ننھی کلیوں کی سسکیاں اور میڈیا

یوں تو آئے دن ملک کے طول وعرض میں عصمت دری کے واقعات رونما ہوتے ہیں ، مگر وہ ہنگامہ آرائی نہیں ہوتی جو دہلی کے’ حالیہ‘ واقعہ پر جاری ہے ۔ اس واقعہ میں اصلاً کن کی شمولیت ہے یا کون ہنگامہ آرائی کروارہا ہے ،اس پر با وثوق گفتگو کرنا انتہائی محال ہے ، البتہ دور دور تک میڈیا کی ہی کرم فرمائی نظرآتی ہے ، میڈیا اہلکاروں نے ضرورت سے زیادہ اس مسئلہ کو موضوع گفتگو بنایا کہ ایوان سلطنت بھی لرزہ براندام ہوگیا ، عام آدمی سے لے کر صدرجمہوریہ اوروزیراعظم تک نے اس مسئلہ پر کچھ نہ کچھ کہنا ضروری سمجھا ، حتی کہ حکومت نے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کی غرض سے کمیشن تشکیل دے دی ۔
راقم الحروف کو اس سے قطعی انکار نہیں کہ حکومت کو بیدار نہیںہونا چاہئے یا کمیشن کی تشکیل نہیں ہونی چاہئے ، چونکہ شاید کمیشن کی رپورٹ یااس کی رائے کو حکومت لوہے کی لکیر مان کر کوئی قانون بنائے ، اس لئے چند سطور بعد اس تعلق سے گفتگو ضروری ہے، یہاں صرف یہی کہنا ہے کہ آخر میڈیا اس واقعہ پر اتنا مہربان کیوں ہوگیا ؟اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے زمین وآسمان کے قلابہ ملانے میں وہ اس قدر منہمک کیوں ہے ؟کیوں نہیںاسے دیگر سنگین واقعات نظر آتے ہیں ؟کیا ملکی قانون میں سب سے بڑا جرم عصمت دری ہی ہے ؟میڈیا کی اس بیداری کو بھی گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اگر واقعی میڈیا اہلکار سماجی برائیوں کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دیگر رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات پر بھی توجہ دینی تھی، تاکہ ان برائیوں کی قباحتیں دوچند ہوتی اورمعاشرہ اس پر مثبت فکر حامل بننے کی کوشش کرتااور حکومت بھی اس کے روک تھام کے لئے کچھ نہ کچھ عملی اقدام کرتی ۔ ہنگامہ خیز اس واقعہ کی سنگینی کو بھی مدنظر رکھیں اوراس عمل کی بھی ، جس میں ننھی کلیوں کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم کردیا جاتا ہے ، ذراغور کریں کے اس واقعہ کو سہ سرخیوں میںلانے کی ضرورت نہیں ہے ؟کیاان واقعات کو فوکس کرنا میڈیا کے لئے معیوب کن ہے ؟اس ضمن میں تمام تررپورٹ سے قطع نظر صرف ریاست اتراکھنڈ کی رپورٹ کو مرکوز نظربنانا ہی مناسب ہے ، کیونکہ اس واقعہ میںبھی میڈیا اور سماج کے ضمیر کو بیدار کرنے کا سامان بدرجہ اتم موجود ہے ،سالانہ میڈیکل سروے کے مطابق 2010-11میں اس ریاست کی 4ہزار344بیٹیاںپیداہونے سے قبل ہی دفن کردی گئیں ، اضلاع کے اعتبار سے اعداد وشمار کچھ اس طرح ہے ، دہرادون 968، ہری دوار 960، اودھم سنگھ نگر 699، پتھوڑا گڑھ 386، پوڑی242، ٹہری 225، الموڑا211، چمولی ،178 نیتی تال 137، باگیشور137اور اترکاشی میں120ننھی کلیاں چٹکنے سے قبل ہی مرجھاگئیں ، سوال یہ ہوتا ہے کہ میڈیا اہلکار ان کی ڈوبتی سسکیوں پر کیوں چراغ پا نہیں ہوتا ہے ؟