
وہ شخص جو دوسروں کے دکھ درد اور تکلیف کو محسوس کر سکتا ہو، انہیں چاہیے
کہ موجودہ حالات پر غور وفکر کریں اور دیکھیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو انسانی
حقوق کو کھلے عام پامال کررہے ہیں،اس کے باوجود نہ ان سے سوال و جواب ہوتا
ہے اور نہ ہی قانونی کاروائی!
عدل و انصاف اور اسلام:
کہا کہ:" اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے
اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ
کردے کہ انصاف سے پھرجاﺅ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر
ہے"(المائدہ:۸)۔ یہ فرمانے پر اکتفا نہیں کیا کہ انصاف کی روش پر چلو، بلکہ
یہ فرمایا کہ انصاف کے علمبردار بنو۔ تمہارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں ہے
بلکہ انصاف کا جھنڈا لے کراٹھنا ہے۔ تمہیں اس بات پر کمر بستہ ہونا چاہیے
کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل و راستی قائم ہو۔ عدل کو اپنے قیام کے لیے جس
سہارے کی ضرورت ہے ، مومن ہونے کی حیثیت سے تمہارا مقام یہ ہے کہ وہ سہارا
تم بنو۔یعنی تمہاری گواہی محض خدا کے لیے ہونی چاہیے ، کسی کی رو رعایت اس
میں نہ ہو، کوئی ذاتی مفاد یا خدا کے سوا کسی کی خوشنودی تمہارے مدِّ نظر
نہ ہو۔اس پس منظر میں مسلمان جس مقام اور جس ملک میں بھی رہتے بستے ہوں
انھیں چاہیے کہ وہ بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، ان پر عمل
کریں اور دیگر رابطہ میں رہنے والے لوگوں کو بھی اس کار عظیم کا حصہ
بنائیں۔نہ صرف ہندوستان بلکہ فی الوقت پوری دنیا میں ظلم و زیادیتوں کے
معاملات بڑے پیمانہ پر سامنے آرہے ہیں۔ان حالات میں اسلام پر عمل کرنے
والوں پر لازم آتا ہے کہ وہ سب سے پہلے خود مکمل طور پر اسلام پر عمل پیرا
ہوں اور ساتھ ہی اسلامی تعلیمات جو دراصل تمام عالم انسانیت کے لیے امن کا
پیغام رکھتا ہے اس کو عام کریں، پھیلائیں، سمجھائیںاور منظم سعی و جہد کریں۔
اسی صورت ممکن ہے کہ ملک عزیز ہند سے بھی اوردنیا کے دیگر مقامات سے بھی
ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہوجائے۔لیکن اگر مسلمانوں نے اپنا فعال کردار ادا
نہیں کیا اور خود بے کار یا عضو معطل بن کر رہے تو ممکن نہیں کہ دنیا میں
امن و امان قائم ہوپائے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ موجودہ حالات ، اس کی
دشواریوں اور مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہوئے امن و امان کے لیے نہ صرف غور و
فکر کریں بلکہ میدان عمل میں بھی اتر جائیں۔کیونکہ جو لوگ غور و فکر نہیں
کرتے اور اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے ان کے بارے میں اسلام کہتا
ہے کہ انھیں کیا ہو گیا ہے کہ جانوروں کی طرح بے سوچے سمجھے زندگی گزار رہے
ہیں۔ لہذا چاہیے کہ دنیا کے آغاز و انجام پر غور کریں ۔ عمل کی اسلام پوری
آزادی دیتا ہے البتہ ہر شخص کو اس بات کی پابندی ضرور کرنی ہو گی کہ کوئی
ایسا قدم نہ اٹھائے، جس سے فساد پھیلے اور معاشرہ کو نقصان پہنچے۔ پیغمبروں
کی دعوت کی اولین بنیاد توحید ہوتی تھی، یعنی یہ کہ اللہ واحد کی عبادت کی
جائے۔ درحقیقت اس وقت دنیا کے طاقت ور ممالک خود ظلم کو فروغ دینے والے اور
خود ہی انسانی حقوق کو پامال کرنے والے بن گئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ خود کو
انسانی حقوق کا چمپیئن کہلواتے ہیں۔اس کی واضح مثالیں فلسطین، عراق،
افغانستان اور ان ہی جیسے بے شمار ممالک اور مقامات پر موجود ہیں جہاںنہ وہ
صرف طاقت ور ممالک کمزوروں پر ظلم و زیادتی میں ہر لمحہ اضافہ کر رہے ہیں
بلکہ انسانی جان کی بھی وہ کھلے عام بے حرمتی کر رہے ہیں۔اس کے برخلاف قرآن
تمام عالم انسانیت اور برسر اقتدار لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:"
زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے"(الاعراف:56)۔یعنی
زمین کے انتظام کو خراب نہ کرو۔ انسان کا خدا کی بندگی سے نکل کر اپنے نفس
کی یا دوسروں کی بندگی اختیار کرنا اور خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے اخلاق،
معاشرت اور تمدن کو ایسے اصول و قوانین پر قائم کرنا جو اللہ کے سوا کسی
اور کی رہنمائی سے ماخوز ہوں، یہی وہ بنیادی فساد ہے جس سے زمین کے انتظام
میں خرابی کی بے شمار صورتیں رونما ہوتی ہیں اور اسی فساد کو روکنا قرآن کا
مقصود ہے۔اور یہی مقصد ہمارا اور آپ کا بھی ہونا چاہیے۔ |