دنیا بھر میں معیشت کو چلتا رہنے
کے لیے کام پر یقین کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ ہڑتال یعنی کام
کی بندش کو کام سمجھ لیا گیا ہے! کسی بھی اِشو پر کام کاج روکنا اور
رکوادینا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ عوام ذہنی طور پر تیار بھی رہتے ہیں۔
صورتِ حال کے بدلنے کا اندازہ جس قدر جلد عوام کو ہو جاتا ہے اُس قدر جلد
تو سیاست دانوں اور انتظامیہ کے لوگوں کو بھی نہیں ہو پاتا۔ شہر میں کہیں
بھی کچھ ہوتا ہے تو لوگ، از خود نوٹس کے تحت، تیزی سے کاروبار بند کرنے
لگتے ہیں!
کراچی میں حالات کا بگڑنا اب کوئی حیرت انگیز امر نہیں۔ ہاں، کبھی کبھی کچھ
دن تک سب کچھ ٹھیک چل رہا ہو تو معاملات فہم سے بالا تر ہوتے جاتے ہیں، ذہن
الجھنے لگتا ہے۔ جب کچھ نہیں ہو رہا ہوتا تو دِل کو دھڑکا سا لگا رہتا ہے
کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے! جو کچھ معمول تھا وہ اب کہیں دکھائی نہیں دیتا اور
جو کل تک غیر معمولی ہوا کرتا تھا وہ اب معمول کی سطح پر آگیا ہے۔ جب
انتظامیہ کہتی ہے صورتِ حال معمول پر آگئی ہے تو دِل سہم سا جاتا ہے کہ قتل
و غارت دوبارہ تو شروع ہوگئی!
|
|
تنخواہ دار اور کسی حد تک متعین اُجرت پانے والے تو کسی نہ کسی گزر بسر کر
ہی لیتے ہیں۔ زندگی اگر عذاب بن گئی ہے تو اُن کے لیے جو روز کنواں کھود کر
اپنے لیے پانی یعنی رزق نکالتے ہیں۔ شہر بند ہو تو اِن غریبوں کے گھروں کے
چولھے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ اِنہیں کِسی نہ کِسی طور کمانا ہی پڑتا ہے تاکہ
سانسوں کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔ خراب حالات میں بھی کچھ لوگ جیسے تیسے
کام کرتے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو گزارے کی سطح سے
نیچے گر جائیں۔ زندگی کا یہی سب سے سَفّاک رُوپ ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ
جن کے ہاتھ میں اقتدار و اختیار ہے وہ سب کچھ دیکھ کر کچھ نہیں دیکھ رہے،
بہت کچھ کرنے کے قابل ہوکر بھی کچھ نہیں کر رہے۔
چلنے والوں کی روش دُرست کرنا تو ممکن نہیں، ہاں اُن کے پیروں کی جوتیوں کی
مرمت کے لیے یہ صاحب اپنے سامان کے ساتھ حاضر ہیں۔ مجبوری کی حالت میں
اِنسان کبھی کبھی تھوڑا سی شجاعت کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ یہ ”مرتا کیا نہ
کرتا“ والا معاملہ ہے۔ مگر پھر بھی حوصلے کی داد تو دینی ہی پڑے گی۔ چاروں
طرف کام بند ہے مگر پھر بھی کوئی تو ہے جو اپنے اوزاروں کے ساتھ دیہاڑی
کمانے کے لیے میدان میں ہے۔ اور اللہ پر توکّل بھی ہے کہ اِس گئے گزرے،
”روزی شکن“ ماحول میں بھی اِتنا تو مل کر ہی رہے گا کہ دو وقت کی روٹی کا
اہتمام ہوسکے! یہ توکّل ہی بڑی چیز ہے۔
جن کے ہاتھوں میں شہر کی باگ ڈور ہے انہیں سوچنا چاہیے کہ جب شہر کی نبض
ڈوبتی ہے، کام کاج بند ہوتا ہے تو بہتوں کو دو وقت کی روٹی کیلئے بھی تڑپنا
اور سِسَکنا پڑتا ہے۔ کام کی بندش کے دوران ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی
نے سب کو مساوی حیثیت میں نہیں نوازا۔ چند ہی افراد ایسے ہیں جن کی زندگی
میں بظاہر کوئی دشواری، پریشانی اور الجھن نہیں۔ معاشرے میں غالب اکثریت
اُن کی ہے جو یومیہ مشقت کے نام زندہ رہنے کا خراج ادا کر رہے ہیں۔ جو لوگ
اپنی بات منوانے کے لیے شہر یا شہر کے چند علاقوں کو بند کرانے پر تُل جاتے
ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا کرنے سے بہت سے بچے بھوک سے بلکتے رہ
جاتے ہیں۔ ملازمت یا دُکانداری وغیرہ نہ کرنے والے ٹھیلہ یا پتھارا لگاکر
کماتے ہیں۔ یعنی روز کنواں کھودیے، روز پانی نکالیے۔ کنواں کھودنے پر
پابندی ہو تو اُنہیں پیاسا رہنا پڑتا ہے۔ غریبوں پر زندگی پہلے ہی کیا کم
ستم ڈھا رہی ہے کہ اُن پر مزید ستم ڈھائے جائیں؟ نامساعد حالات میں بھی جو
رزق کے حصول کے لیے گھر سے نکلتے ہیں اُن کی حوصلہ افزائی اور دِل جُوئی ہر
اُس اِنسان پر فرض ہے جس کے سینے میں دِل دھڑکتا ہے!
(فوٹو گرافی : محمد جمیل) |