آخر وہ ایسے سنگین واقعات سے کیوں منہ چھپاتا ہے ؟میڈیا کو چاہئے تھا کہ ایسے دلدوز حقائق کی طرف بھی توجہ کرتا اوران منفی رجحانات کے خاتمہ کے لئے کمر کستا ، اس کی قباحتوں کو اجا گر کرنے میں ا ن لوگوں سے رابطہ کرتا جو اس منفی رجحانات کوختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔ پھر اسقاط حمل کے اسباب ومحرکات پر گفتگو ہوتی ، مگر بد قسمتی کی بات ہے کہ انہیں ایسے دلدوز مسائل سے کوئی سروکار نہیں ۔
اوپر تو صرف ایک ریاست کے اعداد وشمار پیش کئے گئے ہیں ،اندازہ تو لگایا ہی جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی 28 اور مرکز کے زیر انتظام 7ریاستوں میں اسقاط حمل کے کتنے معاملات ہوتے ہوںگے ،جنہیں اعداد وشمار کی فہرست میں جگہ نہیں مل پاتی ہے ۔ حالیہ دنوں کئی ایک نکشافات ایسے ہوئے ہیں جن کی سنگینی سے روح کانپ اٹھتی ہے ، مگر میڈیا نے انہیں سرسری بھی نہیں لیا ہے ۔کیا متواتر اسقاط حمل کی سنگینی بھی کم ہے کہ میڈیا اس پر توجہ بھی نہ دے ۔ دارالحکومت دہلی میں واقع معروف اسپتال کلاوتی سرن چائلڈ میں گذشتہ پانچ برسوں کے درمیان 10 ہزار18 معصوموں نے دم توڑا ، اس کا انکشاف ایک آر ٹی آئی درخواست سے ہوا ہے ،اسپتال سے موصولہ تفصیلات کے مطابق جنوری 2008سے یکم جولائی 2012تک اتنے بچوں کی موت ہوئی ،2008میں سب سے زیادہ 2713 بچوں کی موت ہوئی ،2009میں2499،2010میں2144،2011میں 1782،اور 2012میں یکم جنوری تا یکم جولائی 943بچوں نے ممتا کی پیکر ماں کو تڑپا کر دم توڑدیا ، اسی کے ساتھ اس رپورٹ پر بھی نگاہ ڈالنا مناسب ہے کہ ہندوستان میں چار برسوں میں تقریبا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے 3لاکھ 28ہزار 847واقعات سامنے آئے ہیں ،لوک سبھا میںسنجو گنیش نائک اور سیریا کے سوال کے تحریری جواب میں داخلہ امور کے وزیر مملکت آر پی این سنگھ نے کہا کہ 2009-10میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے 18ہزار 594کیس ہوئے ،2010-11میں 84ہزار 359،2011-12میں 94ہزار635اور 2012-13میں نو مبر تک 68ہزار 259کیس درج کئے گئے ہیں ۔ یہ ایک عمومی رپورٹ ہے جو واقعی سنگین ہے اور سماج کو منھ چڑھانے والی ناقابل تردید حقیقت بھی، مگر کیا وجہ ہے اس پر کسی کی توجہ نہیں ہوتی ، حتی کہ اعلی افسران بھی ان معاملوںکو گہرائی سے نہیں لیتے ہیں ، کلاوتی اسپتال والا معاملہ بھی کس قدر شرمناک ہے ، لیکن اس کا انکشاف بھی ہوا تو آرٹی آئی سے ،اگر ایسی کوئی درخواست نہیںدی جاتی تو بعید از امکان نہیں کہ یہ معاملہ بھی سامنے نہیں آتا ، یعنی میڈیا اہلکار بھی غافل اور ملک کے رکھوالے بھی ۔ آخر کوئی کیوں نہیں کرتاہے ان کلیوں کی سسکیوں کی بات ؟ واقعی سچ کہا ہے مسڑ کاٹجو نے کہ آخر کیوں ہے حالیہ واقعہ پر ایک ہنگامہ برپا ؟ دیگر اہم معاملے کیوںنظرانداز کئے جارہے ہیں؟۔

