ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے
ہیں جو کہ دنیا کی معاشی سپر طاقت ہو سکتا ہے زرعی سپر طاقت ہو سکتا ہے
دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھ کر بڑی زرعی طاقت بن سکتا ہے اور پوری
دنیا پر پاکستان کا راج ہو سکتا ہے اس کے لیے عوام کا کردار کسی تعارف
کی محتاج نہیں ہے لیکن اگر ضرورت ہے تو صرف اور صرف ایک ایسے لیڈر کی
جو ہم کو لیڈ کر سکے اور جو سوچے تو صرف پاکستان کے لیے جو سوچے توصرف
عوام پاکستان کیلئے اس کے اداروں کی مضبوطی کے لیے بہت سے دارے کمزور
تھے لیکن جب ان کو چھے چلانے والے ملے تو آج ان کا مقام سب کے سامنے ہے
جس دن پاکستان کو ایسا لیڈر مل گیا اس کو اس دنیا کی بڑی طاقت ہونے سے
کوئی نہیں روک سکتا اورجن مشکلات میں یہ ملک چلتا رہا اورجس طرح کے ظلم
کے پہاڑ اس پہ ٹوٹے اور ان حالات میں بھی اس کاقائم رہنا یقینا ایک
معجزہ ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ آنیوالے وقتوں میں دنیا پاکستان کی
معترف ہو گی بات ہو رہی تھی قومی اداروں کے بارے میں اور غالبا پی آئی
اے کی تو جناب یہ ایک ایسا ادارہ تھا کہ جس نے سعودی عرب، متحدہ عرب
امارات، سری لنکا اور کئی دوسرے ممالک کی ائیرلائینوں کو قائم کرنے میں
اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا جس
کی وجہ سے ان ممالک کی ائیر لائینوں کاشماردنیا کی بہترین اور صف اول
کی ائیر لائینوں میں ہوتا ہے یہ سب اسی پی آئی اے کی وجہ سے ہے جو آج
خود ایک بے بسی کی تصویر نظر آرہا ہے انٹر نیشنل اخبارات میں جس کی
کارکردگی پاکستان کے حکمرانوں کا منہ چڑھا رہی ہوتی ہے یورپ اور امریکہ
میں جس کی غیر معیاری سروس کی وجہ سے پابندی عائد کی جانے کی کئی
وارننگز دی جا چکی ہیں اور بعض یورپی ممالک میں اس کی پروازوں پر
پابندی بھی عائد ہے اور جو بھی روٹ کچھ منافع دے سکتے ہیں ان کو کوڑیوں
کے بھاؤ بیچنے کی کوشش کی جاتی رہیں ہیں صرف حج پروازوں کو اگر صیحح
طریقے سے کنٹرول کیا جائے تو پی آئی اے کو منافع بخش بنایا جا سکتا ہے
پی آئی اے کی کانامی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ
ہم ان لوگوں کو اداروں کی بھاگ دوڑدے دیتے ہیں کہ جو ان کی الف ب بھی
نہیں جانتے اگر کسی ٹرک ڈرائیور کو جہاز اڑانے کے لیے دے دیا جائے تو
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سے کن نتائیج کی توقع کی جا سکتی ہے بات
کرنیکا مقصد یہ ہے کہ ہم نے ایسے ایسے لوگوں کو پی آئی اے جیسے اہم
اداروں میں لگایا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان اہم اداروں کی کارکردگی بہتر
ہونے کی بجائے دن بدن خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے اور جس کا خسارہ
ہے کہ بڑھتے بڑھتے کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے اورجن لوگوں کو بھی لگایا
جاتا ہے وہ ظاہری سی بات ہے کہ پیسے دے کہ ایسی سیٹوں پہ لگتے ہے
اورانھوں نے اپنی رقم سود سمیت واپس لینی ہوتی ہے سووہ وہی کام کرتے
ہیں کہ جس سے ا نکی لگائی ہوئی رقم واپس مل سکے اس لیے ایسے لوگوں سے