جی ہاں ورمااور اوشا مہراکمیشن تشکیل پا گئی ہیں ،اب تو ان کی رپورٹ کے مدنظر ہی حکومت قانون میں ترمیم کرے گی اور دیگر امور کی طرف توجہ بھی ، ان کی صواب دید پر ہی موقوف ہے کہ زانیوں کو پھانسی کی سزا دلوائے یا عمر قید ، بہر حال اس پر ابھی زیادہ کچھ کہنا جلد بازی ہوگی،کیونکہ ایک کمیشن کو ایک ماہ اور دوسرے کوکوئی تین ماہ میں رپورٹ پیش کر نی ہے ، پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ اس متعینہ مدت میں رپورٹ پیش ہوپائے یا نہیں ، وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے، کیونکہ کمیشن بننے کے بعد ہمیشہ ٹال مٹول کاکھیل ہوتا ہی رہتا ہے ، اوراگر رپورٹ آ بھی جائے تو اس پر عملدرآمد بھی ہو کہ نہیں ۔ ان کمیشن اور لیڈروں کے بیانات کے مدنظر عمومی بات تو کی جاسکتی ہے ،دیگر قابل ذکر تنظیم اور لیڈروں کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ لڑکی کی عصمت تار تار کر نے والوں کو سنگسار کیا جائے یا پھر پھانسی کی سزا دی جائے ۔مانا کہ کمیشن کا بھی کہنا ہو کہ پھانسی کی سزا ہی ضروری ہے تو سوال یہ پیدا ہو گا کہ آخر یک طرفہ کارروائی سے مسئلہ حل ہوجائے گا ؟ کیا ہر عصمت دری معاملہ میں صد فیصد لڑکے کی ہی خامی ہوتی ہے کہ صرف اسے ہی سزا دی جائے اور لڑ کی کو نہیں ۔ کوئی بھی قانون بنانے یا سزا مقرر کر نے سے قبل ان واقعات کے رونما ہونے کے اسباب پر غور وخوض کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنا لازمی ہے کہ کون کتنا ذمہ دار ہے ؟اس میںتو کوئی شک نہیں کہ عصمت دری بلکہ لڑکی سے جڑا کوئی بھی معاملہ ہمیشہ لڑکا ہی ماخوذ ہوتا ہے ، قانونی کارروائی فقط اس پر ہو تی ہے ، حتی کہ اس صورتحال میں بیچارہ لڑکا لڑکیوں کے رحم وکرم پر ہی منحصر ہوتا ہے ، اگر کوئی جوڑا گھر سے فرار ہو تو لڑکی کے گھر والے ہی اولاً رپورٹ درج کر واتے ہےں کہ فلاں کا لڑکافلاں میری لڑکی کو پھسلا کر لے اڑا ہے ،حالانکہ 60یا 70فیصد نہ سہی 50فیصد تو لڑکی کی بھی رضامندی ہوتی ہے ، اب یہی مسئلہ کورٹ میں پہنچتا ہے تو یہاں بھی لڑکیوں پر لڑکا منحصر کہ اگر لڑکی کہے کہ میں بالغ ہوں ، میری مرضی جس سے چاہوں شادی کر لوں تو لڑکا محفوظ ہے ، ،مگر وہ کہے کہ نہیں لڑکے نے جبراً مجھے بھگایا ہے تو بے چارے کی شامت آجاتی ہے ، چاہے بھاگتے وقت دونوں راضی بہ رضا کیوں نہ ہوں ، جب یہ صورتحال ہے تو کسی ایک کے لیے پھانسی ، عمر قید یا دیگر سخت سزا کی وکالت کہا ں کی دانش مندی ہوگی اورکہاں کا انصاف ہوگا؟

عموماً ایسا ہی ہو تا ہے کہ لڑ کیوں کی تساہلی و نرمی اور اس کی دلفریب اداﺅں سے لڑکے بے راہ ہوتے ہیں اور غلط اقدامات پر مجبور بھی ، اس لحاظ سے ایسا لگتا ہے کہ لڑکوں پر نہیں ، لڑکیوں کے خلاف ہی تمام تر کاروائی ہو ، تاکہ وہ اپنی مسحور کن باتوں اور دلفریب اداﺅں کو چھپانے کی کوشش کرے ۔ مگر ظاہر ہے ایسا ہو نہیں سکتا ہے تو کم ازکم اتنا ضرور ہو کہ یکطرفہ کا روائی نہ ہو ، بلکہ اس عمل میں ملوث دونوں کے خلاف کاروائی ہو اور Love in relationship کے قانون پر بھی از سر نو غور کیا جائے ، تاکہ ایسے واقعات میں کمی آئے ۔ عصمت دری اور عورتوں سے زیادتی کے بیشتر واقعات میں عورتوں کا ہی قصور ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ دیگر غیر مسلم افریقی ممالک بھی اس کے روک تھام کے لیے عورتوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں ،بی بی سی عربی کی تازہ خبر یہ ہے کہ غیر مسلم افریقی ملک میں لڑکیوں کے پتلوں پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ، افریقی ملک سوازی لینڈ کا ما ننا ہے کہ مغربی کلچر اور مختصر لباس اپنانے سے عورتوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہوتے ہیں ، چنانچہ ایسے واقعات کے روک تھام کے لئے سب سے پہلے عورتوں کے لباس پر توجہ دی جانی چاہئے، یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں مختصر اور چست لباس پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ، اس کی خلاف ورزی کی صورت میں 6ماہ کی جیل اور سو ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا ہے ،واقعی لڑ کیوں کا لباس اور بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ، اس جانب بھی توجہ کیا جانا ضروری ہے ، کیو نکہ ان کے ایسے چست لباس ، جن میں انگ انگ ابھر کر سامنے آئے ،بھی ان کے خلاف زیادتی میںاہم کردار اداکرتے ہیں ، ان پہلوﺅں سے صرف نظر کر کے بنایا گیا کوئی بھی قانون کار آمد نہیں ہوگا ۔

اب رہا یہ سوال کہ کیا جب کوئی پانچ چھ سالہ بچی کی عصمت دری ہوتی ہے تو اس میں اس بچی کا قصور ہو تا ہے ؟کیا وہ بھی دلفریب اداﺅں اور چست لباس سے اپنی طرف لوگوں کو مائل کر تی ہے؟کیا ایسے میں بھی لڑکے کو بے گناہ سمجھا جائے ؟کیا اس صورت حال میں بھی دونوں کو سزا دی جائے ؟ جی ہاں میرا ما ننا ہے کہ اگر کوئی لڑکا دس برس سے کم عمر کی کسی لڑکی کو ہوس کاشکار بنائے تو تنہا اسے فی الفور سرعام سنگسار کیا جائے ،اسی طرح اگر کوئی لڑکا و لڑکی بہ رضا ورغبت ایسی کوئی حر کت کرے تو دونوں کو سنگسار کیا جائے اور اگر کوئی زنا بالجبر کرے تو یہ دیکھا جائے کہ لڑکے نے کس صورتحال میں اسے ہوس کا شکار بنا یا ہے،لڑکی کس حد تک باپردہ تھی ، اگر لڑکی ایسے لباس یا ایسی حالت میں تھی ، جس سے بے حیائی عام ہو تو دونوں کو سنگسار کیا جا ئے ورنہ تو صرف لڑکے کو۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100843 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More