خیر کی توقع مشکل ہے اور سارے پاکستان کی عوام جانتے ہیں کہ یہ وہ واحد
ادارہ ہے جہاں اب کرپشن اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور چیف جسٹس کے
ریمارکس جو کے اس کی کارکردگی اس کے انتظامی افسران کی ناکامی کا ثبوت
اور ان کی کرپشن کو بیان کرتے ہیں کہ پی آئی اے میں ایک پرچی پر بھی
کسی کو بھی بھرتی کیا جا سکتا ہے واقعی سچ ہے جس ادارے کی ایسی حالت ہو
گی اس کا انجام ایسا ہی ہو گا اس کے علاوہ اسمبلی اراکین اوران کے رشتہ
داروں کو دیے جانے والے ہوائی ٹکٹ اگران جیسے لوگ ادارے کی گردن پر
بیٹھ جائیں گے تووہ کیا کرئے گاسب سے پہلے اس ادارے میں آپریشن کلین
سویپ کرنیکی ضرورت ہے جو بھی وفاقی یا صوبائی منسٹرز اوردوسرے سرکاری
کارکنوں کو مفت ٹکٹ دے جاتے ہیں ان پر پابندی ہونی چاہیے تب تک جب تک
کہ ادارہ منافع بخش نہیں ہو جاتاجس طرح سابق وزیر اعظم شوکت عزیز صاحب
کے دور میں نیشنل ہائی وے (این ایچ اے) کو مالی مشکلات سے نکالنے کے
لیے سرکاری گاڑیوں کو بھی ٹول ٹیکس دینے کا پابند کیا گیا تھا اس کے
علاوہ صحافیوں اور دوسرے اداروں کے ورکروں جن کو ہاف میں ٹکٹ ملتے ہیں
ان سے یہ سہولت واپس لے لیی جائے ایسے لوگ ادارے کی اس پسماندگی کو دور
کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اس کے بعد حکومتی ایوانوں میں
بیٹھے ہوئے لوگ بھی ادارے کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے رعائیتی ٹکٹوں کو
لینے سے انکار کر دیں تاکہ ادارے کو منافع بخش بنایا جاسکے اس کی سروسز
کو بہتر کیا جائے اوراس کا معیار عالمی روایات کے مطابق کر دیا جائے
ایسا کسی بھی ملک میں نہیں ہوتا کہ سال میں سب سے زیادہ رسکی پروازیں
چلائی جائیں جس میں بہت سی حادثات کا شکارہونے سے مشکل سے بچتی ہیں جس
طرح کچھ دن پہلے پی آئی اے کی پرواز جو کہ کراچی سے چلی تھی اس کے انجن
میں آگ لگ گئی اور بہت ہی مشکل سے اس کو بچایا جا سکا جس میں ملک کی
اہم شخصیات سوار تھیں جن میں چیف جسٹس آف پاکستان بھی سوار تھے اور
ایسا واقعہ پچھلے ماہ میں ہونے والا دوسرا واقعہ ہے جس کے بعد پتا چلا
کہ اس جہاز کو یورپ میں اڑان کی بھی اجازت نہیں تھی لیکن اس کو اپنے
ملک میں استعمال کیوں کیا گیا کیا ہمارے اپنے لوگوں کی جانوں کی کوئی
قیمت نہیں ہے ان تمام برائیوں کی بڑی وجہ مناسب فلائیٹ چیکنگ کانہ ہونا
ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ائیر لائن یورپ میں مسلسل دباؤ کا شکار ہے
اور اگر ایسا ہی رہا تو یہ نہ ہوکہ ایتھوپیا جیسا ملک بھی ہماری
پروازوں پرپابندی لگادے اب بھی وقت ہے ایماندار اورقابل لوگوں کو ان
اداروں میں لگایا جائے تاکہ ان کی کارکردگی کوبہتر کیا جائے کرپشن
کوختم کرنے کے ٹاسک فورس قائم کی جائے اورتمام ملازمین کے اثاثوں پر
نظر رکھی جائے اور کرپشن فری ائیر لائن کیے قیام کی کوشش کی جائے جس کے
لیے موجودہ انتظامی افسران کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اقدامات کرنے کی
ضرورت ہے اور جو بھی عناصراس میں ملوث ہوں ان کو سزا دی جائے تب جا کہ
ان اداروں کوکرپشن سے پاک اورعالمی معیارکے مطابق بنایا جاسکتا ہے ۔ |